ملائیشین فضائی کمپنی MAS کا جہاز کراچی سے کوالالمپور کے لیے ہمیشہ رات کے گیارہ بج کر تیس منٹ پر ٹیک آف کرتا ہے۔ 80 کی دہائی کے آخر میں جب MAS والوں نے کراچی سے پرواز کا آغاز کیا تھا تو اس وقت بھی فلائٹ کا کراچی سے روانہ ہونے کا یہی ٹائم تھا۔ ان دنوں میں یہ پرواز آنے اور جانے کے دوران دہلی میں بھی رکتی تھی۔ لیکن چند برسوں کے بعد مسافروں کی تعداد میں اضافے کے سبب انہوں نے کراچی اور دہلی کے لیے الگ الگ پروازیں شروع کر دیں۔ اب چند برسوں سے یہ کراچی والی پرواز، کراچی میں مسافر اتار کر ابوظہبی چلی جاتی ہے۔ وہاں سے واپسی پر کراچی سے کوالالمپور جانے والے مسافر اٹھاتی ہے۔
پڑوسی ملک سنگارپور سے مقابلے کے سبب ملائیشیا والے بھی سنگارپور کی طرح ہر معاملے میں وقت کی پابندی کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس لیے ملائیشیا کے جہاز اور ٹرینیں وقت پر روانہ ہوتی ہیں اور مقررہ ٹائم میں اپنا سفر مکمل کرتی ہیں۔ کوالالمپور ایئرپورٹ سے شہر کا مرکزی اسٹیشن 80 کلو میٹر دور ہے، جو KL سینٹرل اسٹیشن کہلاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے مسافروں کو وہاں تک پہنچانے کے لیے’’KLIA ایکسپریس‘‘ ٹرین چلتی ہے جو برسوں سے یہ درمیانی فاصلہ 28 منٹ میں طے کرتی ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں چلنے والی الیکٹرک ٹرامیں، مونو ریل اور بسیں مقررہ وقت پر ہر اسٹیشن اور بس اسٹاپ پر پہنچتی ہیں اور ٹھہرنے کا مقررہ وقت پورا کر کے روانہ ہوتی ہیں… لیکن دوستو! اس دن، جب مجھے کراچی سے کوالالمپور روانہ ہونا تھا، شام کو میرے ٹریول ایجنٹ نے فون کر کے مجھے بتایا کہ میری فلائٹ دو گھنٹے لیٹ ہے، یعنی اب وہ ساڑھے گیارہ کے بجائے ایک بج کر تیس منٹ پر روانہ ہو گی۔ یہ سن کر پہلے تو مجھے یقین ہی نہ آیا۔ پھر میں نے تصدیق کی غرض سے ایئرپورٹ فون کیا۔ انہوں نے بھی یہی بتایا کہ فلائٹ پہلے بتائے ہوئے وقت سے مزید آدھا گھنٹہ لیٹ ہے۔ یعنی کراچی سے دو بجے ٹیک آف کرے گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایئرپورٹ پر تین گھنٹے پہلے پہنچنے کے لیے مجھے گیارہ بجے گھر سے نکلنا تھا۔ اگلے دن کراچی میں ہڑتال کا اعلان تھا۔ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ رات ہی سے ٹریفک بند کرا دیا جائے گا۔ اس خیال سے میں آٹھ بجے ہی بیگ اور تھیلا اٹھا کر نکل کھڑا ہوا۔ میں نے سوچا کہ راستے بند ہونے سے پہلے ہی ایئرپورٹ پہنچ جائوں تو بہتر ہے۔
ایئرپورٹ پر زیادہ وقت ٹھہرنے سے اکثر لوگ بوریت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن میرے لیے یہ بہترین وقت ہوتا ہے۔ ایئرپورٹ کے پرسکون ماحول میں کوئی ڈسٹرب کرنے والا نہیں ہوتا۔ اس لیے میں کئی بھولی بسری باتیں یاد کر کے انہیں کاغذ پر منتقل کر دیتا ہوں۔ میں اس کام کے لیے ہمیشہ کاغذ، قلم اور پیپر ہولڈر ساتھ رکھتا ہوں۔ چھ ماہ کے فیلڈ ٹرپ کے دوران ناروے اور سویڈن کی شمالی بندرگاہوں پر ہوائی جہاز کے ذریعے آنا جانا ہوتا تھا۔ موسم کی خرابی کے سبب کئی مرتبہ فلائٹس چوبیس گھنٹے delay رہیں۔ لیکن مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی۔ اس طرح ایئرپورٹ پر مجھے اپنا شوق پورا کرنے کا موقع ملتا تھا۔ یعنی کسی پرانے سفر کی باتیں یاد کر کے انہیں تحریر کرنے کا وہ بہترین موقع ہوتا تھا۔
کراچی میں اگلے دن ہونے والی ہڑتال کے خوف سے سڑکیں کافی حد تک سنسان تھیں۔ میں اپنے گھر سے ایئرپورٹ تک نصف گھنٹے میں پہنچ گیا۔ کسٹمز، بورڈنگ کارڈ اور امیگریشن کی منزلیں طے کر کے انتظارگاہ تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ ہر جگہ طویل قطار تھی۔ ڈیوٹی انجام دینے والے عملے کے کارندے کم تھے یا شاید انتہائی سست۔ ایک جگہ انٹیلی جنس والے کھڑے ہر ایک کو عقابی نگاہوں سے گھور رہے۔ یکایک انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور بیگ کھولنے کی ہدایت کی۔ میں سمجھ گیا کہ میری داڑھی کی وجہ سے مجھے روکا گیا ہے۔ اب یہ فیشن چل پڑا ہے کہ ہر باریش شخص کو مشکوک سمجھا جاتا ہے۔
میں ایک مرتبہ ٹورسٹ بس میں ملائیشیا سے سنگاپور جارہا تھا۔ بارڈر پر موجود پولیس نے میرے ہاتھ میں سبز رنگ کا پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر مجھے روک لیا۔
’’آپ کے سامان کی تلاشی لی جائے گی۔‘‘ ایک افسر نے کہا۔
میں نے وہاں موجود ایک افسر سے ملئی زبان میں پوچھا۔ ’’آخر کیوں؟ یہاں میرے ساتھ مختلف ملکوں کے چالیس کے لگ بھگ عورتیں اور مرد ہیں۔ ان میں سے صرف میرے سامان کی تلاشی کیوں لی جارہی ہے؟‘‘
’’معاف کیجئے گا۔‘‘ وہ بولا۔ ’’ہم داڑھی کی وجہ سے آپ کو مشکوک سمجھ بیٹھے تھے۔‘‘
سو انٹیلی جنس والوں کی عقل بھی کبھی کبھی گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔ داڑھی کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں کہ اس میں بم یا بندوق چھپائی گئی ہو۔
بہرحال کراچی ایئرپورٹ پر انٹیلی جنس افسر کے حکم پر میں نے بے دلی کے ساتھ اپنا بیگ کھولا۔ بے دلی سے اس لیے کہ مجھے معلوم تھا، بیگ سے سامان نکالنے کے بعد اسے دوبارہ بیگ میں سمونا انتہائی مشکل کام ہے۔ گھر میں ایک ایک چیز کو آرام سے سیٹ کر کے رکھا جاتا ہے۔ لیکن ایسی چیکنگ میں، جہاں ہر آدمی عجلت میں ہوتا ہے، جلدی میں سامان کو سیٹ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ لیکن حق کی بات کی جائے تو ان افسروں نے بیگ تو کھلوایا، مگر پھر چیکنگ کے بعد اس میں دوبارہ سامان سیٹ کرنے میں میری پوری مدد کی۔ کراچی کے کسٹم اور امیگریشن کے اہلکار اب جاکر کچھ تمیز سے بات کرنے لگے ہیں، جبکہ دس سال پہلے تک ہمارے ہاں مسافروں کے ساتھ سیدھے منہ بات کرنے کا فیشن نہیں تھا۔
امیگریشن کے وقت ایک نوجوان افسر میرے قریب آیا اور بولا۔ ’’سائیں! آپ الطاف شیخ ہیں؟‘‘
اس کی قمیص پر آویزاں ٹیگ پر ’’قادری‘‘ لکھا ہوا تھا۔ میں نے کہا۔ ’’آپ یقیناً لاڑکانہ کے ہیں یا حیدرآباد کے۔‘‘
’’آپ یہ بات یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘ اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔
’’میں جن تین ’’قادری‘‘ صاحبان کو جانتا ہوں، وہ انہی دو شہروں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ایک سائیں ایاز قادری، دوسرے ہمارے پٹارو کے ٹیچر پروفیسر مدد علی قادری اور تیسرے سندھ کلچر ڈپارٹمنٹ کے محمد علی قادری۔‘‘
اس نے بتایا کہ سائیں مدد علی اس کے عزیز ہیں۔ وہ بھی ادیب ہیں اور ادب سے لگائو رکھتے ہیں۔ اس نے میری کئی کتابیں پڑھی تھیں۔ بہرحال اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ مجھ سے مل کر واقعی اسے خوشی ہوئی ہے۔ وہ اپنے افسران سے تعارف کراتے ہوئے میرے لیے بھاری بھرکم القابات استعمال کرتا رہا۔ اس نے جلدی جلدی میرا پاسپورٹ اور بورڈنگ کارڈ پاس کرا کے مجھے فارغ کرا دیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ ہم ادیبوں کی بھی کہیں کہیں عزت ہوتی ہے۔ بڑے انعام اور اکرام نہ سہی، ایسی تکریم ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ افسوس کہ میں عجلت میں اس کا پورا نام نوٹ نہیں کر سکا تھا۔
بورڈنگ کارڈ پر گیٹ نمبر 25 درج تھا۔ وہاں پہنچ کر ایئرپورٹ کے عملے سے دریافت کیا تو جواب ملا۔
’’ابھی تک پرواز ہی بے یقینی ہے۔ اس لیے فی الحال گیٹ مقرر نہیں کیا گیا۔‘‘
بہرحال اس وقت دس ہی بجے تھے۔ دو بجے تک کوئی آسرا نہ تھا۔ اس لیے میں ایک ایسے گوشے میں جا بیٹھا، جہاں سے ٹی وی بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ فی الحال میں کاغذ قلم نکال کر لکھنے بیٹھ گیا۔ میں وقفے وقفے سے کسی کو فون بھی کرتا اور سنتا رہا۔ ملائیشیا اور ہمارے وقت میں تین گھنٹے کا فرق ہونے کے سبب میں نے اندازہ لگایا کہ غلام علی سولنگی، جسے ہم صرف ’’علی‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں، یقیناً سو چکا ہو گا۔ کیونکہ اس وقت ملائیشیا میں رات کا ڈیڑھ بج رہا ہو گا۔ اس لیے میں نے اسے فون کر کے اپنی پرواز کے delay ہونے کا بتانا مناسب نہیں سمجھا، البتہ ایس ایم ایس ضرور کر دیا کہ میری فلائٹ ڈھائی گھنٹے لیٹ ہے۔ وہ اس وقت بھی جاگ رہا تھا۔ فوراً جواب آیا کہ کوئی بات نہیں۔ وہ کوالالمپور سینٹرل اسٹیشن پر میرا منتظر ہو گا۔
چند دن قبل علی کے ہاں ٹھہرنے کا پروگرام فائنل کرنے سے قبل میں نے ایک مرتبہ پھر بے تکلفی سے پوچھا تھا۔ ’’دیکھو علی! اگر میری آمد سے تمہاری روٹین ڈسٹرب ہوتی ہے تو فرینکلی بتا دو۔‘‘
’’سائیں، آپ یہ کیسی باتیں کررہے ہیں۔‘‘ اس نے پرخلوص لہجے میں کہا۔ ’’چار، پانچ دن تو کیا آپ میرے ہاں چار پانچ سال بھی ٹھہریں گے تو مجھے خوشی ہو گی۔‘‘
بہرحال میں نے خود کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے سفیر دوست ظفر شیخ کو دوبارہ فون کیا۔ ظفر اور میں ایک ہی دور میں سات، آٹھ سال تک جاپان میں رہے۔ اکثر ہماری ملاقاتیں ہوتیں اور سیر و سیاحت کے لیے ہم نے ساتھ ہی کئی شہروں کا سفر کیا۔ وہ ستّر کی دہائی میں فارن سروس جوائن کر کے ٹوکیو میں پاکستان کی ایمبیسی میں آئے تھے۔ اس کے بعد ہم الگ الگ ملکوں میں رہے۔ جب میں ملائیشیا گیا تو میں نے اسے بھی تبادلہ کرا کر ملائیشیا آنے یا محض سیر و تفریح کی غرض سے وہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ انہیں بھی ملائیشیا دیکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ میں ملائیشیا سے واپس آگیا، لیکن وہ ہر سال ملائیشیا جانے کا پروگرام بناتے رہے۔ وہ جرمنی، الجیریا اور آخر میں مصر اور سوڈان میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ کر ریٹائر ہوئے اور اب اس بات کو بھی دو سال گزر چکے ہیں۔ گزشتہ سال ظفر نے اچانک ملائیشیا جانے کا پروگرام بنایا اور مجھ سے پوچھا۔
’’وہاں آپ کا کوئی شناسا ہو تو بتائیں۔ میں اس کے ہاں ٹھہرنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے انہیں بتایا کہ علی ایک ایسا شخص ہے جو نہ صرف پورے ملائیشیا سے واقف ہے، بلکہ قواعد و ضوابط اور قوانین کے بارے میں بھی معلومات رکھتا ہے۔ جب طفر واپس آئے تو بہت خوش تھے۔ مجھے وقت نہیں مل سکا تھا کہ ان سے تفصیلی گفتگو کرتا۔ لیکن اب میں نے علی کے ہاں ٹھہرنے کا پروگرام بنایا تو میں نے ظفر کو فون کر کے پوچھا کہ میرا علی کے ہاں ٹھہرنا اس کے لیے تکلیف کا باعث تو نہیں بنے گا؟
’’یار آپ بھی کمال کرتے ہیں۔‘‘ ظفر نے کہا۔ ’’میری اس سے پہلے کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ میں آپ کے ریفرنس سے اس کے پاس 26 دن رہ کر آیا ہوں۔‘‘
ظفر نے بتایا کہ اس کا گھر دو منزلہ ہے۔ میاں بیوی کے علاوہ اس گھر میں اس کا بھائی اور بھانجا بھی رہتا ہے۔ اس نے کہا۔ ’’وہ بالائی تین کمروں میں سے ایک الگ تھلگ کمرہ آپ کے حوالے کر دیں گے۔ لیکن ان کے ہاں ایئرکنڈیشنر نہیں ہے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ہم جہاز کے انجن روم کے عادی کراچی میں بھی ایئرکنڈیشز استعمال نہیں کرتے۔‘‘
’’یار، بات یہ ہے کہ مجھے ایئرکنڈیشز کے بغیر نیند نہیں آتی۔ خاص طور پر خط استوائی ملکوں میں۔ جہاں بارش ہوتی ہے تو چند گھنٹے موسم اچھا رہتا ہے اور اس کے بعد پھر وہی گرمی۔‘‘ ظفر نے بتایا۔ ’’سو میں نے یہی سوچا تھا کہ ایک رات علی کے ہاں ٹھہر کر پھر کسی ہوٹل میں منتقل ہو جائوں گا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ علی کے خلوص کو دیکھ کر میں باقی ایام بھی اسی کے گھر میں ٹھہرا رہا۔‘‘
٭٭٭٭٭