نئی دنیا (دوسرا حصہ)

تقدس بھرا سایہ:
خلیجی ریاستوں میں بلڈنگیں دیکھنے کی چیز ہیں۔ خالص عربک طرز تعمیر کی جدید رہائش گاہیں۔ چوڑائی میں کم اور اونچائی میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی بلڈنگیں۔ ایک کے پیچھے دوسری اور پھر تیسری۔ کھڑکیوں اور چوباروں کی بہتات۔ ہر چار یا پانچ بلڈنگوں کے بعد ایک مناسب سائز کی مسجد۔ آگے پیچھے بنی بلڈنگوں کے جھروکوں میں پچھلے محلے کی مسجدوں کے جھانکتے ہوئے دلکش مینارے۔ اسلامی طرز تعمیر کے نمائندے جو بلڈنگوں اور رہائش گاہوں پر تقدس بھرا سایہ کئے رکھتے ہیں۔ ہر بلڈنگ کا گرائونڈ فلور بڑی بڑی دکانوں بینک یا دفاتر پر مشتمل۔ یہاں ہر سمت دولت بکھری پڑی ہے جو لوگوں کی جیبوں میں پڑی کم رقم کو کھینچ نکالتی ہے۔ وہ لوگ بہت بہادر ہوتے ہیں جو اپنی جمع پونجی بچا لے جاتے ہیں۔ پھر بھی افسوس ان کا دامن گیر رہتا ہے کہ فلاں چیز کتنی اچھی تھی۔ خرید لیتا تو مزہ آجاتا۔
انگریزی طریقہ تعلیم:
GEMS WINCHESTER SCHOOL برطانوی طرز تعلیم کا اسکول ہے۔ جہاں کاشف کے تین بچے زیر تعلیم ہیں۔ اسکول میں انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں بات کرنا ممنوع ہے۔ یہاں پہلی کلاس کا بچہ بھی انگلش میں بات کرتا ہے۔ ان بچوں کو انگلش بولنے میں اس قدر مہارت ہو گئی ہے کہ وہ گھر میں بھی انگلش ہی بولتے ہیں۔ ماں باپ پڑھے لکھے ہیں، اس لیے انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، لیکن ہم سے وہ اردو ہی میں بات کرتے ہیں۔
میرے ایک دوست جی این بزمی تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ بہت زیرک انسان تھے۔ وہ بچوں سے انگریزی کے بجائے اردو یا پنجابی میں بات کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسکول میں بچے انگریزی آسانی سے سیکھ جاتے ہیں، لیکن پنجابی انہیں صرف ماں باپ ہی سکھا سکتے ہیں۔ اگر ہم بھی ان سے اردو یا انگریزی ہی میں بات کرنا شروع کر دیں تو وہ پنجابی کس سے سیکھیں گے؟ اس طرح بچے اپنی مادری زبان سیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو پنجابی کے علاوہ فارسی، عربی اور پشتو بھی سکھائی کہ سب ہماری اپنی زبانیں ہیں۔
قاری سلمان حلیم کا دلکش انداز تکلم:
ابوظہبی میں تعلیم بے حد مہنگی ہے۔ وقت اس سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ یہاں معاوضے بھی منٹوں کے حساب سے لیے جاتے ہیں۔ یہاں جز وقتی کام کرنے والے گھریلو ملازمین فی گھنٹہ کے حساب سے معاوضہ لیتے ہیں۔ اسی لیے لوگ گھر کے تمام کام خود کرتے ہیں۔ بچوں کو ہوم ورک اور ٹیوشن خود ہی پڑھاتے ہیں۔ کاشف نے بچوں کو قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم کے لیے قاری سلمان حلیم کا انتخاب کیا ہے۔ ہم اسکول سے گھر واپس پہنچے ہی تھے کہ قاری صاحب آگئے۔ اعظم گڑھ یوپی کے رہنے والے قاری حلیم صاحب بچوں کو تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس وقت اٹھارہواں پارہ پڑھا رہے ہیں۔ اتنی اچھی اردو بولتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ وہ بولتے رہیں اور سنا کرے کوئی… میرے پوچھنے پر کہ آپ نے گفتگو کا اتنا اچھا انداز کیسے اپنایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سب قرآن پاک کی برکت ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہم لوگ مصحف شریف کو صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ تو میں نے مدینہ منورہ جا کر باقاعدہ تجوید سیکھی۔ اس کا اثر روزمرہ کی گفتگو پر بھی پڑا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں اردو اسپیکنگ طبقہ بھی صحیح اردو بولنے سے قاصر ہے، بلکہ انہوں نے تو اردو کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ سب سے اچھی اردو اور تلفظ کی صحیح ادائیگی پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں ہوتی تھی، جسے ہم بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے اور اپنی اصلاح کرتے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment