ایئر مارشل ملک ایم نور خان کا تعلق ایک فوجی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد پہلی جنگ عظیم میں خدمات انجام دے چکے تھے اور ہندوستانی فوج کے گھڑ سوار دستے میں اعلیٰ کارکردگی کی عوض انہیں کئی تمغے عطا کئے گئے تھے، چنانچہ نور خان نے اپنی خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے چالیس کی دہائی میں صرف گیارہ برس کی عمر میں رائل انڈین ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ ابھی ان کی عمر سترہ برس بھی نہ ہوئی تھی کہ ہوا بازی کا شوق انہیں لاہور لے آیا، جہاں انہوں نے لاہور فلائنگ کلب میں ہوا بازی کی تربیت حاصل کی اور اپنی سترہویں سالگرہ سے قبل ہی نور خان ٹائیگر موتھر طیارے پر تربیت حاصل کرکے پائلٹA- کا لائسنس حاصل کر چکے تھے۔ پرواز میں خطرات سے کھیلنے کا شوق انہیں ہمیشہ سے تھا، چنانچہ لاہور میں وہ اپنی اولین تنہا پرواز میں طیارہ لے کر لاپتہ ہوگئے۔ ان کی اس حرکت پر ان کا انسٹرکٹر سخت ناراض ہوا اور سزا کے طور پر انہیں کچھ عرصہ کے لئے پرواز سے معطلی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
نورخان کی دھن اور لگن کو دیکھتے ہوئے انہیں ان کی اٹھارہویں سالگرہ سے چند ہفتے قبل ہندوستانی فضائیہ میں تربیت کے لیے شامل کر لیا گیا۔ یہ جنوری 1941ء کی بات ہے جب نورخان نے ہندوستانی فضائیہ میں اپنی تربیت کا آغاز کیا۔ نورخان نے دوران تربیت ٹائیگر موتھ، پاکر بارٹ اور آڈکس طیارے بڑے کامیابی سے اڑائے۔ دوران تربیت نورخان نے ہتھیاروں کے استعمال، نشانہ بازی اور بمباری میں عام اوسط سے کہیں زیادہ نمبر حاصل کرکے ثابت کیا کہ وہ ایک اچھے ہواباز ہیں۔ نورخان کی انڈین ایئرفورس میں تربیت کے دوران پی سی لال بھی ان کا کورس میٹ تھا جو بعد میں ان کے اسکواڈرن کا کمانڈر بنا۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران پی سی لال انڈین ایئر فورس میں اہم عہدے پر فائز تھا، جبکہ 1970ء میں پی سی لال انڈین ایئر فورس کا کمانڈر بنا۔
رائل پاکستان ایئر فورس کے قیام کے ساتھ ہی نورخان اس سے وابستہ ہوگئے۔ 1948ء میں نور خان پاکستان ایئر فورس میں لندن جانے سے قبل چکلالہ میں اسٹیشن کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ لندن میں ان کے بھیجے جانے کا مقصد پاکستان ایئر فورس کے لیے برطانوی ساز و سامان کی موزونیت کا تعین کرنا تھا۔ انہوں نے پاکستان ایئر فورس کے لڑاکا اسکوڈران کو نئے سرے سے لیس کرنے کے لیے پسٹن انجنوں کے حامل ہاکر فیوری طیارے اور ٹرانسپورٹ کے لیے ڈگلس DC-47 کو مسترد کرتے ہوئے سکٹ جان اور عمدہ کارکردگی کے حامل برسٹل فریئر طیاروں کی سفارش کی۔
پاکستان واپسی کے بعد وہ پاکستان ایئر فورس اکیڈمی رسالپور کے کمانڈنٹ اور اس کے بعد ہیڈکوارٹرز میں بطور گروپ کیپٹن تعینات کئے گئے۔ ایئرہیڈ کوارٹر میں تعیناتی کے دوران انہیں اسسٹنٹ چیف آف ایئر اسٹاف کی حیثیت سے پاکستان ایئر فورس کے لئے امریکی طیاروں کے حصول کیلئے شروع کئے گئے منصوبے میں شمولیت کا موقع ملا۔ اس وقت رائل پاکستان ایئر فورس کا کمانڈر ایک انگریز افسر ایئروائس مارشل اے ایل پیری کین تھا۔ اس انگریز سربراہ کو پاکستان ایئر فورس کیلئے F-84 تھنڈر جیٹ طیارے پسند تھے، مگر نورخان بہتر کارکردگی کے حامل امریکی F-86 سیسر طیاروں کے حق میں تھے۔ آخر بڑی کشمکش اور نورخان کی جانب سے استعفیٰ کی دھمکی کے بعد نورخان کا مؤقف تسلیم کیا گیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران نورخان کی پسند کے ان طیاروں نے اعلیٰ کارکردگی پیش کی۔ نورخان نے 1950ء کے وسط میں رائل ایئر فورس اسٹاف کالج میں ایک کورس مکمل کیا، اس کورس میں اسرائیلی آئنرو روبز مین بھی ان کا کورس میٹ تھا، جو بعد میں 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران اسرائیلی فضائیہ کا کمانڈر بنا اور بعد میں وہ اسرائیل کا وزیر دفاع بنا۔ آئینرروبزمین نے اپنی سوانح حیات On Eagle wings میں نورخان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں تحریر کرتا ہے کہ ’’ نور خان ایک ایسا شخص ہے، جس کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں اور اگر مقابلہ کرنا ہی پڑے تو اس سے جیتنا ممکن نہیں اور مجھے خوشی ہے کہ نور خان ایک پاکستانی ہے، مصری نہیں۔‘‘
رائل ایئر فورس اسٹاف کالج میں کورس کی تکمیل کے بعد نورخان نے ماری پور میں اسٹیشن کمانڈر کے طور پر پاکستان ایئر فورس کے امریکی سپر طیاروں کی شمولیت کے پروگرام کی نگرانی کی۔ یہ سپر طیارے پاکستان کو فراہم کئے جانے والے اولین اعلیٰ کارکردگی کے حامل جیٹ طیارے تھے۔ نورخان کی پرجوش اور ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان ایئر فورس کے ہوا بازوں نے جلد ہی ان طیاروں کے استعمال میں زبردست مہارت حاصل کر لی۔ سپر طیاروں پر اپنے اعتماد اور اپنی شاندار مہارت کے ثبوت کے طور پر پاکستانی ہوابازوں نے لائٹ فارمیشن میں سولہ طیاروں کی گرہ بنانے کا مظاہرہ کیا۔
1957ء میں جب ایئر مارشل محمد اصغر خان کو پاکستان ایئر فورس کا پہلا کمانڈر نامزد کیاگیا تو نورخان نئے آپریشن گروپ کی تشکیل کے ذمہ دار تھے، جس کی کمانڈ انہوں نے ایئر ہیڈ کوارٹر پشاور میں سنبھالی۔ 1959ء میں نورخان کو قومی ایئر لائن پی آئی اے کا MD مقرر کیا گیا۔ انہوں نے پی آئی اے سے اپنی چھ سالہ وابستگی میں اس ادارے کو منفعت بخش مالی بنیادوں پر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کام میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ان کا یہ کارنامہ جو اب ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، ان کے فوجی پس منظر میں کچھ زیادہ ہی زیادہ اور اہم نظر آتا ہے۔
نورخان نے اپنی مخصوص عادات کے مطابق 1965ء میں پاکستان ایئر فورس کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے تقرری کے جاری نوٹیفیکیشن کے بعد پاکستان میں جدید جیٹ طیارے پر تربیت حاصل کرنے کی غرض سے ایک کورس کا اہتمام کیا۔ چھ برس تک عملی پرواز سے دور رہنے کے باوجود نورخان نے پہلے ایک لاک پیڈ T-33 پر تربیت حاصل کی اور بعد میں سرگودھا میں ایک جدید ترین پر سانک میک2- رفتار کا حامل لاک F-104 اسٹار فائٹر طیارہ شروع کیا۔ اس کے بعد نورخان نے سپر طیارہ بھی اڑایا اور بہت جلد ان دونوں طیاروں پر مہارت حاصل کر لی۔ اس کے بعد نورخان نے فضا سے زمین پر نشانہ لگانے میں بھی زبردست مہارت حاصل کی اور اس میں سو فیصد نمبر حاصل کرکے ایک انفرادی مثال قائم کی۔
پاکستان ایئر فورس میں یہ اپنی طرز کا اولین واقعہ تھا، جسے بعد میں نورخان نے ان دو طرز کے طیاروں پر بھی دہرایا جو اس وقت پاکستان ایئر فورس میں شامل تھے۔ جب پاکستان ایئر فورس میں دو انجنوں کے حامل چینی ساختہ F-6 طیارے شامل کئے گئے تو نور خان نے ان طیاروں پر بھی یہی شاندار کارکردگی دہرائی۔ یہ کاک پٹ سے قیادت کا ایک جارحانہ انداز تھا جو نورخان نے اختیار کیا تھا۔ انہوں نے ہوا بازوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال قائم کر دی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ایئر فورس کے لئے ایک سخت جارحانہ حربی حکمت عملی کی بنیاد رکھ دی تھی اور اسی کے مطابق ایئر فورس کا حوصلہ بلند ہوا۔
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں نور خان کا اہم کردار تھا جو ثابت کرتا ہے کہ ان کی پرجوش اور ولولہ انگیز قیادت کے بغیر پاکستان کا محفوظ رہنا ایک امر محال تھا، کیونکہ جب جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کی دفاعی قوت میں پاکستان ایئر فورس وہ واحد بازو تھا جو فوری طور پر جنگ کے لئے تیار و مستعد تھا۔ ستمبر 1965ء کے ابتدائی دنوں میں نور خان نے بھارت کی جارحانہ پیش قدمی کو روکنے کے لئے اپنے اختیارات اور صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا، جو ان کو مکمل آزادی کے ساتھ عطا کئے گئے تھے۔ ستمبر 1965ء کے پاک بھارت فضائی معرکہ میں ان کا بھرپور اور مؤثر کردار اس لئے اور بھی نمایاں ہوجاتا ہے کہ چھ برس تک عملی فوجی زندگی سے دور رہے اور یکم ستمبر 1965ء کو جارحانہ کارروائیوں سے صرف چند ہفتے قبل 23 جولائی 1965ء کو انہوں نے پاکستان ایئر فورس کی کمان سنبھالی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭