گزشتہدنوں وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں ہم سے پوچھا گیا کہ کیا شمالی شام کے شہر ادلب پر دمشق اتحاد کا حملہ ٹل جانے کی کوئی امید ہے؟ تو ہم نے کہا کہ بشار الاسد، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ایرانی صدر حسن روحانی کے بیانات اور بیانیوں سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ ادلب کو باغیوں کی گرفت سے نکالنے کے لئے دمشق اتحادیوں کا بھرپور حملہ بس چند گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ دنوں کی بات ہے۔ زمین پر ہونے والی عسکری نقل وحرکت سے بھی اسی خدشے کو تقویت مل رہی ہے۔ تاہم بحر اسود کے ساحلی شہر سوچی (Sochi) میں ترکی و روس کی جو چوٹی کانفرنس پیر (17 ستمبر) کو ہو رہی ہے، میں اس کے بارے میں بے حد پر امید ہوں۔ جو احباب میری تحریر پڑھتے ہیں، انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں اکثر معاملات میں خوش فہمی کی حد تک پرامید رہتا ہوں، بلکہ ہمارے قریبی احباب کہتے ہیں کہ ہم اپنی خواہش اور خواب کو تجزیئے کا نام دے دیتے ہیں۔
لیکن پیر کے روز واقعی ایسا ہی ہوا۔ پہلے سوچی سے جو اعلامیہ جاری ہوا، اس کے مطابق ترکی اور روس ادلب میں غیر عسکری علاقہ یا de-militarized zone قائم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ چوٹی ملاقات کے بعد صدر اردگان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن نے کہا:
٭… باغیوں کے مضبوط ٹھکانوں کے قریب 15 سے 20 کلومیٹر چوڑا غیر عسکری علاقہ قائم کردیا جائے گا تاکہ عام شہریوں کو نقل و حرکت کی آزادی میسر آجائے۔ یہ کام 15 اکتوبر تک مکمل کرلیا جائے گا۔
٭… حملے کے لئے نصب کیا گیا بھاری اسلحہ ہٹایا جا رہا اور انخلا 15 اکتوبر تک مکمل کرلیا جائے گا۔
٭… ترک اور روسی فوج کے مشترکہ دستے علاقے میں گشت کریں گے تاکہ داعش دہشت گردوں کو دوبارہ اپنے ٹھکانے بنانے کا موقع نہ مل سکے۔ ترک فوج کی موجودگی سے YPG کے کرد دہشت گرد فتنہ و فساد کی غرض سے ترکی میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
سوچی میں مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد روسی وزیر دفاع سرگی شوگ (Sergei Shoigu) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پیوٹن اردگان معاہدے کی روشنی میں اتحادی فوجیوں کو امن کا پرچم لہرا کر اپنی پوزیشنوں سے 15 کلومیٹر پیچھے ہٹنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔
15 لاکھ نفوس پر مشتمل ادلب شامی باغیوں کا مضبوط گڑھ اور اس لحاظ سے آخری ٹھکانہ ہے کہ تقریباً باقی سارے شام پر سرکاری فوجوں نے روس اور ایران کی مدد سے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔ بشارلاسد اور اس کے اتحادی ایک عرصے سے ادلب پر فیصلہ کن حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ صوبے کا شامی فوج نے محاصرہ کر رکھا ہے۔ صرف ترکی کی راستے خوراک، ایندھن، ادویات اور ضروری اشیا فراہم کی جا رہی ہیں۔ طبی امداد بھی ترکی ہی فراہم کررہا ہے۔
ادلب پر حملے کے لئے ایران اور روس نے فوجی سازو سامان پہنچا دیا تھا اور ادلب کے گرد محاصرہ تنگ ہو چکا تھا۔ گھیرائو کو مزید تقویت پہنچانے کے لئے بحر روم میں طیارہ بردار سمیت روس کے تباہ کن جہاز تعینات کردیئے گئے تھے۔ ادلب میں باغیوں یا حریت پسندوں کی ہر جماعت اور جتھہ سرگرم ہے۔ امریکہ و ترک نواز فری سرین آرمی (FSA)، سعودی و خلیجی ممالک کا حمایت یافتہ النصرہ فرنٹ، القاعدہ سے وابستہ تحریر الشام، احرار الشام، جند الاقصیٰ سمیت ہر رنگ و عقیدے کے گوریلے یہاں موجود ہیں، جنہوں نے شہری علاقوں کے بیچوں بیچ اپنے راجواڑے قائم کر رکھے ہیں۔
شامی فوج کا منصوبہ تھا کہ تباہ کن بمباری کے ذریعے باغیوں کو ان کے محفوظ ٹھکانوں سے نکالا جائے۔ بمباری سے گھبرا اور جھلس کر میدان میں آنے والے گوریلوں کے استقبال کے لئے روسی ساختہ خوفناک توپیں نصب کر دی گئی تھیں۔ عسکری ذرائع نے چند دن پہلے خبر دی تھی کہ بمباری کے لئے کیمیاوی ہتھیار بھی فوجی اڈوں پر پہنچا دیئے گئے تھے۔ تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ حملے کی صورت میں لاکھوں شامی ہلاک ہوں گے۔
ترک صدر ایک عرصے سے اس حملے کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے تہران میں روس اور ایران کے صدور سے بات کی، لیکن وہاں محض اردگان پیوٹن چوٹی مذکرات پر ہی اتفاق ہو سکا اور پھر سوچی میں جنگ بندی کا ایک جامع معاہدہ طے پا گیا۔ یہ خبر ساری امت کے لئے خوشی کا باعث ہے کہ لڑائی لاکھوں مسلمانوں کی موت اور اربوں ڈالر کے نقصان کا باعث بنتی۔
بلاشبہ یہ اردگان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ اقوام متحدہ سمیت ساری دنیا جنگ بندی کے حوالے سے بالکل مایوس تھی۔ اگر ترک صدر کا نام طیب کے بجائے ریگن، بش، کلنٹن یا اوباما ہوتا تو ایسی خوفناک جنگ سے لاکھوں لوگوں کو بچا لینے پر وہ نوبل امن انعام کے مستحق قرار پاتے، لیکن انعام تو دور کی بات، اس عظیم الشان کامیابی کا میڈیا پر کوئی ذکر تک نہیں۔