عصائے کلیمی درکار ہے

وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس ملک چلانے کے لیے رقم موجود نہیں ہے۔ روزانہ چھ ارب روپے سود کی ادائیگی میں جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانی کو ٹھیک کرنے میں دو سال لگیں گے۔ دو سال گزار لیے تو ملک میں اتنا پیسا آئے گا کہ یہاں قرض اور بے روزگاری کے مسائل نہیں رہیں گے۔ ملک کا قرضہ پہلے چھ کھرب تھا، اب تیس کھرب ہو گیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے آنے والی حکومتیں جانے والی حکومتوں کو ملک کا خزانہ خالی کرنے کا ذمے دار قرار دیتی چلی آرہی ہیں۔ لیکن کوئی حکومت جاتے وقت اس خزانے کو بھرنے کا ضروری اہتمام نہیں کرتی، بلکہ وطن عزیز کو پہلے سے زیادہ قلاش اور مقروض کر جاتی ہے۔ یہی وجہ یہ کہ آج بقول عمران خان پاکستان تیس کھرب روپے کا مقروض ہے اور ہمارے پاس ضروری اخراجات کے لیے بھی رقم موجود نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل اور بعد میں لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے، سرکاری خزانہ بھرنے اور آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ایوان اقتدار میں داخل ہوتے ہی وزیر خزانہ اسد عمر کو حقائق کا علم ہوا تو انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں اور دوست ممالک کے ساتھ آئی ایم ایف سے بھی قرضوں کے حصول کا عندیہ دیا اور اب وزیراعظم عمران خان اعلان کررہے ہیں کہ ان کے پاس ملک چلانے کے لیے رقم موجود نہیں اور حکمرانی کو ٹھیک کرنے کے لیے دو سال لگیں گے۔ مسلم لیگ نے 2013ء کے عام انتخابات سے قبل دیگر بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ ملک بھر سے بجلی کی لوڈشیڈنگ چھ ماہ میں ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مسلم لیگ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر کے گئی تو ملک میں آج بھی پانچ تا چھ ہزار میگاواٹ بجلی کی قلت ہے اور صارفین کراچی جیسے بین الاقوامی شہر کے کئی علاقوں میں آٹھ تا بارہ گھنٹے روزانہ بجلی سے محروم رہتے ہیں۔ اب اگر تحریک انصاف کی حکومت اچھی حکمرانی کے لیے چھ ماہ کے بجائے دو سال کی یعنی چار گنا زیادہ مدت طلب کررہی ہے، جبکہ ابتدائی سو دنوں کے دوران بھی اس کی کارکردگی میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی تو لوگ کس بنیاد پر یقین کریں کہ آئندہ پانچ برسوں میں کوئی بہتر تبدیلی نظر آئے گی۔ جس امر پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ہے، وہ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا ہے۔ گزشتہ دور میں ایک شخص وزیر خزانہ کی حیثیت سے ملک کو کھوکھلا کر کے بیماری کے بہانے لندن فرار ہو گیا اور پھر پلٹ کر واپس نہیں آیا۔ عمران خان کی حکومت اگر اپنی ساری توجہ فوری طور پر اسے واپس لانے پر مرکوز کر دے تو اس سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار میں جن جن لوگوں نے ملک و قوم سے دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن عزیز کو مقروض اور عوام کو مفلوک الحال کر کے اپنے ذاتی اثاثوں میں بے پناہ اضافہ کیا تھا، ان سب کی تفصیلات اگلوائی جا سکتی ہیں اور لوٹا ہوا پیسا نکلوایا جا سکتا ہے۔ یہ لاتوں کے بھوت ہیں، باتوں سے نہیں مانیں گے۔ ان کے لیے عام قوانین اور عدالتی چکروں سے زیادہ خصوصی اور سخت قوانین بنا کر کارروائی کرنی ہو گی۔ فرعونوں کے پروردہ جادوگروں اور ان کے سانپوں سے چھٹکارا پانے کے لیے عصائے کلیمی درکار ہے جسے حرکت میں لانے کی کسی میں جرأت نہ ہو تو اس کے لیے دو سال تو کیا دو سو سال بھی ناکافی ہوں گے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اس کی گواہ ہے۔
پاکستان دشمنوں کو پناہ دینے کی سب سے زیادہ شہرت رکھنے والے ملک برطانیہ نے مسلم لیگی دور حکومت کے بدترین لٹیرے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت برطانیہ کا مؤقف ہے کہ ایسے کسی اقدام کی ان کے قانون میں تو گنجائش موجود ہے، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کے مجرموں کو حوالے کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اور پاکستان نے اس سلسلے میں اب تک کوئی باضابطہ رابطہ نہیں کیا ہے۔ اس کی جانب سے درخواست موصول ہوئی تو برطانوی آئین و قانون کے مطابق کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ اہل وطن کو اچھی طرح یاد ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے مسلمانان ہند کے خلاف لندن میں سازشوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ آزادی کے بعد بھی کئی مرتبہ ’’لندن پلان‘‘ کے نام سے سامنے آیا۔ تازہ ترین مثال پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں کی ہے، جسے پاکستان کے حوالے کرنے سے برطانیہ صاف انکار کر چکا ہے۔ اس پر اپنے ہی ایک سابق جان نثار اور برطانوی شہری ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن میں قتل کرانے کا الزام تھا۔ اس کے علاوہ الطاف حسین نے برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں اپنی دہشت گرد تنظیم ایم کیو ایم کے ذریعے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو قتل کرایا ، جس کے لیے اسلحہ اور رقوم کی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی جانب سے فراہمی کے ثبوت و شواہد بھی واضح طور پر سامنے آ گئے تھے۔ برطانیہ کی مشہور زمانہ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نے جو چند روز میں بڑے بڑے مجرم کو پاتال سے نکال کر لا سکتی ہے، اس نے برطانیہ میں مقیم پاکستانی دہشت گردوں کے بارے میں تحقیقات مکمل کر کے ابتدا میں ان کے جرائم کے پردے چاک کر دیئے تھے، لیکن بعد میں بھارت اور امریکا کے دبائو پر برطانیہ نے خود اپنے قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے الطاف حسین سمیت تمام دہشت گردوں کو پناہ دے دی اور وہ بہت عرصے تک پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے برطانوی سرزمین کو استعمال کرتے رہے۔ پاکستان میں فوجی آپریشن کے بعد اﷲ اﷲ کر کے الطاف حسین کے دہشت گردوں کا زور ٹوٹا ہے۔ اب معاشی دہشت گردی کا ایک بڑا مجرم اسحاق ڈار برطانیہ میں پناہ لیے ہوئے ہے، جسے تحویل مجرمان کا معاہدہ نہ ہونے کی آڑ میں برطانوی حکومت پاکستان کے حوالے نہیں کر رہی، جبکہ خود برطانوی قوانین میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ پرانے اور حالیہ تمام واقعات سے یہ بات تو پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ جہاں پاکستان کے دشمن ملک ہمارے غداروں اور لٹیروں کو پناہ دے کر ہمارے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔ وہیں، خود ہماری حکومتیں بھی اپنے بیرونی آقائوں کے دبائو پر یا خود اپنی مصلحتوں اور کمزوریوں کے تحت قومی مجرموں کو وطن واپس لانے اور ان سے لوٹی ہوئی رقم اگلوانے میں ضروری دلچسپی نہیں لیتیں۔ اسحاق ڈار میاں نواز شریف کے سمدھی ہیں اور پاکستان سے لوٹی گئی ان سب کی بے پناہ دولت برطانیہ اور دوسرے ممالک میں موجود ہے۔ اگر اسحاق ڈار اور میاں نواز شریف کے بیٹوں حسین اور حسن کے ضمیر زندہ اور ہاتھ صاف ہوتے تو وہ بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت کے لیے پاکستان ضرور آتے۔ حسین اور حسن نواز نے تو لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کے لیے پاکستانی شہری ہونے ہی سے انکار کر دیا اور ان پر ماں سے زیادہ دولت کی محبت غالب آ گئی۔ ایسے لوگوں کا پاکستان کا شہری نہ ہونا ہی بہتر ہے۔ عمران خان کی حکومت چند ہفتوں یا مہینوں میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج کی مدد سے تمام لٹیروں سے پاکستان کی لوٹی ہوئی رقم نکلوانے میں کامیاب نہ ہوئی تو عوام کو اس پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔ یاد رہے کہ مجرموں کو بچانے اور ان کے لیے سہولت فراہم کرنے والی ہر حکومت کا انجام گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں بد سے بدتر ہو گا۔

Comments (0)
Add Comment