مولانا صہبائی نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے: ’’تو سنئے، یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ ’’مہ‘‘ بمعنی ’’مہینہ‘‘ کا پردہ ’’شہر‘‘ ہے کہ عربی میں ’’مہینہ‘‘ کے لئے لفظ ’’شہر‘‘ ہے، لیکن آگے ذرا ٹیڑھا معاملہ ہے۔ ’’خود‘‘ بفتح اول کے معنی ہیں ’’لام‘‘ اور ’’لام‘‘ کو ’’را‘‘ سے بدل لیتے ہیں، جیسے ’’دیوار‘‘ سے ’’دوال‘‘۔ لہذا شہرام ’’شہرام‘‘ حاصل ہوا۔ کیا سمجھے؟‘‘۔
’’جی، حضور نے ’’خود‘‘ کی ماہیت ہی بدل دی‘‘۔ میرزا قادر بخش نے ہلکی سی شکایت کے لہجے میں کہا۔ مولانا صہبانی ہنسے۔ ’’تو اور معمے کیسے بنتے ہیں صاحب من۔ آگے سنئے۔ اعداد کے اعتبار سے ’’ما‘‘ چہل (چالیس) اور ایک (ایک) ہے۔ ’’دل از ما برد‘‘ کی تکرار اس معنی میں ہے کہ دل کو ہم سے لے گیا اور بالآخر اسے نابود کردیا۔ دل کو ہم (ما) سے لے گیا یعنی ’’چہل‘‘ کا دل یعنی ہائے ہوز کو لے گیا۔ پھر تکرار کے سبب ’’یک‘‘ کا دل یعنی اس کا نقطہ لے گیا، کیوں کہ یہاں نقطہ نہیں تو لفظ بھی نہیں‘‘۔
’’اللہ اللہ کیا پیچ ہیں کیا تاؤ ہیں۔ استاد ہم تو کان پکڑتے ہیں‘‘۔ قادر میرزا نے کہا۔
’’ابھی معما حل کہاں ہوا صاحب عالم‘‘۔ مولانا صہبائی نے جواب دیا۔ ’’ابھی صرف یہ ہوا ہے کہ ’’شہرام‘‘ کا دل یعنی ہائے ہوز، اور اس کے نقطے حذف کئے تو ’’شہرام‘‘ سے ’’سرام‘‘ حاصل ہوا۔ اب بہ سبب تکرار، ’’یکے‘‘ کا دل یعنی کاف لے گیا کہ اعداد اس کے بیس ہیں اور ’’یک‘‘ کا دل یعنی اس کے نقطے نکالے تو پھر کاف رہا کہ اعداد جس کے بیس ہیں۔ اب بیس کے آگے نقطہ واپس لگادیں بطور تکرار تو دو سو بنتے ہیں۔ اور یہ اعداد ہیں رائے مہملہ کے اور یہی رائے مہملہ ’’سہرام‘‘ کا دل بھی ہے۔ جب یہ دل نکالا تو ’’سام‘‘ باقی رہا۔ فہوالمقصود‘‘۔
’’استاد ان معموں پر تو میر حیدر معمائی بھی آپ کے آگے پانی بھرتا‘‘۔ فتح الملک بہادر نے کہا۔ قادر مرزا نے اٹھ کر استاد کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ ’’اللہ اللہ کیا طباعیاں ہیں، کیا نکتہ شگافیاں ہیں‘‘۔
صہبائی مسکرائے۔ ’’یہ سب پیر و مرشد کا فیض ہے‘‘۔ ’’پیرو مرشد‘‘ سے بادشاہ سلامت مراد تھے۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد مرزا قادر بخش صابر نے دونوں ہاتھوں پر رکھ کر استاد کو ایک روپیہ نذر کیا اور اجازت رخصت کی چاہی۔
’’قادر مرزا برادر، جی تو نہیں چاہتا تھا کہ آپ کو اس تعجیل سے مرخص کروں‘‘۔ مرزا فخرو نے کہا۔ ’’لیکن استاد کو بھی کچھ امر درپیش ہیں، اس لئے یہ دلچسپ محفل یہیں تمام ہوتی ہے‘‘۔
یہ کہہ کر مرزا فخرو نے سر و قد اٹھ کر مرزا قادر بخش کو تین تسلیمیں کیں اور چوبدار کے لئے تالی بجائی۔ چوبدار اندر آیا تو فتح الملک بہادر بھائی کو ساتھ لئے لئے دروازے تک آئے اور ’’فی امان اللہ‘‘ کہہ کر انہیں رخصت کیا۔
مولانا صہبائی انتظار میں تھے کہ مجھے بھی کچھ اشارہ ملے تو اجازت طلب ہوں، لیکن صاحب عالم تو بالکل خاموش تھے، گویا کسی فکر میں ہوں۔ مولانا پر یہ بات بھی واضح تھی کہ خود انہیں کوئی امور درپیش نہ تھے جیسا کہ صاحب عالم نے مرزا قادر بخش صاحب سے کہا تھا۔ امور تو یقیناً متعلق بہ صاحب عالم ہوں گے اور یقیناً کوئی مشورہ مجھ سے درکار ہوگا، لیکن جب تک کچھ عندیہ نہ ملے مجھے چپ ہی رہنا ہے اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ مجھے کچھ کام نہیں، کہیں جانے کی عجلت نہیں۔
بالآخر مرزا محمد سلطان فتح الملک بہادر نے سر اٹھایا۔ ’’استاد‘‘۔ انہوں نے سر سری گفتگو کے لہجے میں کہا۔ ’’ایک بات ہے‘‘۔
’’صاحب عالم، ارشاد میں ہمہ تن گوش ہوں‘‘۔
’’آپ چھوٹی بیگم سے واقف ہیں؟‘‘۔
’’جی کون، وہی چھوٹی بیگم جو نواب شمس الدین احمد سے متعلق تھیں؟ میں نے انہیں دیکھا تو نہیں لیکن…‘‘۔
’’… ان کے حسن کے شہرے سنے ہیں‘‘۔ فتح الملک بہادر نے مسکرا کر کہا۔
’’جی وہ تو ہے‘‘۔
’’ہمارے یہاں طریقہ تو یہ تھا بلکہ ہے کہ ظل سبحانی کسی کے لئے اشارہ کر دیتے تھے یا علیا حضرت صاحب کوئی تجویز پیش کرتی تھیں‘‘۔ فتح الملک بہادر ایک لحظہ خاموش رہے، پھر بولے۔ ’’کبھی باقاعدہ پیغام بھی گیا تو آپس ہی میں گیا۔ بارات اکثر گھر میں اترتی تھی، یا دلہن کا ڈولا سارے ساز و اہتمام کے ساتھ قلعہ مبارک میں آجاتا تھا‘‘۔
مولانا نے چشم زون میں بات سمجھ لی۔ ’’درست اور بڑی بات یہ کہ فریقین کی طرف سے گفتگو ایک ہی شخص کرلیتا تھا یا اگر دو ہوئے تو اول اجتماع فریقین ہی میں بات طے ہوجاتی تھی‘‘۔
’’لیکن یہاں معاملہ دیگر ہے۔ باہر پیغام ہم بھیجتے نہیں ہیں۔ ظل الہیٰ کی رضا مندی بھی تبھی ہوگی جب سب باتیں ادھر سے ہوں، لیکن اشاروں میں مہابلی سلامت کی مرضی بھی شامل ہو‘‘۔
’’چھوٹی بیگم کی ایک بڑی بہن تو ہیں…‘‘ صہبائی نے کہا۔
’’جی ہاں، وہ تو ہے‘‘۔ مرزا فخرو نے الفاظ کو ذرا کھینچ کر ادا کیا۔
’’تو پھر مشکل کیا ہے صاحب عالم‘‘۔ صہبائی نے کہا۔ ’’احترام الدولہ حکیم احسن اللہ خان صاحب یہ بات مہابلی کے کان میں ڈال دیں، باقی کام ہم کر لیں گے‘‘۔
’’لیکن مہابلی کی نظر ہم پر کچھ بہت کرم فرمایانہ نہیں ہے…‘‘۔ مرزا فخرو نے رک رک کر کہا، جیسے بادل ناخواستہ کسی بات کا اقرار کر رہے ہوں۔
مولانا صہبائی کو قلعے کی سیاست میں اگرچہ اس درجہ درک نہ تھا جتنا استاد ذوق کو تھا، لیکن وہ نپٹ بے علم بھی نہ تھے۔ یہاں انہوں نے اپنی فراست اور شرافت دونوں کو کام میں لاتے ہوئے وہ بات کہی جسے کہنے میں ولی عہد سوہم کو تکلف ہو رہا تھا۔
’’جی، وہ ملکہ دوراں نواب زینت محل صاحب دامت اقبالہا و ادام اللہ ایامہا کا معاملہ بے شک درمیان ہے، کہ انہیں مرزا جواں بخت صاحب کے امکانات ولی عہدی…‘‘۔
’’شش… دیوار ہم گوش دارد!‘‘۔ ولی عہد سوئم نے کہا۔ ’’بات کو استاد نے سمجھ لیا، بہت خوب‘‘۔
’’مرشد زادہ عالم و عالمیاں۔ ایک بیٹا اللہ نے آپ کو پہلے ہی ودیعت فرما دیا ہے۔ خداوند عالم اعلیٰ حضرت میراں شاہ صاحب کو قائم و دائم رکھے، اس وقت معاملات ولی عہدی کے قیاسی بھی نہیں، ظنی ہیں۔ علیا حضرت ملکہ دوراں کو اس امر میں کچھ خیال ہو تو عبث اور بے سود ہی رہے گا۔ مجھے اذعان کامل ہے کہ حضرت ظل اللہ دامت فیوضہم کو علیا حضرت کی بات پر اصلا توجہ نہ ہوگی۔ میری رائے ناقص میں تو یہی آتا ہے کہ احترام الدولہ کے توسط سے آپ کی بات گوش گزار ظل سبحانی کے کردی جائے۔ رہیں خانم صاحب، تو ان کی بڑی بہن کو درمیان میں لا سکتے ہیں‘‘۔
’’مرزا فخرو کا چہرہ کھل اٹھا‘‘۔ ماشاء اللہ۔ استاد آپ کی خیرخواہی اور فراست سے ہم بہت خوش ہوئے ہیں۔ ہم کل ہی احترام الدولہ کو اس باب میں زحمت دیں گے‘‘۔
’’بہت مبارک۔ انشاء اللہ اس کے فوراً ہی بعد بڑی بیگم کے توسط سے معاملات کو انجام تک پہنچانے کی سعی بلیغ ہوگی‘‘۔
’’آپ کو خدا کامیاب کرے‘‘۔ فتح الملک بہادر نے ٹھنڈے سانس لے کر کہا۔ ’’ورنہ آپ جانتے ہی ہیں کہ ’’لیس بین الموت والفراق فرق‘‘۔
’’ایسے کلمات منہ سے نہ نکالیں صاحب عالم۔ وہ خالق ہے، باری ہے، منعم ہے، بحر سخا ہے۔ آپ نے سنا نہیں کیا؟ ’’البحر لایخاف من السرق‘‘، مولوی صہبانی ہنسے۔ ’’اور ہم تو مانگ رہے ہیں، چوری بھی نہیں کر رہے ہیں۔ وہ دے گا اور ضرور دے گا‘‘۔
’’جو بھی ہو، میں تو یہی جانتا ہوں کہ دلم سخت آرزو مند است‘‘۔
’’صاحب عالم، ہم بھی جانتے ہیں کہ ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است، لیکن عشق کی ایک جست فاصلہ ہائے دور دراز کو چٹکیوں میں اڑا دیتی ہے‘‘۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭