محبت کی چیک پوسٹ:
عبیداللہ میرا بھانجا ہے۔ آج کل دبئی میں مقیم ہے۔ میں جب بھی ابوظہبی آتا ہوں تو پہلا قیام اسی کے ہاں ہوتا ہے، چاہے صرف دو گھنٹوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے ہاں رکے بغیر چارہ نہیں۔ یہ ایک طرح کی چیک پوسٹ ہے۔ محبت کی چیک پوسٹ۔ جہاں سے کھانا اور چائے پیئے بغیر کلیئرنس نہیں ملتی۔ ان کی اہلیہ نے مہمانوں کی خدمت میں پی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنے ہاں روکنے اور خاطر مدارت کرنے کی خاطر ایسے ایسے جملے بولتی ہے کہ لاجواب کر دیتی ہے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر ہم جہاز میں صرف چائے وغیرہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ گھر والے اسے نوشی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کا اصل نام سعدیہ ہے۔ اسلامیات میں ایم اے کر رکھا ہے۔ خاندان کے بیشتر لوگ ٹیچنگ سے وابستہ ہیں۔ دبئی میں ٹیچنگ آسانی سے مل سکتی تھی، لیکن اس نے بچوںکی پرورش اور بہتر تربیت کی خاطر نوکری نہیں کی۔ چونکہ گائوں کی پروردہ ہے، اس لیے دل وسیع رکھتی ہے اور شہر والوں کی طرح یہ نہیں پوچھتی: ’’فرمایئے! کیسے آنا ہوا؟ کب تک قیام کا ارادہ ہے؟ کراچی میں بھی مہنگائی اتنی ہی ہے، جتنی یہاں ہے۔ یہاں تو مہنگائی نے جینا حرام کر رکھا ہے۔ اوپر سے مہمان بلائے درمان کی طرح چلے آتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ شہر ہے یہاں اپنا گزارہ نہیں اوپر سے مہمان داری۔ اللہ توبہ۔‘‘ نوشی ان تمام باتوں سے مبرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مہمان کثرت سے آتے ہیں اور برکتیں چھوڑ جاتے ہیں۔
عبید اللہ دبئی انشورنس کمپنی میں ملازم ہے۔ اخراجات پورے کرنے اور بہتر مستقبل کے لیے دن رات محنت کرتا ہے۔ عبید اللہ مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز ہے۔ جو سوغاتیں میں اپنے بچوں کے لیے لاتا ہوں، وہ اس کے لیے بھی لازم ہوتی ہیں۔ مجبوری یہ ہوتی ہے کہ رات ابوظہبی پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے، کیونکہ کاشف اور فیصل نے صبح دفتر جوائن کرنا ہوتا ہے اور نوکری تو پھر نوکری ہوتی ہے۔
اوئے گڈی سیڈ تے لا:
دبئی سے ابوظہبی 200 کلو میٹر کا سفر ہے۔ سرکاری طور پر حد رفتار 120 میل فی گھنٹہ مقرر ہے۔ نہ کم نہ زیادہ۔ کم رفتار حادثات کو جنم دیتی ہے اور زیادہ پر مخالفہ (جرمانہ) پڑ جاتا ہے۔ شارع شیخ زاید کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو، جو کیمرے کی زد میں نہ آتا ہو۔ جہاں آپ نے اسپیڈ زیادہ کی، کیمرہ فوراً گاڑی کا نمبر بمع ٹائم، حد رفتار سب کچھ ایک سیکنڈ میں ہیڈ کوارٹر پہنچا دے گا۔ آپ اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہئے، کوئی آپ کو نہیں روکے گا۔ پاکستان کی طرح نہیں، ٹریفک انسپکٹر کہتا ہے: ’’اوئے گڈی سیڈ تے لا‘‘۔ کاغذ اور لائسنس نکال۔ یہاں جو کچھ ہو گا، گاڑی پاس کراتے وقت ہوگا۔ جتنے مخالفے (جرمانے) پڑ چکے ہوں گے، سب وصول کر لیے جائیں گے۔ ثبوت مانگنے پر کیمرا ریکارڈ دکھا دیا جاتا ہے۔
کاشف رشید کی پاتھ فائینڈر، سیاہ کالی گاڑی، سیاہ رات اور سیاہ کالی سڑک، آٹھ لائنوں پر مشتمل شیخ زاید روڈ… چار لائنیں آنے کے لیے چار لائنیں جانے کے لیے۔ روشنی اس قدر کہ سڑک پر پڑی سوئی بھی دکھائی دے جائے۔ ایک دوسرے کے تعاقب میں بھاگتی گاڑیاں، سڑک کے درمیان اونچے اونچے بجلی کے پول، جو دونوں طرف روشنیاں بکھیرتے ہیں۔ دونوں اطراف کھجوروں کے پراسرار ساکن درخت رات کے وقت یوں لگتے ہیں، جیسے بڑی عمر کے بھوت سرگوشیاں کر رہے ہوں۔ جابجا سر ابھارتا صحرا۔ جیسے کسی صحرائی اژدہا نے دونوں اطراف کے راستوں کو حصار میں لے رکھا ہو۔ پرانے وقتوں کی کوئی پراسرار جادونگری۔ جس میں نئے زمانے کی مکینیکل چیزیں در آئی ہوں۔ عجب خوف، سسپنس اور جدید روشنیوں کا ملا جلا امتزاج ہے۔ راستے میں کچھ جگہیں ایسی ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ روشنیوں کا بہت بڑا اسٹاک ایک جگہ ڈھیر کر دیا گیا ہو۔ جسے دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اڈنوک کا پیٹرول پمپ آرہا ہے۔
اڈنوک یا استراحہ:
سیاہ لمبی سڑک پر چھائی سیاہ لمبی رات کے پلو میں بہت سے جگنو ایک ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ جنہیں دیکھ کر بچے اور بڑے بچے کھل اٹھے تھے۔ عباد الرحمن فرنچ فرائز کا تقاضا کرنے لگا۔ شجاع الرحمن بالکن روبنز… امریکن آئس کریم سے دل ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا۔ اللہ لوک آمنہ کا تقاضا ایسا تھا جو اس نے اپنے پاپا کے کان میں کیا۔ کاشف اور میں نے کافی کا انتخاب کیا تھا۔ جبکہ دیگر نے چائے کو ترجیح دی۔ کاشف انہیں بھی کافی کی طرف متوجہ کرتا رہا لیکن انہوں نے اس گرم اور کڑوے پانی کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ فیصل اپنی نصف بہتر کے ساتھ الگ اپنی دنیا آباد کئے کھڑا تھا۔ نہ یہ دنیا ایک ہے اور نہ انسان۔ سب کی دنیائیں الگ الگ ہیں اور ہر کوئی اس چار روز کی دنیا میں مست ہے۔ صور پھونکا جائے گا تو سب چونک پڑیں گے۔ ہم بھی اس وقت چونک پڑے جب کاشف نے ہارن بجایا۔ سب اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے اور ایک دفعہ پھر سیاہ لمبی سڑک اور سیاہ کالی رات ہمارے سامنے تھی۔
دبئی، شارجہ، ابوظہبی، راس الخیمہ وغیرہ یو ای اے کی سات ریاستوں میں پیٹرول کا ایک ہی بہت بڑا ادارہ ہے۔ جس کے پیٹرول پمپ ریاستوں میں جابجا پھیلے ہوئے ہیں۔ کہنے کو تو یہ پیٹرول پمپ ہیں، لیکن یہ شہر کے ایسے چھوٹے چھوٹے حصے ہیں جہاں متعدد شہری سہولتیں دستیاب ہیں۔ انہیں استراحہ بھی کہا جاتا ہے۔ گھڑی بھر دم لینے کی جگہ… چلتی ہوئی سڑک، لوگوں کی بے تحاشا آمدورفت نے ان پیٹرول پمپوں کو شہر جیسا ماحول مہیا کر دیا ہے۔ پیٹرول پمپ سے ملحق ایک وسیع عمارت پر بڑا بڑا سوق لکھا ہوا ہے، جس کا مطلب ہے بازار۔ جو انواع اقسام کی اشیا سے بھرا پڑا ہے۔ بیکری، آئس کریم، شوارما، چائے، کافی، کٹے ہوئے فروٹ کے ٹرے، رنگارنگ چاکلیٹس اور ٹافیوں سے لدی پھندی دکانیں، ہوٹلز، میکڈونلڈ، کے ایف سی، فرنچ فرائز، بروسٹ، پزا کے علاوہ حجام، واش روم، مسجد یہاں سب کچھ موجود ہے۔
شارع شیخ زاید کے اطراف، پہلے کے مقابلے میں زیادہ آباد نظر آئے۔ فلیٹس کی لمبی لمبی قطاریں بن چکی ہیں، جن میں لوگ رہائش اختیار کر رہے ہیں۔ شہر میں فری کار پارکنگ کی عدم دستیابی نے ان فلیٹوں کو آباد کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مضافات کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اس وقت شاید ہم دیکھنے کے لیے موجود نہ ہوں، لیکن قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ ایک وقت آئے گا، جب یو ای اے ایک ہی شہر میں تبدیل ہو جائے گا۔
ایکسپو 2020ء کا انعقاد:
تقریباً تین سال 2 ماہ بعد دبئی میں ایکسپو 2020ء منعقد ہورہی ہے، جو پانچ سال تک جاری رہے گی۔ دنیا بھر سے آنے والے شائقین کی سہولت کے پیش نظر نئی نئی تعمیرات ہورہی ہیں، جس میں سرفہرست ایک بہت بڑے نئے ایئرپورٹ کی تعمیر ہے، جس کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ کئی ہوٹل اور رہائش گاہیں بن رہی ہیں۔ منصوبوں کی تکمیل کے بعد یہاں ایک نئی دنیا آباد ہو جائے گی۔ ممکنہ رش کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے روڈ بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسے منصوبے بھی بن رہے ہیں، جو ان ریاستوں کو دنیا بھر میں نمایاں کر دیں گے۔
ہلوگورٹ اسکول آف وچ کرافٹ: Hogworts School of witchraft
رات دو بجے ہم ابوظہبی پہنچے۔ شہر کی رونقیں اندھیرے اور سناٹے کی اوٹ میں جا چکی تھیں۔ سفر کرتے ہوئے 12 گھنٹے ہو چکے تھے۔ اب تو دل یہی
چاہ رہا تھا کہ بستر ملے اور نیند کی دیوی اپنی آغوش میں لے لے۔ کوئی جھوٹا سچا خواب بھی دکھائی نہ دے۔ میر کہہ رہے ہوں
جی چاہتا ہے کہ سوتا ہی رہوں
قیامت آجائے تو بیگم ذرا جگا دینا
گھر کی آخری گلی میں داخل ہونے والے تھے کہ سڑک اور اسٹریٹ کے عین سنگم پر ہیری پورٹر کے گھوڑے کھڑے تھے۔ گھوڑے اس قدر خوب صورت اور قدآور تھے کہ ان کے سائے ان کے سامنے بونے لگتے تھے۔ ان گھوڑوں کے ساتھ اگر ہیری پورٹر بھی ہوتا تو یقینا ہوگورٹ اسکول آف وچ کرافٹ Hogworts School of witchraft سے آئے ہوئے لگتے۔ لیکن یہ ابوظہبی کی اسپیشل نائٹ پولیس تھی۔ کاشف نے دیکھنے کے لیے لمحہ بھر کو گاڑی روکی تو انہوں نے اشارے سے چلے جانے کو کہا۔ یوں راہ چلتے ان گھوڑوں کو دیکھنا ممنوع ہے۔ کوئی بھی سرپھرا انہیں نقصان پہنچا سکتا تھا۔ بچوں کی گھوڑے دیکھنے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی۔ کاشف بتانے لگا کہ یہ اسپیشل پولیس آوارہ گردوں کا پیچھا کرنے اور وہ لوگ جو ویزا ختم ہونے کے باجود واپس اپنے ملک نہیں گئے، انہیں پکڑنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
آوارہ گرد، غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی، رات کو جاگنے والے آوارہ گرد اور الو رات کے اسی سمے اپنے ٹھکانوں سے باہر آتے ہیں۔
آتش نمرود اور سردخانہ:
اگلا دن چھٹی کا تھا۔ کوئی بھی بستر سے اٹھنے کو تیار نہ تھا۔ تین بجے کے بعد باہر قدم رکھا تو لگتا تھا کہ سڑکوں پر آگ دہک رہی ہے۔ نہ میں ابراہیم تھا نہ یہ آتش نمرود تھی اور نہ کوئی عشق کا امتحان تھا۔ لیکن لگتا تھا کہ اگر چند منٹ یوں ہی سڑک پر کھڑا رہا تو چہرہ جھلس جائے گا اور میں ہاف بوائل تو ہو ہی جائوں گا۔ واپس کمرے کی طرف بھاگا تو لگا کسی سردخانے میں آگیا ہوں۔ نہ باہر آرام نہ کمرے میں چین۔ دروازے کھڑکیاں بند۔ 24 گھنٹے مسلسل ایئرکندیشنڈ چلنے سے کمرہ یخ ہورہا تھا۔ میں نے بیرونی دروازے کا ایک پٹ کھولا تو بہتر محسوس کیا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں بچے اٹھ گئے اور گرمی گرمی چلانے لگے۔ مجبوراً وہ آدھا دروازہ بھی بند کرنا پڑ گیا۔
ایئرکنڈیشنڈ لگاتار چلنے کے باوجود نوجوان گرمی گرمی کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ گرمی سے سردی میں اور سردی سے گرمی میں آنے جانے سے جسم کا نظام متاثر ہونے لگتا ہے۔ مجھے تو رات تک بخار نے دبوچ لیا۔ یہاں مستقل رہنے والے بھی دائمی نزلہ، بخار اور ریڑھ کی ہڈی میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔
پاکستانی تھانے کا ڈرائنگ روم:
گئے وقتوں میں لوگ ہر موسم میں پیدل، گھوڑے، خچر، اور اونٹ پر سوار ہو کر سفر کرتے تھے، پھر بھی اتنی ہاہاکار نہیں مچاتے تھے، جتنی ہم لوگ ہوائی جہازوں اور ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں کے آرام دہ سفر میں مچاتے ہیں۔ فضائی اور بائی روڈ سفر کر کے ہم اتنے تھک چکے تھے کہ دو دن تک گھر سے باہر ہی نہیں نکلے۔ یوں لگتا تھا کہ گزشتہ ایک دن اور ایک رات ہم پاکستان کے کسی تھانے میں گزار کر آئے ہیں جہاں کے ’’ڈرائنگ روم‘‘ میں ہماری چھترول ہوتی رہی ہو۔
تیسرے دن ڈیڑھ بجے میری بہو نے کہا کہ میں بچوں کو اسکول سے لینے جارہی ہوں، چلیں آپ کو دھوپ لگوا لائوں۔ سردخانے میں پڑے پڑے دماغ میں برف جمنے لگی تھی۔ میں اکتایا بیٹھا تھا فوراً تیار ہو گیا۔ دیکھا تو میری نصف بہتر مجھ سے پہلے گاڑی میں براجمان ہے۔
وے توں پاگل تے نئیں:
میری بہو نے ابوظہبی آکر ڈرائیونگ سیکھی۔ لائسنس حاصل کرنے کے کڑے امتحان پاس کئے۔ آہستہ آہستہ یہاں کے قانون کے مطابق ہاتھ صاف کیا اور لائسنس حاصل کیا جو برسوں میں لوگ حاصل نہیں کر پاتے۔ کیا شاندار ڈرائیو کرتی ہے۔ بے اصولی کرنے والوں پر سخت غصہ کرتی ہے اور تمام راستے غلط ڈرائیو کرنے والوں کو کوستی رہتی ہے جو قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔ جب کوئی بے اصولی کرتا ہے تو بلاتکلف اسے بے بھائو کی سنا دیتی ہے۔ بند گاڑی میں اس کی آواز مطعون تک نہیں پہنچتی لیکن وہ اپنا غصہ یہ کہہ کر نکال لیتی ہے: ’’وے توں پاگل تے نئیں۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭