اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے بدھ کو جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف نیب عدالت کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے انہیں پانچ پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ بنچ کے دوسرے رکن جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب تھے۔ یاد رہے کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں انہیں بالترتیب دس سال، سات سال اور ایک سال کی سزائیں سنائی تھیں اور یہ تینوں ملزمان اڈیالہ جیل میں تھے۔ ملزمان کی جانب سے اپیل کے حتمی فیصلے تک شریف خاندان کے تین افراد کی رہائی ایک عبوری مرحلہ ہے۔ دریں اثنا قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی صدارت میں سپریم کورٹ جانے کا عندیہ دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے فیصلے کو ختم نہیں، معطل کیا ہے۔ واضح رہے کہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر تیرہ جولائی سے اڈیالہ جیل میں قید تھے۔ اس دوران بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہوا اور قیدیوں کو پیرول پر رہا کرکے جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر مسلم لیگ کے موجودہ صدر میاں شہباز شریف نے ایک قرآنی آیت ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو بالآخر مٹنا ہی ہے‘‘ (ترجمہ) کا حوالہ دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فیصلے کو متوقع قرار دیا اور کہا کہ اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احتساب عدالت کے فیصلے کی روشنی میں تینوں ملزموں کو دس سال تک عام انتخابات میں حصہ لینے یا کوئی بھی عوامی یا سرکاری عہدہ قبول کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ میاں نواز شریف کے قید میں ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ کو ہمدردی کا ووٹ حاصل ہونے کے ساتھ یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ اس کے امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوکر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں پہنچیں گے اور لیگی حکومت بننے پر تینوں ملزمان کی سیاسی طور پر رہائی کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ لیکن دونوں جگہ مسلم لیگ کو اکثریت حاصل نہ ہو سکی اور وہاں تحریک انصاف کی حکومتیں تشکیل پاگئیں۔ مسلم لیگی رہنمائوں اور کارکنوں کی جانب سے جہاں شریف خاندان کے تین افراد کی رہائی کے حکم پر خوشیاں منائی اور مٹھائیاں تقسیم کی جارہی ہیں، وہیں ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلوں سے قطع نظر عوام کو اصل دلچسپی اس بات سے ہے کہ شریف اور زرداری خاندانوں کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے تو وطن عزیز غربت، افلاس اور قرضوں سے نجات حاصل کرسکے گا۔ تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کے افراد کی آخری منزل اڈیالہ جیل ہی ہے۔ ان کے خلاف ایک فیصلہ معطل ہوا ہے، لیکن الزامات برقرار ہیں اور وہ کرپشن میں ملوث ہیں۔ لیگی رہنما احسن اقبال کے مطابق تینوں ملزمان کے خلاف احتساب عدالت کا فیصلہ انتقامی کارروائی تھا، جس کا مقصد نواز شریف کو سیاسی میدان سے باہر کرنا تھا۔ خواجہ آصف نے تازہ فیصلے کو اپنی جماعت کی فتح قرار دیا اور کہا کہ وہ دوسرے مقدمات میں بھی کامیابی حاصل کر لیں گے۔ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اسباب چاہے جو بھی ہوں، نیب کی جانب سے مقدمے کی پیروی درست اور مؤثر انداز میں نہیں کی گئی، تاہم اس کا اندازہ شریف خاندان کے خلاف دائر دیگر مقدمات اور ریفرنسز میں ہو جائے گا۔ تفصیلی فیصلہ آنے اور نیب کے سپریم کورٹ میں جانے تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ ملک کے عام شہریوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کس کے خلاف مقدمے دائر ہونے ہیں اور کون جیتنے میں کامیاب یا ناکام ہوتا ہے۔ یہ امر طے اور ثابت شدہ ہے کہ مقتدر و متمول طبقات نے قومی دولت کو بری طرح لوٹا کھسوٹا ہے، جس کی وجہ سے ملک شدید قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ مسلم ریاست کیلئے دو سادہ سے اصولوں کو اختیار کرلیا جائے تو سیاست اور قانون کے پیچیدہ نظام سے بچ کر اور لٹیروں کو سزائیں دے کر ان سے لوٹ کا مال بہت جلد برآمد کرایا جاسکتا ہے۔ ایک اصول تو یہ ہے کہ جس شخص یا خاندان کے پاس اس کی جائز آمدنی سے زیادہ مال و دولت اور اثاثے ہیں، وہ یقینا بدعنوان اور خائن ہے۔ خواہ اس کا تعلق اقتدار کے ایوانوں سے ہو، نوکر شاہی سے ہو یا مراعات یافتہ و بااختیار اور سرمایہ دار طبقے سے۔ دوم یہ کہ جو لوگ قوم پر حکمرانی کیلئے منتخب ہوں یا انتخابی نظام کے نہایت ناقص ہونے کی وجہ سے کسی طرح اقتدار میں آجائیں تو انہیں پاکستان جیسی مسلم ریاست میں عوام کے حاکم نہیں، خادم بن کر رہنا چاہئے۔ اس صورت میں ان کی شہرت و عزت اور جائز دولت پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا۔ مسلمان حکمرانوں کو اپنے اقتدار و اختیارات سے غیر قانونی فوائد حاصل کرنے اور نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے بجائے ضرورت سے زائد اپنا تمام مال و اسباب از خود قومی خزانے میں جمع کرادینا چاہئے۔ قومی دولت کو لوٹ کر عوام کی خدمت کا دعویٰ کسی کو زیب نہیں دیتا، لیکن ہمارے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں سارے غلط کام دھڑلے سے ہوتے ہیں اور جب ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں پہنچتے ہیں تو وہ بڑے بڑے قانون دانوں (وکیلوں) کو لاکھوں کروڑوں روپے فیس دے کر مقدمات اور عدالتوں کو طویل عرصے تک قانونی پیچیدگیوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ کوئی غریب شہری معمولی جرم کا مرتکب ہو تو وہ فوراً جیل بھیج دیا جاتا ہے اور وہ اکثر اوقات برسوں تک قید میں رہتا ہے، جبکہ بعض غریب قیدی تو جیل ہی میں گل سڑ کر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف سزائوں کی معطلی کے مقدمے میں فاضل جج صاحبان کے ریمارکس سے پہلے ہی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔ نیب کی جانب سے کیس کو کمزور کرکے لڑنے اور ایک جج صاحب کی جانب سے وکیل صفائی کی طرح جرح کرنے کا انداز قانونی حلقوں نے دیکھا تو کچھ مناسب محسوس نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران ممکن ہے کہ یہ پہلو بھی زیر غور آئے۔ پاناماکیس میں شریف خاندان کے خلاف طویل تحقیق و تفتیش اور جے آئی ٹی کی کاوشوں کے نتیجے میں یہ بات تو کھل کر سامنے آگئی تھی کہ ملزمان اپنی بے پناہ دولت کے ذرائع ثابت کرنے میں ناکام رہے یا ا س سے گریز کرتے رہے۔ اتنے طویل عرصے تک لوٹ مار کے سادہ سے معاملے کو الجھانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا قانونی نظام نہایت فرسودہ و بوسیدہ ہوچکا ہے۔ وہ غریبوں سے چوری کے تھوڑے پیسے تو واپس لے سکتا ہے، لیکن اربوں کھربوں کی لوٹ کھسوٹ کرنے والے جیلوں میں بھی عیش کرتے ہیں اور جیلوں سے باہر آکر بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔ ان کا ضمیر مطمئن اور ہاتھ صاف ہیں۔ دوسری طرف ایک اور بہت بڑے لٹیرے خاندان کے سربراہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے دس سال کے اثاثوں کی تفصیل طلب کرنے کو غیر آئینی قرار دے کر خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور ہمارا قانون ثبوت و شواہد کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہے۔ عوام کی ان لٹیروں سے یہی درخواست ہے کہ اب تو وہ خدا کا خوف کریں اور لوٹی ہوئی رقم واپس کرکے ملک و قوم کو پنپنے کا موقع دیں۔ اگر وہ سچے مسلمان ہیں تو انہیں آخرت کی جوابدہی کا یقین ہونا چاہئے، جب کوئی جھوٹ، فریب اور چالاکی کام نہ آئے گی۔ ناجائز کمایا ہوا یہی مال سانپ اور اژدہے بن کر انہیں ڈسے گا اور جہنم ان کا ابدی ٹھکانہ ہوگا۔
٭٭٭٭٭