تحریک انصاف کی نئی حکومت نے عوام پر بوجھ نہ ڈالنے کے بلند بانگ دعوئوں اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی تردید کے باوجود بالآخر گھریلو اور صنعتی صارفین کے لئے گیس کی قیمتوں میں دس سے ایک سو تینتالیس فیصد تک اضافہ کر دیا ہے اور حسب توقع اعلان کیا ہے کہ اس کا بوجھ عام صارف پر کم سے کم پڑے گا۔ وزارت خزانہ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ تجارتی صنعتی صارفین کو فراہم کی جانے والی گیس کے نرخوں میں اضافے سے اشیا کی پیداوری لاگت جو بڑھے گی، اس کے بعد مختلف چیزوں کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین کو کیسے بچایا جائے گا؟ عوام نے تحریک انصاف کی حکومت سے یہ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ وہ اپنی نااہلی اور ناکامی کا بوجھ سابقہ حکومتوں پر ڈالنے کے بجائے انہیں سہولتوں کا نیا پیغام دے گی۔ کہا جا رہا تھا کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی ملک کو قرضوں اور مہنگائی کے بوجھ سے نجات دلانے کے لئے نامزد وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں معاشی ماہرین کی ٹیم نے پورا ہوم ورک کر لیا ہے اور تحریک انصاف کے برسر اقتدار آتے ہی ملک کے بائیس کروڑ عوام زندگی کے تمام شعبوں، خاص طور پر اقتصادی شعبے میں بڑا ریلیف محسوس کریں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم لیگ کی سابقہ حکومت نے جاتے جاتے اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کر کے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور وہ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں عوام کو جو سہولتیں فراہم نہ کر سکیں، اس بجٹ میں ان کا اعلان کر دیا تاکہ تحریک انصاف کی حکومت ان سہولتوں کی فراہمی میں ناکام ہو تو اسے بدنام کر کے کہا جا سکے کہ اگر ہماری حکومت ہوتی تو تمام وعدے پورے کر کے دکھا دیتی۔ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے لیگی حکومت کی جگہ عبوری حکومت قائم ہوئی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ حسب معمول برقرار رہی تو لیگی رہنمائوں نے انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو ہم نے تو ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا، لیکن ہماری حکومت کے جاتے ہی لوگوں پر لوڈ شیڈنگ کا عذاب دوبارہ مسلط ہو گیا۔ ملک کے باشعور عوام کو بخوبی اندازہ ہے کہ تباہ حال ملکی معیشت کو سنبھلنے میں کچھ وقت لگے گا اور تحریک انصاف کی حکومت پلک جھپکتے میں سب کچھ درست نہیں کر سکتی۔ تاہم تشویش کا اصل سبب یہ ہے کہ لٹیروں سے رقم کی واپسی پر بھرپور توجہ نہیں دی گئی اور عدلیہ و فوج کے تعاون سے لوٹی ہوئی رقوم حاصل کر کے قومی خزانے میں جمع کرانے کی جانب کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ اس کے برعکس نئے ٹیکس لگانے اور مہنگائی کا مزید بوجھ عوام پر لادنے کا وہی پرانا اور گھسا پٹا نسخہ آزمایا جا رہا ہے کہ عوام سے بچا کھچا بھی چھین لو اور کہو کہ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لئے عوام پر تھوڑا بوجھ ڈالنا ضروری ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے جن کی صلاحیتوں اور خلوص نیت پر عوام و خواص سب اعتبار کرتے نظر آتے ہیں، سال 2018-19ء کے بجٹ میں ترامیم پیش کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت تمام تر مشکلات کے باوجود دو اہم نکات پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اول غریبوں کو سہولتوں کی فراہمی اور دوم، برآمدات کی حوصلہ افزائی۔ حکومتی مؤقف تو اس امر پر بھی واضح نہیں ہے کہ منگل کو پیش کیا جانے والا بل ضمنی بجٹ قرار دیا جائے یا اسے ترمیم شدہ بجٹ کہا جائے۔ اسے قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے وہی روایتی بیان داغا گیا کہ حکومت غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کو بچا کر نئے ٹیکسوں کو زیادہ آمدنی والے افراد کی جانب منتقل کرنا چاہتی ہے۔ دوسری بات یہ کی گئی کہ تحریک انصاف کی حکومت زرعی اور صنعتی شعبے کی مدد کر کے ان مصنوعات کو بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلے کے قابل بنانا چاہتی ہے، تاکہ ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جا سکے۔ نئے بجٹ میں خسارے کی یہ توجیہہ بیان کی گئی ہے کہ حکومت اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کرے گی۔ حکومتی محاصل میں ساڑھے تین کھرب کمی اور اخراجات میں ڈھائی کھرب روپے اضافہ ہوگا۔ نئے بجٹ کے مطابق ترقیاتی فنڈز میں دس فیصد اضافہ کر کے انہیں چھ کھرب اکسٹھ ارب سے سوا سات کھرب کیا جا رہا ہے۔ کراچی کے زیر تکمیل منصوبوں پر پچاس ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ سی پیک کے منصوبوں میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کی جائے گی۔ چار لاکھ روپے سالانہ سے کم آمدنی پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہو گا، لیکن آٹھ لاکھ تک آمدنی پر ایک ہزار روپے کا مقررہ ٹیکس اور بارہ لاکھ روپے سے زیادہ آمدنی والوں کو تین ہزار روپے ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس کے بعد جوں جوں آمدنی میں اضافہ ہو گا، ٹیکس اتنا ہی زیادہ واجب الادا ہوگا۔ اس سلسلے میں قابل غور بات یہ ہے کہ انکم ٹیکس کا زیادہ بوجھ ہمیشہ تنخواہ دار طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع چھپائے نہیں جا سکتے، بلکہ اکثر پہلے ہی ان کی تنخواہوں سے انکم ٹیکس منہا کر لیا جاتا ہے، جبکہ دیگر طبقوں کے پاس اپنی آمدنی چھپانے اور حساب کتاب میں ردوبدل کرنے کے کئی طریقے موجود ہوتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ تین سو اشیائے پرتعیش پر ڈیوٹی بڑھائی جا رہی ہے۔ ان میں بڑی گاڑیاں، قیمتی موبائل فون، سگریٹ اور بہت سا سامان آرائش و زیبائش شامل ہے۔ بعض زرعی و صنعتی اشیاء پر زرتلافی دینے کی تجویز ہے، جس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ امر پیش نظر رہے کہ ماضی کی طرح آئندہ زر تلافی کا فائدہ مراعات یافتہ طبقے نہ اٹھانے پائیں، بلکہ اس کے مثبت اثرات قومی خزانے اور عام آدمی پر پڑیں۔ مقتدر طبقات کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اپنی اشیائے تعیش پر عائد ہونے والے ٹیکسوں کا بوجھ مختلف حیلے بہانوں سے عوام کی جانب منتقل کر دیں۔ آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائے بغیر اور سادگی کلچر کو واضح طور پر فروغ دیئے بغیر عوامی فلاح و بہبود کے کسی پروگرام یا اعلان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ کجا یہ کہ کوئی تبدیلی نظر آئے یا مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا تصور اجاگر ہو۔ ٭