حق تعالیٰ کی قدرت بھی عجیب ہے، جب میرے گھرانے کو کراچی شہر کے جنوب مشرق میں رہتے بستے نصف صدی گزر گئی اور ہمارا یہ گمان تقریباً یقین میں تبدیل ہوگیا کہ حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے۔ تو اچانک خالق مالک، رازق اور منعم حقیقی کے حکم پر ہم کراچی کے شمال مشرق میں آن بسے۔ میرا لڑکپن، جوانی اور تیزی سے چھا جانے والا بڑھاپا، پہلے کراچی کے ایک کنارے کے مسائل کو قلم کی نوک سے کریدتا تھا، اب میری خامہ فرسائی پیارے شہر کے دوسرے سرے پر رہنے بسنے والوں کے مسائل، مصائب اور شدائد پر مرتکز ہے۔ یہ سچ ہے کہ اب قویٰ میں کمزوری واقع ہو چکی ہے اور ذہن میں بھی خیالات کی روانی پہلے جیسی نہیں رہی ہے، مگر بشر پہلو میں دل رکھتا ہے جب تک… اسے دنیا کا غم کھانا پڑے گا کے مصداق جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے، اسے قرطاس پر منتقل کرتا رہوںگا۔
خدا تعالیٰ نے کمال مہربانی سے ہمیں جو رحمت کدہ عطا فرمایا ہے، وہ جغرافیائی اور انتظامی حوالے سے گڈاپ سٹی پولیس اسٹیشن کے حد اختیار میں آتا ہے۔ کاٹھور، میمن گوٹھ، ڈی ایچ اے سٹی، بحریہ ٹاؤن اور گلشن معمار کے علاوہ موٹر وے ایم نائن کے دائیں اور بائیں ان گنت قدیمی گاؤں اور گوٹھ گڈاپ تھانے کی حدود میں آتے ہیں۔ یہاں کے عوام محنتی اور انتہائی خوش اخلاق ہیں۔ مجھے یہاں اجنبیت کا احساس ہر گز نہ ہوا، کیونکہ میں ضلع ملیر کے دوسرے سرے پر واقع ایسے ہی گوٹھوں کے محبت کرنے والے لوگوں کے درمیان ایک طویل عرصہ گزار چکا ہوں، جس ہاؤسنگ اسکیم میں میرا آشیانہ ہے، اس کے قواعد و ضوابط کے تحت رہائشی کارڈز بنوانا لازمی ہے، ساتھ ہی وہ افراد جو آپ کے مددگار اور معاون ہیں، ان کے کردار، چال چلن اور دیگر کوائف کی تصدیق گڈاپ تھانے سے کرانی ضروری ہے۔ اس ضمن میں مجھے اپنے گھریلو کاموں میں مدد کرنے والی خاتون اور دیگر خدمات سر انجام دینے والے نوجوان کے ساتھ گڈاپ تھانے کا وزٹ کرنا پڑا۔
پولیس والوں کے بارے میں روزنامہ امت میں میرا ایک کالم بعنون ’’بھٹا دانے دار ہے بندہ تھانے دار ہے‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ مجموعی طور پر میں پولیس افسران اور دیگر اہلکاروں کے بارے میں مثبت خیالات رکھتا ہوں۔ میں نے پہلی بار گڈاپ تھانے کا دورہ کیا اور ایک خوشگوار حیرت کا تاثر لیا۔ تین منزلہ صاف ستھری عمارت، خاصا وسیع کمپاؤنڈ، صفائی ستھرائی کا عمدہ انتظام اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہایت خوش اخلاق اور مہذب اسٹاف… تھوڑے سے وقت میں ہمارا کام نمٹا دیا گیا اور ہمارا شکریہ بھی ادا کیا گیا۔ میں ان سطور کے ذریعے حکومت سندھ کی وزارت داخلہ سے گزارش کروں گا کہ وہ گڈاپ تھانے کو ماڈل پولیس اسٹیشن کا درجہ دے، کیونکہ موٹر وے کی تعمیر کے بعد اس کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
ایم نائن سے سہراب گوٹھ تک کافی عرصے سے تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ وفاقی وزارت مواصلات، فرنیٹرز ورکس آرگنائزیشن، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، موٹر وے پولیس اور ضلع ملیر کی انتظامیہ اس پٹی میں مختلف تعمیری کام کررہی ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایم نائن سے سہراب گوٹھ تک تعمیراتی کاموں کی رفتار، دلچسپی، فنشنگ، صفائی ستھرائی اور شجرکاری کا معیار موٹر وے کے شایان شان نہیں ہے۔ مثلاً ایم نائن پر موٹر وے کے دونوں ٹریفک پر پرائیوٹ بلڈرز انڈر پاس تعمیر کرا رہے ہیں۔ یہ پراجیکٹ حد سے زیادہ طول کھینچ چکا ہے، جس کی وجہ سے حیدر آباد تا کراچی موٹر کے اس پوائنٹ پر ٹریفک کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس مقام پر تعمیراتی کام ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرایا جائے، تاکہ ٹریفک کی روانی میں تسلسل اور آسانی پیدا کی جاسکے۔
مو ٹروے کے منصوبے پر پاک فوج کا ذیلی ادارہ F.W.O کام کر رہا ہے۔ میری خواہش ہے کہ F.W.O جنگی بنیادوں پر موٹر وے کے دونوں طرف تعمیر کی جانے والی سروس روڈز کے پراجیکٹ کو مکمل کرکے اپ اینڈ ڈاؤن بسنے والے لاکھوں محنت کشوں کو مواصلات کی جدید سہولیات کا تحفہ دے۔ ان گاؤں گوٹھوں میں نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے F.W.O اور پاکستان رینجرز جو گرانقدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں، وہ بلاشبہ لائق تحسین ہیں۔ ان علاقوں کے عوام F.W.O اور پاکستان رینجرز کے ان اقدامات کو تعریف کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اگر موٹر وے کے دائیں بائیں سروس روڈز کی تعمیرات جلد از جلد مکمل ہو جائیں اور زیر تعمیر شمالاً جنوباً دو فلائی اوورز کے منصوبے ہنگامی طور پر پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں تو یہاں کے محب وطن، پر خلوص اور محنت کش عوام F.W.O کے دلی شکر گزار ہوں گے۔
موٹر وے پولیس کے اعلیٰ حکام کی توجہ ایک اہم نکتے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ ٹول پلازہ کے نزدیک پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لئے موٹر وے کے آر پار ایک بالائی گزر گاہ بنائی گئی ہے، تاہم اس کے نیچے میڈین پر قائم رکاوٹ کو پھلانگ کر کئی افراد روڈ پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ برائے مہربانی اس عمل کا سدباب کیا جائے، تاکہ موٹر وے پر کسی مقام پر بھی پیدل چلنے والوں کو کسی ہولناک حادثے سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اسی طرح موٹر وے پر اور ملیر کینٹ جانے والے لنک روڈ پر جگہ جگہ گداگر ہاتھ پھیلائے نظر آتے ہیں۔ عالمی سطح پر اس منظر سے ہمارا قومی تاثر منفی ابھرتا ہے۔ موٹر وے پولیس کو اس صورت حال پر توجہ دینی چاہئے… موٹر وے پر حیدر آباد سے کراچی آنے والے ٹریک پر ایم نائن سے سہراب گوٹھ تک کوئی، سی این جی اسٹیشن نظر نہیں آتا۔ اسی طرح پیٹرول پمپس کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ وزارت مواصلات کو اس طرف توجہ دینی چاہئے…
میں نے ایک مشاہدہ یہ بھی کیا ہے کہ موٹر وے پر صفائی ستھرائی کا معیار نہایت ناقص ہے۔ سڑک کے کناروں پر مٹی جمع ہونے کی وجہ سے گاڑی چلانے والوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لازمی ہے کہ موٹر وے پر صفائی کا انتظام انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کا کیا جائے… اسی طرح موٹر وے پر ٹریفک کی نشاندہی حد رفتار اور دیگر اشاروں کو مدھم ہونے سے پہلے نمایاں کرنے کا کام باقاعدگی سے کیا جانا چاہئے۔ ساتھ ہی ہیوی گاڑیوں کے بریک لگانے سے جہاں جہاں موٹر وے غیر ہموار ہوگئی ہے، اس کی فی الفور مرمت کی جائے۔ تمام متعلقہ اداروں کو آگاہ رہنا چاہئے کہ کراچی حیدر آباد موٹروے کو عالمی درجہ بندی میں جگہ حاصل کرنے کے لئے معیار بھی وہی اختیار کرنا ہوگا، جو بین الاقوامی ضوابط نے مقرر کر رکھا ہے۔
قارئین! میرا اگلا وزٹ نادرا میمن گوٹھ کا ہوگا۔ اپنے مشاہدات اور تاثرات رقم کروں گا اور ضلع ملیر کے مسائل ’’امت‘‘ کے ذریعے اعلیٰ حکام تک پہنچاؤں گا۔ امید ہے کہ مشکلات اور مصائب کا پہاڑ وقفہ وقفہ ضرور کم ہوگا۔ اپنی دعاؤں میں مجھے ضرور یاد رکھئے گا۔
شکریہ: