پاکستانیوں کے بیرون ملک اکائونٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میرے تخمینے کے مطابق دبئی میں پاکستانیوں کی ایک ہزار ارب یعنی دس کھرب روپے سے زائد کی جائیدادیں ہیں۔ ادھر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی دو ہزار سات سو جائیدادوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک عارف باجوہ نے بتایا کہ عدالت کی جانب سے نوٹس لئے جانے کے بعد بہت بہتری آئی ہے۔ ہم دوسرے ممالک سے رابطے میں ہیں۔ پانچ سو پچاس افراد سے تفتیش کی جائے گی، جو بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں۔ اٹارنی جنرل نے فاضل عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ برطانیہ کے ساتھ ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ ہوا ہے اور وہاں سے ایک شخص کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ برطانیہ میں گرفتار افراد کے ناموں کو عام نہیں کیا جا سکتا اور بھی کئی لوگوں کی گرفتاری کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ بعض افراد کے نام فاضل عدالت کے چیمبر میں بتا سکتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے ان ریمارکس پر کہ منی لانڈرنگ غیر ملکی اکائونٹس سے بھی ہوئی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ حوالہ میں ملوث چوالیس افراد کو پنڈی سے گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ پشاور سے گیارہ کروڑ نوے لاکھ روپے قبضے میں لئے گئے ہیں۔ جسٹس عطا بندیال کے اس سوال پر کہ لاہور اور دیگر شہروں سے گرفتاریاں کیوں نہیں کی گئیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تمام بڑے شہروں میں کارروائیاں جاری ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فی الحال ساری کارروائی کاغذی ہے۔ اصل کام لوٹی ہوئی رقم کو واپس لانا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیا ایک ڈالر بھی ملک میں واپس آیا ہے؟ قومی لٹیرے اپنی لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کیلئے بڑے بڑے وکیلوں کے ذریعے جو عدالتی کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اب تک ان کا حاصل فاضل جسٹس اعجاز الاحسن کا یہی جملہ ہے کہ کیا اس رقم کا ایک ڈالر بھی ملک میں واپس آیا ہے اور جب تک ایسا نہ ہو، ساری کارروائی کاغذی ہی قرار پائے گی۔ بیرون ملک سے پاکستان کی لوٹی ہوئی رقم واپس لانے میں نیک نیتی کے فقدان کے سوا بظاہر کوئی دشواری یا رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو ہر ملک تعاون پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ لوٹ کی رقم سے بیرون ملک اثاثے اس بنا پر دوسرے ملک کے لئے بھی خطرناک ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے ذریعے دہشت گردوں کو رقوم اور ہتھیار تو فراہم نہیں کئے جا رہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کے پیش نظر ناجائز دولت ثابت ہو جائے تو اسے فوری طور پر ضبط کرنے میں دنیا کا کوئی قانون رکاوٹ نہیں بنتا، بلکہ معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ جس کا جواب تمام ذمے دار اداروں اور حکام پر واجب ہے کہ بیرون ملک موجود پاکستان کی لوٹی ہوئی رقم واپس لانے میں بعض دشواریاں حائل ہیں تو ملک کے اندر بھی لٹیروں کی دولت جائیدادیں اور اثاثے کچھ کم نہیں ہیں۔ ان کے ثبوت حاصل کرنا بھی چنداں مشکل نہیں، لیکن صرف یہی بات کافی ہے کہ ان کی آمدنی سے زائد سب کچھ ناجائز اور غیر قانونی ہے۔
وطن عزیز شدید اقتصادی بحران میں مبتلا ہو تو کسی شہری کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ضروری اخراجات سے کئی گنا زائد رقوم اور اثاثوں کا مالک بنا رہے، جبکہ بائیس کروڑ پاکستانی صاف پانی اور ضرورت کے مطابق غذا، تعلیم اور علاج سے بھی محروم ہوں۔ اعلیٰ عدالتیں جن معاملات میں محسوس کرتی ہیں کہ کچھ افراد یا ادارے قانون سے تجاوز کر کے ملک اور قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے تو ان کے خلاف عدالتوں کی جانب سے از خود نوٹس لیا جاتا ہے۔ یہ معاشی دہشت گردی کا معاملہ سب سے زیادہ ہولناک ہے، جو دوسرے بہت سے جرائم کو فروغ دینے کا بھی بڑا سبب ہے۔ لہٰذا اس کا از خود نوٹس لینا حب الوطنی کا بنیادی تقاضا ہے اور اس سلسلے میں عدالتوں کو افواج پاکستان سے تعاون حاصل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ اسی بنا پر ہم ان کالموں میں بار بار زور دیتے چلے آ رہے ہیں کہ اگر آج کی آزاد عدالتوں نے فوج اور ذرائع ابلاغ کی مدد سے لوٹی ہوئی دولت فوری طور پر واپس لانے پر توجہ نہ دی تو پھر ایسا موقع آئندہ شاید نہ ملے۔ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے تخمینے کے مطابق صرف دبئی میں پاکستانیوں کی ایک ہزار ارب یعنی دس کھرب روپے سے زائد کی جائیدادیں ہیں۔ برطانیہ، امریکا، فرانس، سوئٹزر لینڈ، جرمنی، جنوبی افریقہ، سعودی عرب، ملائیشیا اور دیگر ممالک میں ان کی اور دیگر لٹیروں کی جائیداد و املاک کا پتہ لگا کر انہیں واپس لایا جائے تو ملک کے دلدّر دور کئے جا سکتے ہیں۔ ملک کے اندر اور باہر دولت پر سانپ بن کر بیٹھنے والے یہ لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے قانونی پیچیدگیوں میں الجھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کسی ملک اور قوم پر کڑا وقت آئے تو سخت فیصلے ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں ملک معاشی طور پر مستحکم اور عوام خوشحال ہو جائیں تو کوئی یہ دہائی دینے کی ہمت نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اہم فیصلے اور اقدامات کر رہے ہیں۔ اس میں انہیں موجودہ حکومت، افواج پاکستان اور ذرائع ابلاغ کی بھی تائید و معاونت حاصل ہے۔ اب اگر وہ پندرہ بیس بڑے چوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کے نام طلب کر رہے ہیں تاکہ ان سے جواب طلب کیا جا سکے تو تمام اداروں اور ان میں موجود محب وطن حکام کو اپنا ماضی فراموش کر کے آگے آجانا چاہئے۔ معاشی دہشت گردی میں مبتلا افراد، خاندانوں اور گروہوں کے سہولت کاروں کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اب بچنا کسی کو نہیں ہے۔ آج نہیں تو کل ان کی باری آ جائے گی۔ لہٰذا اپنے جرائم اور گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ توبہ اور معافی طلب کرتے ہوئے اپنے وطن اور آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں تعاون کریں۔ اس طرح ان کی دنیا و آخرت، دونوں سنورے کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭