فارسی سے لاعلمی نے26ہزار ایرانی ریال کا نقصان کردیا

قسط نمبر: 56
میرا اس روز یعنی 9 مارچ 2002ء کا پروگرام تھا لارک سالٹ ڈوم یا جزیرہ لارک کی چھان بین کا۔ اس کے لیے میں تھوڑی تاخیر سے ناشتہ کر کے اور اپنے فیلڈ کے سامان سے لیس ہوکر سیدھا ایسکلا پائیں (زیریں گھاٹ) پہنچ گیا اور وہاں لارک جانے والی موٹر بوٹ کی بابت معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ بندر عباس سے جزیرہ لارک کیلئے براہ راست کوئی موٹر بوٹ نہیں جاتی۔ وہاں جانے کیلئے مجھے ایران کے سب سے بڑے جزیرے قشم جانا ہوگا اور وہاں سے لارک جانے والی بوٹ پکڑنی ہوگی۔ میں فوراً تیرہ ہزار ریال کا ٹکٹ لے کر موٹر پر جا بیٹھا اور نصف گھنٹے بعد یعنی تین بجے سہ پہر قشم پہنچ گیا۔ وہاں ایک موٹر بوٹ پہلے سے تیار کھڑی تھی۔ ٹکٹ کی کھڑکی پر جاکر لارک کا ٹکٹ طلب کیا تو ٹکٹ فروش نے تیرہ ہزار ریال طلب کیے۔ میں نے رقم کی ادائیگی کے بعد ٹکٹ حاصل کیا اور پل پر سے ہوکر کشتی پر جانے لگا تو احتیاطاً پل پر کھڑے ایسکلا کے کارندے سے معلوم کیا کہ یہ کشتی لارک ہی جارہی ہے؟ اس نے شاید میری بات نہ سمجھی اور کہا، بلے بلے، میں اطمینان سے جاکر موٹر بوٹ میں بیٹھ گیا، جس نے جلدی ہی اپنا سفر شروع کر دیا۔ جیسے جیسے منزل قریب آرہی تھی میں تعجب کر رہا تھا کہ لارک جزیرے کا راستہ تو بندر عباس کے راستے سے بڑا ملتا جلتا ہے۔ تا آنکہ میری کشتی بندر عباس کے ایسکلا پائیں پر آکر رک گئی۔ تب مجھے پتہ چلا کہ آج تو میرے ساتھ زبردست چوٹ ہوگئی۔ میں بندر عباس سے قشم اور پھر وہاں سے جزیرہ لارک کی بجائے واپس بندر عباس پہنچ گیا تھا۔ خیر جب آپ دیار غیر میں ہوں اور پھر زبان بھی مختلف ہو تو ایسی چوٹیں ہو ہی جاتی ہیں۔ مگر میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے کرم سے مجھے واپس بندر عباس پہنچادیا۔ اگر میں لارک پہنچ جاتا تو پھر وہاں سے واپس آنا مشکل ہوجاتا، کیونکہ وہاں بہت کم کشتیاں جاتی ہیں اور جو جاتی ہیں وہ پوری کشتی کی بنیاد پر جاتی ہیں، فی سواری کی بنیاد پر نہیں جاتیں۔ پھر میں اتنے کم وقت وہاں کچھ خاطر خواہ کام کر بھی نہ سکتا تھا۔
اب میرے پاس بندر عباس گھومنے کا وقت تھا۔ ایسکلا زیریں کے آس پاس جو پرانی طرز کی مگر خاصی خوبصورت مارکیٹ ہیں، وہاں سے میں کچھ بیکری کی اشیا اور دو عدد کیمرے کی فلمیں خرید کر بازار میں آوارہ گردی کر رہا تھا کہ ایک بڑی مسجد کا مینار نظر آیا۔ لوگوں سے پتہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بندر عباس کی تاریخی جامع مسجد ہے۔ سوچا عصر کی نماز یہیں پڑھ لیتا ہوں۔ اندر گیا تو مجھے بتایا گیا کہ مسجد برائے مرمت وآرائش بند ہے۔ مگر اس کا صدر دروازہ جو مین روڈ پر کھلتا تھا، وہ کھلا تھا اور اندر کچھ آدمی بھی نظر آرہے تھے۔ میں اندر گیا تو شروع ہی میں بائیں جانب کچھ مزدوروں کو کام کرتے پاتا۔ میں نے قدرے بلند آواز سے انہیں السلام علیکم کہا۔ جواب میں انہوں نے بڑی خندہ پیشانی اور جوش سے میرے سلام کا جواب دیا۔ معلوم ہوا کہ وہ سب پاکستانی ہیں اور سنی العقیدہ ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائیو مجھے نماز پڑھنی ہے، وضو کی جگہ بتادو۔ انہوں نے جگہ بتادی اور میں نے وضو کرلیا تو ایک مزدور نے ایک خستہ حال جانماز لاکر دی کہ یہیں نماز پڑھ لیجیے۔ میں نے کہا کہ یارو سامنے مسجد کا ہال ہے، میں وہیں جاکر نماز پڑھوں گا۔ اس نے کہا کہ آپ کی مرضی۔ باقی مزدوروں نے بھی مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھا، مگر میں نہ سمجھ سکا کہ کیا مسئلہ ہے۔ مسجد کے کشادہ صحن کو عبور کر کے ہال میں داخل ہوا تو اپنی تجسسی فطرت سے مغلوب ہو کر سوچا کہ پہلے مسجد کے ہال کی آرائش و نقش ونگار کو دیکھوں، تاکہ یہاں کی آرائش کے معیار کا اندازہ ہو سکے۔ یہ سوچ کر جیسے ہی مسجد کے ہال کی قبلہ رخ رنگین دیوار کو دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ وہاں ایک گھڑ سوار کی رنگین اور پوری دیوار پر محیط شبیہ بنی ہوئی تھی، جس کے ہاتھ میں برہنہ تلوار تھی۔ میں ’لاحول‘ پڑھتا ہوا الٹے پاؤں مسجد کے ہال سے باہر آیا اور سیدھا مزدوروں کے پاس گیا اور ان سے شکایتاً کہا کہ یہ کیا ہے؟ وہ ہنس کر کہنے لگے کہ صاحب یہاں تو یہی کچھ ہوگا۔ اسی لیے تو آپ سے کہا تھا کہ یہیں نماز پڑھ لیں، مگر آپ نہ مانے۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ اب مجھے اپنا مصلی دیدیں، تاکہ یہاں ہی نماز پڑھ لوں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی بوسیدہ جانماز مجھے پکڑادی۔ مگر مجھے اب وہ جانماز اور ان کی وہ جگہ جہاں عمارتی ملبہ اور معماروں کے اوزار بکھرے پڑے تھے دونوں بڑی اچھی لگیں کہ ان کے طفیل میں مسجد کے ہال میں شبیہوں کے سامنے سجدہ ریزہ ہونے سے بچ گیا تھا۔
بوقت شام میں بندر عباس کے بندرگاہی علاقے سے پیچھے بجانب شمال جدید بندر عباس کا چکر لگانے چلا گیا۔ یہ ایران کے بڑے شہروں کی طرح ایک جدید اور صاف ستھرا علاقہ ہے۔ بندرگاہ کے علاقے اور شہر کے علاقے میں تقریباً ہر جگہ اور ہر ملک میں یہ تفاوت تو ہوتا ہی ہے۔ بعدازاں میں بندر عباس کے اوپر اٹھائے گئے (raised) ساحل سمندر پر قائم بندر عباس کے خاص تفریحی مقام پر پہنچ گیا اور اس کو ایک اچھی جگہ پایا۔ مگر اس مقام کی اصل شکل یا اس کا اصل حسن شام بعداز عصر سے عشا تک ہوتا ہے۔ یہاں پختہ آرام دہ کرسیاں اور میزیں اور الگ تھلگ بنچیں بھی ہوتی ہیں۔ ان کو استعمال کرنے بندر عباس کے جوان اور جیالے بھی آتے ہیں۔ فیملی والے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بھی آتے ہیں اور مجھ جیسے غریب الدیار اکیلے دکیلے بھی آتے ہیں۔ بزرگ حضرات بھی تشریف لاتے ہیں اور خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں سبز چائے والے بھی اپنے بڑے بڑے تھرمس اٹھائے ’موبائل‘ چائے خانوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کھانے پینے کی اشیا ساتھ ہی لاتے ہیں، جبکہ کچھ قریبی اسنیک باروں سے اپنی من پسند اشیا خرید لاتے ہیں۔ مگر یہ سب چیزیں اپنی جگہ، یہاں کی سب سے خاص چیز وہ شیشے یا حقے ہیں جن کو اجرت پر پیش کرنے والے سر شام ہی آکر تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس شام ایک شیشے والے کو اپنا شیشہ تیار کرتے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی سیدھا سادا کام نہیں ہے، جیسا کہ کسی زمانے میں ہوتا تھا۔ بلکہ اب یہ بڑا نستعلیقی کام ہوگیا ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ اس مرد نیک کو اپنے شیشے کے جملہ ’پیرا میٹرز‘ سیٹ کرتے کرتے کوئی گھنٹہ لگا۔ پھر وہ مطمئن ہوا کہ اب اس کا شیشہ کسی گاہک کو پیش کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔
اس تفریحی مقام پر جگہ جگہ پرانے جہازوں کے جناتی لنگر بھی بڑے پرکشش انداز میں نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں۔ بلکہ بڑے احسن طریق پر فواروں کے جزو بنادیئے گئے ہیں۔ راقم الحروف کافی دیر اس پر فضا مقام پر بیٹھا اور لوگوں اور ان کے بچوں کو خوش دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔
بندر عباس کے ساحلی تفریحی مقام سے جب اپنے مہمان پذیر پہنچا تو وہاں دیکھا کہ کسی دوسرے شہر سے ایرانی مہمانوں کی خاصی بڑی تعداد آئی ہوئی ہے۔ میرے وہاں پہنچنے تک ان کو کمرے الاٹ ہوچکے تھے اور مہمانان گرامی اپنے اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔ یہ حقیر بھی اپنے کمرے کا تالا کھول کر اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا کہ نئے مہمانوں میں سے ایک صاحب کسی کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور خاصی بے چینی کے عالم میں ہیں۔ اتفاق سے اس وقت استقبالیے پر کوئی موجود نہ تھا۔ میں اس خیال سے باہر نکلا کہ شاید ان صاحب کی مدد کرسکوں۔ ان کے پاس جاکر ان سے دریافت کیا کہ کیا مسئلہ ہے؟ انہوں نے فوراً ’’دست شوئی کجا است‘‘ (واش روم کہاں ہے؟)۔ اب میری کند ذہنی دیکھئے کہ دست شوئی ان ابتدائی الفاظ میں سے ایک تھا جو میں نے اپنے موجودہ ٹرپ میں ایران میں آکر سیکھے۔ مگر اب یاد نہ آتا تھا کہ دست شوئی ہے کسی چڑیا کا نام۔ وہ مہمان غریب پریشان تھا کہ یہ کیسا ’ایرانی‘ ہے کہ دست شوئی نہیں سمجھتا کہ کیا ہے۔ پھر یکایک ان صاحب نے کسی قدر برہمی سے کہا کہ ’’توئے لت، توئے لت‘‘۔ اب مجھے یکایک یاد آیا کہ ایرانی بھائیوں نے انگریزی کے لفظ ٹوائلٹ (toilet) کو پرشیانائزڈ کر کے اسے ’توئے لت‘ بنا دیا ہے۔ یہ بات ذہن میں آنی تھی کہ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً ان صاحب کا ہاتھ پکڑا اور تیز قدمی کے ساتھ انہیں کھینچتا ہوا مہمان پذیر کی مشترکہ جائے حاجت کی جانب لے چلا اور پہلے ہی ’توئے لت‘ میں ان صاحب کو دھکیل کر خود ہی دروازہ بند کر دیا۔ یہ حرکت میں نے ان صاحب کے ساتھ اس لیے کی کہ ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ سخت ’پریشر‘ میں ہیں اور میں ان کے مسئلے کو جاننے کے بعد مزید ایک لمحہ بھی ضائع کرنا نہ چاہتا تھا۔
اس چھوٹے سے واقعے سے یہ راز مجھ پر آشکار ہوا کہ جس ملک میں آپ کچھ عرصے کے لئے جائیں، وہاں کی زبان میں ضروری اور عام استعمال کی اشیا اور پبلک مقامات کے نام جاننا نہ صرف آپ کے لئے فائدہ مند ہے، بلکہ اس علم سے آپ دوسروں کے لیے بھی باعث خیر بن سکتے ہیں۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment