او آئی سی کی ذمہ داری

برما میں انسانی حقوق کی پامالی اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے حقائق کی تلاش کے لئے جو UN Independent International Fact-Finding Mission on Myanmar قائم کیا تھا، اس نے اپنی رپورٹ کونسل کو پیش کردی ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں قائم ہونے والے اس 3 رکنی کمیشن کے سربراہ انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل مرزوقی دارسمان تھے۔ سری لنکا کی محترمہ رادھیکا کومراسوامی Radhika Coomaraswamy اور انسانی حقوق کے آسٹریلیوی چمپئن مسٹر کرسٹوفر سیڈوٹی Christopher Sidoti مشن کے ارکان نامزد کئے گئے تھے۔
ایک سال کی تفصیلی تحقیقات کے بعد کمیشن نے اپنی رپورٹ 27 اگست کو کونسل کے سامنے جمع کرا دی۔ گزشتہ روز اس رپورٹ کے اجرا پر جنیوا میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کمیشن کے ارکان نے اپنے مشاہدات کے چیدہ چیدہ نکات پیش کئے:
٭… روہنگیا آبادی ختم ہونے یا نسل کشی کے خطرے سے دوچار ہے۔
٭… میانمار میں جن جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے، وہ انسانی ضمیر کو ہلا دینے والے ہیں۔
٭… ایک سال کی تفتیش سے یہ مستند شواہد سامنے آئے ہیں کہ میانمار کی فوج نے جن جرائم کا ارتکاب کیا ہے، وہ بین الاقوامی قانون کے تحت انتہائی سنگین جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
٭… پہلے سے طے شدہ منظم منصوبے کے تحت عورتوں اور بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ روہنگیا آبادی کے مکانات کو نذر اتش کیا گیا اور ان کے مال اسباب لوٹ لئے گئے۔
٭… اس قتل عام میں تتما داو (میانمار سرکاری فوج) کے ساتھ دوسری ملیشیا اور مسلح جتھے ملوث ہیں۔
٭… قتل و غارت گری اور آبروریزی تتماداو کی جانب سے روہنگیا آبادی پر دانستہ حملہ تھا۔
٭… اگست 2017ء میں پھوٹنے والے تشدد کے نتیجے میں روہنگیا کے دس لاکھ پناہ گزینوں میں سے تین چوتھائی بنگلہ دیش چلے گئے ہیں۔
٭… جن مظالم نے روہنگیا کو اپنے گھر بار سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا، وہ ابھی تک جاری ہیں اور یہ کہ پناہ گزینوں کے لیے واپس جانا محفوظ نہیں ہے۔
٭… رپورٹ میں میانمار فوج کے سربراہ جنرل من انگ ہینگ Min Aung Hlaing سمیت اعلیٰ فوجی قیادت کو راخائین میں قتل عام، عصمت دری، بچوں سے بدسلوکی، منظم و دانستہ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان وحشیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی ہے۔
٭… راخین کے علاوہ میانمار فوج نے کاچین اور شان کی ریاستوں میں بھی ایسی کارروائیوں کی مرتکب نظر آرہی ہے، جو انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔
٭… روہنگیا آبادی کے خلاف تشدد کا ارتکاب محض وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ زمینی حقائق اور شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ کارروائی منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل عام بلکہ نسل کشی کے ارادے سے کی گئی ہے۔
حسبِ توقع جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے میانمار کے سفیر کیاؤ موتن نے مشن کی رپورٹ کو یک طرفہ، جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے اسے راخین تنازعے کے پائیدار حل تلاش کرنے کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ سفیر موصوف نے فرمایا کہ حکومت کو بے گھر ہونے والوں خصوصاً عورتوں اور بچیوں کے ساتھ ہمددردی ہے اور جو کوئی بھی واپس آنا چاہتا ہے، وہ انہیں اس کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔
اتنی صاف اور واضح رپورٹ کے بعد برمی فوج کے جرنیلوں کو انصاف کے کٹہر ے میں کھڑا کرنا OIC اور مسلم ممالک کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ یہ اقوام متحدہ کا بھی امتحان ہے کہ اس کے اپنے قائم کردہ مشن نے یہ حقائق سامنے لائے ہیں۔ جس پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ برمی حکام کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment