گزشتہ کالم میں ہم نے سی پیک پر خدشات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی، اگر صرف پاک چین تجارت کے اعداد و شمار پر نظر دوڑالی جائے تو آپ کے جسم میں ایک بار کرنٹ ضرور دوڑ جاتا ہے۔ دوستی دوطرفہ ہوتی ہے، لیکن ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ سی پیک اور باہمی تجارت کا پلڑا چین کی طرف بہت زیادہ جھکا ہوا ہے، حالاں کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، وہ ڈیڑھ ارب آبادی والا ملک ہے، پاکستانی معیشت تو اس کے کسی ایک صوبے کی معیشت سے بھی چھوٹی ہے، لیکن اس کے باوجود چین کی پاکستان کو برآمدات 12 ارب ڈالر کو چھو رہی ہیں، یعنی ہمارا دوست ملک 22 کروڑ کی آبادی والے پاکستان کو بارہ ارب ڈالر کی مصنوعات سالانہ فروخت کررہا ہے، جبکہ ڈیڑھ ارب نفوس والا چین پاکستان سے صرف پونے دو ارب ڈالر کی اشیا خریدتا ہے۔ یعنی سالانہ دس ارب ڈالر اضافی ہماری جیب سے نکل کر چین جا رہے ہیں، پاکستان کو اتنا تجارتی خسارہ کسی اور ملک سے درپیش نہیں ہے، اگر سالانہ دس ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ نہ ہو تو پاکستانی معیشت بحران سے نکل سکتی ہے۔ دوستی کا تقاضا بھی یہ ہے کہ چین پاکستان سے زیادہ سے زیادہ مال خریدے، وہ جو اشیا ہمیں برآمد کر رہا ہے، انہیں بھی پاکستان میں تیار کرنے کے لئے صنعتیں لگائے، لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ اس بار یوم آزادی پر ہمارے قومی پرچم اور جھنڈیاں بھی چین سے آئی ہیں، موم بتی اور پنسلیں جو گھریلو صنعتیں تھیں، وہ تباہ ہوگئی ہیں، سلے ہوئے کپڑے غریب خواتین کا روزگار تھا، لیکن وہ بھی اب جاتا رہا، کیوں کہ یہ ساری اشیا چین سے انتہائی سستے داموں آرہی ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ڈمپ ہو رہی ہیں۔ چین پر ساری دنیا میں ڈمپنگ کے الزامات لگ رہے ہیں، لیکن کم از کم پاکستان سے دوستی کا تو یہ تقاضا ہے کہ چین تجارت میں توازن لائے۔ اس کے برعکس امریکہ سے ہماری کشیدگی رہتی ہے، لیکن امریکہ سے تجارت میں توازن ہمارے حق میں ہے۔ ہم نے گزشتہ برس امریکہ سے تجارت میں ایک ارب ڈالر کا منافع کمایا، ہماری برآمدت ساڑھے تین ارب ڈالر تھیں، جبکہ وہاں سے ہم نے ڈھائی ارب ڈالر کا سامان منگوایا۔ یہ اعداد و شمار چین کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے اور اسے یہ احساس دلانا ہوگا کہ سستی اشیا کی ڈمپنگ پاکستانی معیشت کے لئے بحران کا سبب ہے، یہاں گھریلو صنعتیں تباہ ہوگئی ہیں، اس کے ساتھ چین کے ساتھ تجارت پر انڈر انوائسنگ کو بھی ہمیں روکنا ہوگا، چینی مصنوعات پر اضافی ڈیوٹی لگا کر اپنی صنعتوں کو تحفظ دینا پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔
اسی طرح ہمیں آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ ایک سے ڈیڑھ فیصد شرح سود پر ملتا تھا، لیکن یہی قرضہ چینی کمپنیوں اور بینکوں سے آٹھ آٹھ فیصد پر لیا گیا، جس کے نتیجے میں ہمارے اوپر قرضوں کا بوجھ بھی تیزی سے بڑھا ہے اور پچھلی حکومت کے پانچ برسوں میں یہ 60 ارب ڈالر سے بڑھ کر 90 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ اب قرضوں کی قسط ادا کرنے کے لئے بھی ہمیں چین اور دیگر سے قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح سی پیک ایک معاشی منصوبہ تھا، یہ چین کی بھی ضرورت تھا، کیوں کہ اسے ایک قریبی بندرگاہ کی ضرورت تھی، جس کے لئے اس نے گوادر کا انتخاب کیا تاکہ تیل کی درآمد آسان اور بلارکاوٹ جاری رکھ سکے، اس لئے گوادر اور اس تک رسائی میں چین کو بھی ہاتھ بٹانا چاہئے تھا، لیکن اس کے برعکس چین نے سڑکوں کے سارے انفرا اسٹرکچر کا بوجھ پاکستان پر ڈال دیا، وہ سڑکیں جو ہم سے بھی زیادہ چین کے کام آنی ہیں، ان کی تعمیر ہم نے خود کی، چین نے اس کے لئے سرمایہ دیا، لیکن وہ بھی انتہائی زیادہ شرح سود پر۔ بات یہیں تک نہیں رہی، بلکہ اس کے ساتھ چین نے اپنی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے کی شرط بھی رکھی، اوپن ٹینڈر کے بجائے چینی کمپنیوں کو ٹھیکے دیئے گئے اور یہ ٹھیکے انتہائی مہنگے نرخوں پر دیئے گئے۔ صرف خانیوال موٹر وے کی مثال آپ دیکھ لیں، جہاں 4 سو کلومیٹر سڑک کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو ایک ارب روپے فی کلومیٹر سے بھی زیادہ دیا گیا۔ لاہور میٹرو ٹرین کے ٹھیکے کا بھی یہی حال ہے، پھر چینی کمپنیاں ورکر بھی اپنے لے آئیں، انجینئر بھی وہیں سے آئے، یعنی مہنگے قرضوں کی صورت میں جو سرمایہ دیا گیا، وہ سارا بمعہ منافع کے واپس چین چلا گیا، اب قرضوں کی اقساط اور سود ہمیں الگ سے دینا ہے۔ لاہور میٹرو ٹرین کے منصوبے کو آپ دیکھ لیں، اب آخری مراحل میں بھی آپ کو چینی ہی کام کرتے نظر آتے ہیں، حالاں کہ انہیں پاکستانی انجینئرز کو رکھنا چاہئے تھا، انہیں تربیت بھی مل جاتی۔
صنعتی زونز سی پیک کا ایسا منصوبہ تھا، جس سے پاکستانیوں اور پاکستان کی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا تھا، لیکن اس ضمن میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، پاکستان سے سڑکوں پر مہنگی سرمایہ کاری کرا دی گئی، لیکن صنعتی زون ایک بھی اب تک قائم نہیں ہوا، بجلی کے پلانٹ لگائے گئے، یہ اچھا اقدام تھا، لیکن اس میں بھی گڑبڑ یہ ہوئی کہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹ لگا دیئے گئے، جن سے دنیا اس وقت جان چھڑا رہی ہے، کیوں کہ یہ ماحول دشمن ہیں، یہ جس علاقے میں لگتے ہیں، وہاں کے مکینوں کے لئے وبال بن جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستان میں موجود بے پناہ آبی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی طرف توجہ دی جاتی، جو ماحول دوست ہوتی اور اس کے ساتھ اس کی قیمت بھی ایک چوتھائی ہوتی۔
سی پیک کا سب سے اہم منصوبہ گوادر بندرگاہ کو تجارت کے لئے مکمل طور پر فعال کرنا ہے، وہاں تیل درآمد کرنے کا بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے، بندرگاہ کو
ٹرانزٹ کے لئے پرکشش بنانا ہے، وہاں صنعتی زون کا قیام عمل میں لانا ہے، بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کرنا ہے، لیکن بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بھی منصوبہ اب تک حقیقت کی شکل اختیار نہیں کر سکا، بیشتر منصوبے تو اب تک کاغذات پر ہیں۔
اسی طرح کراچی سے پشاور ریلوے لائن کا منصوبہ بھی کاغذات پر ہے، لیکن اس منصوبے کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا تاخیر کا شکار ہونا ہماری خوش قسمتی ہے، ورنہ سابقہ حکومت کے دور میں اس پر کام ہوتا تو ہم موجودہ براڈ گیج ٹریک ہی چین نے بچھا دینا تھا، موجودہ ٹریک جس پر ابھی دو برس قبل لودھراں لاہور سیکشن کا ٹریک ڈبل کرنے کے لئے 50 ارب خرچ کئے گئے ہیں، یہ سب بے کار جانے کا خدشہ تھا، اس وقت دنیا اسٹینڈرڈ گیج پر جاچکی ہے، چار سے پانچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی بلٹ ٹرینیں آچکی ہیں، ہمارے پڑوسی بھارت نے بھی جاپان سے بلٹ ٹرین کا معاہدہ کیا ہے، لیکن ہم سی پیک کے تحت وہی سو برس پرانا براڈ گیج ٹریک بچھانے جا رہے تھے۔ جس کی ٹیکنالوجی اب دنیا سے ختم ہو رہی ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے وزارت سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس مسئلے پر بات کی ہے، انہوں نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ ٹریک براڈ گیج نہیں، بلکہ اب دنیا بھر میں مروج اسٹینڈرڈ گیج بچھنا چاہئے، اس کے ساتھ انہیں یہ بھی کرنا چاہئے کہ نیا ٹریک علیحدہ سے بنایا جائے، اسے موٹر وے کے ساتھ بنایا جا سکتا ہے، تاکہ موجودہ ٹریک بھی ہمارے استعمال میں رہے، اسے ہم مال گاڑیوں کے لئے بھی مختص کر سکتے ہیں، پھر اضافی ٹریک ہونے سے ہم مزید علاقوں کو ریل نیٹ ورک سے جوڑ سکیں گے۔ ٹریک کے لئے چینی کمپنیوں کے بجائے ایف ڈبلیو او اور مقامی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کے لئے بات چیت شروع کی گئی ہے، یہ بھی اچھا اقدام ہے، کیوں کہ اس سے ایک تو سرمایہ باہر نہیں جاتا اور دوسرا روزگار بھی اپنے ہم وطنوں کو ملتا ہے، اگر مکمل ممکن نہ ہو، تب بھی ایف ڈبلیو او اور مقامی کمپنیوں کو اس منصوبے میں حصہ دار ضرور بنانا چاہئے، تاکہ ہمارے اپنے لوگ بھی تیار ہو سکیں۔
اسی طرح حکومت نے سی پیک منصوبوں میں ترکی اور سعودیہ جیسے دوست ممالک کو شامل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ بھی درست سمت میں قدم ہے، اس سے مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور پاکستان کا فائدہ ہوگا، کسی ایک ملک کے اقتصادی غلبے کے خدشات اگر کسی کے ذہن میں ہیں تو وہ بھی دور ہو جائیں گے۔ سی پیک منصوبوں کے لئے آئندہ قرضوں کے بجائے بی او ٹی یعنی بنائو چلائو اور منتقل کرو کا اصول اپنانے کا فیصلہ بھی ٹھیک ہے، اس سے ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ جو یہاں سے کمانا چاہتا ہے، اسے لگانا بھی اپنے پلے سے پڑے گا۔ ہمیں چین سے دوستی بھی نبھانی ہے، سی پیک منصوبے کو بھی آگے بڑھانا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملکی مفادات کا تحفظ بھی کرنا ہے۔ اگر ہم اپنا کیس اچھی طرح لڑیں تو چین بھی ہمارے تحفظات سمجھ جائے گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم چین سے بات کریں، نہ کہ مغربی میڈیا سے۔ ٭