بات خوشی کی تھی تو مٹھائیاں بھی تقسیم ہوئیں اور جشن بھی منائے گئے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے پر تحفظات کے باوجود حافظ جی کو لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومتی گاڑی اپنے وژن کے ٹریک پر چلنا شروع ہوگئی ہے۔ دورۂ کراچی میں ڈیم فنڈ ریزنگ کی ایک تقریب میں وزیر اعظم نے اتوار کے روز یہ اہم اعلان کیا کہ وہ پاکستان میں پیدا ہونے والے بنگالی اور افغانیوں کو پاکستانی شہریت دلوائیں گے، یعنی انہیں پاکستانی دستاویزات کا حامل بنا کر پاکستانی شناخت دی جائے گی، جس میں قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر ضروری قومی دستاویزات شامل ہوں گی۔ خان صاحب کے اس اعلان کی اطلاع پاتے ہی دونوں متعلقہ برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے مسرت کا اظہار کیا، جہاں جہاں ان کی آبادیاں ہیں، وہاں لوگ مستانہ وار گلی کوچوں میں نکل آئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں اور عمران خان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ عمران خان کے اعلان کے بعد ان طبقات کی خوشی دیدنی تھی، گویا انہیں نیا پاکستان مل گیا ہو اور سچی بات بھی یہی ہے کہ اگر ان کے مستقبل کے بارے میں خاں صاحب کا یہ اعلان کسی سازش کا شکار ہوئے بنا پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو ان برادریوں کے لئے تو نئے پاکستان کا وجود ایک حقیقت ہی ہوگی، جو بقول عمران خان ان کا وژن ہے۔
مجھے نہیں معلوم، میرے بنگالی دوست شاہد شاہ کا کیا حال ہے، جو بنگالیوں کی پاکستانی شناخت کے لئے چھوٹی عمر میں بڑا کام کر رہا ہے۔ وہ سوشل میڈیا سمیت عملی طور پر بھی بنگالیوں کی پاکستانی شناخت کے لئے ایکٹو ہے۔ ایک روز قبل اس کی ایک پوسٹ ضرور نظر سے گزری، جس میں اس نے لکھا کہ اگر عمران خان بنگالیوں کو پاکستانی شناخت دے دیں تو وہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلے گا۔ اگرچہ شاہد نے اپنی ترجیح بتائی ہے، مگر حافظ جی جو کہنا جا رہے ہیں، وہ معاملہ قومی نوعیت کا ہی نہیں، بلکہ اس سے بھی آگے کی بات ہے، جو اس کالم کا عنوان بھی ہے اور آگے کی تحریر میں اس کی وضاحت بھی ہو جائے گی۔
عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے پہلے ہی دورے میں دو بڑے طبقات کو اپنا گرویدہ بنالیا ہے، جو ان کے اور ان کی پارٹی کے لئے نیک شگون ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان میں پیدا ہونے والے بنگالی اور اور افغان بچوں کے لئے پاکستانی شناخت یعنی قومی دستاویزات کی سہولیات کی ہی بات نہیں کی، بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ انہیں اچھی تعلیمی سہولیات بھی دلوائیں گے۔ یہ لائق تحسین بات ہے۔ اس سے ان قومیتوں کا احساس محرومی ہی ختم نہیں ہوگا، بلکہ قومی سطح پر یک جہتی کا پائیدار تصور بھی جنم لے گا۔ عمران خان کا یہ کہنا مبنی بر حقیقت ہے کہ اگر امریکہ سمیت دیگر ممالک میں پیدا ہونے والے بچوں کو وہاں کی شہریت مل سکتی ہے تو چالیس برس پہلے پاکستان میں پیدا ہونے والے اس حق سے محروم کیوں رہیں۔
خاں صاحب کے مذکورہ بالا اعلان کے بعد متعلقہ برادریوں میں خوشی کی لہر کا دوڑ جانا کوئی اچنبھے والی بات نہیں، کیوں کہ ان برادریوں نے اس حوالے سے بڑی جدو جہد کی ہے، بڑے دکھ اور سختیاں جھیلی ہیں۔ سابقہ حکمرانوں میں سے کسی ایک نے بھی اس مسئلے کو درخور اعتنا نہیں جانا۔ کچھ کو اپنے معاملات سے فرصت نہ ملی تو کچھ نے اسے بھی کالا باغ ڈیم جیسا معاملہ بنا کر ردی کی ٹوکری کی نذر کئے رکھا۔ ان کی اس غفلت اور عاقبت نا اندیشی کا خراج پولیس حاصل کرتی رہی ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر ان برادریوں کے لوگوں کو ہراساں ہی نہیںکیا جاتا، بلکہ قومی دستاویزات نہ رکھنے والے کسی بھی شخص کو حراست میں لے کر بھاری رقوم کے مطالبات کئے جاتے ہیں، بصورت دیگر غیر ملکی جاسوس اور دہشت گرد ثابت کرنا پولیس کے لئے کون سا مشکل کام ہے؟ اب اگر ان لوگوں کی بحیثیت پاکستانی رجسٹریشن ہو جاتی ہے تو نہ صرف یہ طبقات اس حوالے سے سکھ کا سانس لیں گے اور پولیس کا مذموم دھندا ہی چوپٹ نہیں ہوگا، بلکہ معاشرے سے برائی کی بھی بڑی حد تک بیخ کنی ہوگی۔ رہی بات سندھ کے ان فرزندوں کی، جو اس دھرتی پر دیگر قومیتوں کا وجود محض اس لئے برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ ایسا ہونے سے ان کی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور وہ اپنا اقتدار و اختیار کھو دیں گے تو انہیں اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا اور اپنے آبائو اجداد کے طرز زندگی پر نظر ڈالنی ہوگی، جن کے دل انصار مدینہ کی طرح کشادہ تھے، جنہوں نے ماضی میں سندھ دھرتی پر قدم رکھنے والوں کو خوش آمدید ہی نہیں کہا، بلکہ ان کے ساتھ مل کر ترقی کا سفر بھی طے کیا، سندھ کے تمام شہری علاقے اسی یک جہتی اور شیر و شکر ہوکر زندگی گزارنے کی روشن مثال ہیں، جہاں ہجرت کر کے آنے والوں نے جدت طرازیوں کے ذریعے ایک نئی دنیا کی نقشہ گری کی اور نت نئی تجارت و صنعت نے رواج پایا۔ عمران خان کے اعلان سے نئے پرانے کسی بھی سندھی بھائی کو پریشان ہونے کی نہیں، بلکہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قومیتوں کا اتحاد ہی ملک کے مضبوط دفاع کی علامت ہوا کرتا ہے۔
لگ بھگ اڑتیس چالیس سال پہلے افغانستان کی کشیدہ صورت حال کے تناظر میں ہجرت کرکے پاکستان آنے والے افغانیوں پر اعتراض اٹھانے والوں سے مکالمہ ہو سکتا ہے، مگر وہ جو بنگالیوں کی پاکستان میں موجودگی پر معترض ہیں، ان کا اعتراض سمجھ سے بالا ہے کہ یہ بنگالی تو ہمارے اپنے پاکستانی ہیں، سقوط ڈھاکہ ہوئے تو ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری۔ ہم کیسے اپنی تاریخ کے سیاہ باب کو فراموش کرکے آگے بڑھ جائیں؟ من حیث القوم تو ہم پر ان غریب بنگالی محصورین کا بھی قرض واجب ہے، جو آج بھی بنگلہ دیشی کیمپوں میں پاکستان سے محبت کے جرم میں بے یارو مددگار اذیت
ناک زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کی آزادی اور ضروریات کا تو ذکر ہی کیا، انہیں تو وہاں حوائج ضروریہ تک کی سہولت ٹھیک سے میسر نہیں۔ ان محب وطن پاکستانیوں کی کئی نسلیں انہی کیمپوں میں پیدا ہوکر جوان ہوگئیں۔ ذرا سوچئے کہ ان مجبور و بے کس پاکستانی نسلوں کا کیا حال ہوگا، جنہیں کسی قسم کی کوئی سہولت، کوئی آزادی میسر نہیں۔ ان میں سے بیشتر کے آبائو اجداد انہیں یہ بتا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے کہ ان کا وطن پاکستان ہے، جس دن کوئی غیور لیڈر پاکستان کا حکمراں بنا، انہیں ضرور ان بوسیدہ کیمپوں سے رہائی دلاکر پاکستان میں بسائے گا۔ یوں بنگلہ دیش میں محصور محب وطن پاکستانی آج بھی اس غیور پاکستانی حکمراں کے منتظر ہیں، جو ان کے غموں کا مداوا کر سکے۔
گستاخی معاف! پاکستان کی اکہتر سالہ سیاسی تاریخ عاقبت نا اندیشوں اور اقتدار کے بھوکے حکمرانوں سے لتھڑی پڑی ہے، جنہیں وطن عزیز سے زیادہ اپنے مفادات عزیز رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کو آج بھی ان کا وہ حق نہیں مل سکا، جس کے وہ بلاشرکت غیرے مستحق ہیں۔ گزشتہ کل افغانی اور بنگالیوں کو شناختی دستاویزات کی فراہمی کے اعلان کے بعد حافظ جی خاصے مطمئن ہیں کہ عمران خان اور ان کی حکومت نے اچھے اقدامات کی شروعات کردی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ خاں صاحب اور ان کی حکومت اب بنگلہ دیشی کیمپوں میں محصور بے یارو مددگار پاکستانیوں کی واپسی کا بیڑا بھی اٹھائیںگے، کیوں کہ محصورین بھی تو محب وطن پاکستانی ہیں۔ (وما توفیقی الا باللہ)
٭٭٭٭٭