سرفروش

روزنامہ امت کراچی /حیدر آباد /راولپنڈی /پشاور
عباس ثاقب
رفتہ رفتہ سچن بھنڈاری کا غیظ و غضب مزید شدت پکڑ گیا اور اس نے بدبودار گالیوں کے درمیان بد دعا دی کہ بھوانی دیوی، ٹرین کی اس بوگی میں آ گ لگا دے اور نیل کنٹھ کو جلاکر بھسم کر دے، جس میں وہ راجدھانی دلّی جانے والا ہے۔ میں نے اپنا جوش و خروش دباتے ہوئے سرسری لہجے میں کہا۔ ’’وہ نیچ سوموار کو جا رہا ہے ناں راجدھانی؟‘‘۔
اس نے جھومتے ہوئے، لگ بھگ خرخراتی آواز میں کہا۔ ’’نئیں، منگل وار…!‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وہ صوفے پر ڈھیر ہوگیا۔
سچن تو ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا، لیکن اس کی زبان سے نادانستہ طور پر نکلنے والے الفاظ نے میرے اعصاب جھنجھنا کر رکھ دیئے تھے۔ میرے ذہن میں سوالات آندھی کی طرح چکرا رہے تھے۔ بظاہر ڈرپوک اور مجہول نظر آنے والے اس شخص نے اپنے باس کی دلّی روانگی کے حوالے سے سفید جھوٹ بولا تھا۔ شراب کے اثر سے اس کا دماغ نہ گھومتا تو ہم اس کی بات کا اعتبار کر کے کموڈور کی دلّی روانگی کا انتظار کرتے رہتے ادھر وہ دارالحکومت کا چکر لگاکر واپس بھی آجاتا، اور ہمارا کام دھرے کا دھرا رہ جاتا۔
اب میرے ذہن میں یہ شک بھی زور پکڑ رہا تھا کہ کہیں اس نے اپنے دفتر کی فائلوں سے مطلوب رازوں کی فراہمی کے حوالے سے بھی ہمیں جھانسا تو نہیں دیا؟ شاید یہ ہمیں الّو بناتے ہوئے کسی مناسب موقع کا منتظر ہے کہ اپنی جان چھڑاکر میری گردن پھنسا سکے۔ میں ایک بار خفیہ والوں کے ہتھے چڑھ گیا تو اسے بلیک میل کرنے والا حربہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔
میں نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو پرسکون کرنا چاہا۔ بظاہر کینچوا نظر آنے والا یہ سانپ اگرچہ مجھے دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا۔ تاہم اللہ رب العزت کی کرم نوازی سے مجھے ڈسنے سے پہلے ہی یہ بے نقاب ہوگیا تھا اور اس کی گردن میرے شکنجے میں ہے۔ اگر اس نے اب تک چال بازی کی ہے تو بھی، اسے ہماری انگلی کے اشارے پر ناچنا پڑے گا۔ لیکن پہلے یہ تصدیق ضروری ہے کہ اس نے اب تک جو معلومات مہیا کی ہیں، وہ اصلی ہیں یا جعلی۔
فی الحال اپنے اس شک کی تصدیق یا تردید کے لیے میرے پاس ایک ہی راستہ تھا، اور وہ یہ کہ آج یہ جو فائلیں لایا تھا، ان کا بغور جائزہ لیا جائے۔
میں اسے وہیں نشست گاہ میں چھوڑکر اس کی خواب گاہ میں جا پہنچا۔ مجھے سامنے ہی مسہری کی سائیڈ ٹیبل پر فائلوں کا پلندا رکھا نظر آگیا۔ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ فائلوں پر لپٹا فیتہ کھولا اور سب سے اوپر والی فائل کھول کر اس میں موجود دستاویز ات پر نظر دوڑائی۔ میں بحری سائنس کے رموز سے نابلد تھا، لیکن مجھے امید تھی کہ دستاویزات کے مندرجات کا بغور جائزہ لینے کے بعد معاملہ کسی نہ کسی حد تک بھانپ لوں گا۔
پہلی دو فائلیں جہاز کی تزئین و آرائش پر آنے والے اخراجات اور عملے کی تنخواہوں کی دستاویزات پر مشتمل تھیں۔ میں نے چیدہ چیدہ معلومات کی تصویریں کھینچنے پر اکتفا کیا۔ لیکن، میری نظروں کے سامنے آنے والی تیسری دستاویز نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ وہ ایک تحقیقی رپورٹ کا نتیجہ (Findings) تھی۔ آئی این ایس وکرانت کے کمان دار کے طور پر منتخب کیے جانے والے کیپٹن ایس پرکاش کی مکمل کردہ اس رپورٹ میں آئی این ایس وکرانت کے اسٹیم بوائلرز میں پڑنے والی باریک دراڑوں سے جہاز کی کارکردگی پر رونما ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
میں جیسے جیسے رپورٹ کے نتائج پڑھتا گیا، میرے لہو کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔ ایس پرکاش نے اپنے اخذکردہ نتیجے میں بتایا تھا کہ یہ دراڑیں فی الحال اتنی باریک ہیں کہ انسانی نظریں انہیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔ تاہم اگر جہاز کے انجن ایک حد سے زیادہ رفتار پر چلائے گئے تو یہ دراڑیں کھلنا شروع ہو جائیں گی اور عین سمندر کے بیچ کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے۔
یہ پڑھ کر میں خوشی سے جھوم اٹھا۔ اپنی دلی کیفیت سنبھالتے ہوئے میں نے آگے پڑھا۔ کیپٹن پرکاش نے شدید مایوسی کے احساس کے تحت لکھا تھا کہ اس صورتِ حال میں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آئی این ایس وکرانت کی زیادہ سے زیادہ رفتار صرف چودہ ناٹ (سولہ میل فی گھنٹا) رکھی جائے۔ لیکن اس صورت میں یہ پاکستان کی امریکی ساختہ ٹینچ کلاس آب دوز کا آسان شکار بن سکتا ہے، جس کی خریداری کی بات چیت جاری ہے۔
باقی رپورٹ میں جہاز پر سے پرواز کرنے اور اترنے کے حوالے سے طیاروں کی سلامتی اور تحفظ کے حوالے سے سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ جبکہ جہاز پر طیارہ شکن توپوں کی کارکردگی کے حوالے سے کئی کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی تھی اور بحیثیت مجموعی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس جہاز کو ہندوستانی بحریہ کے لیے سفید ہاتھی قرار دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں اعلیٰ حکام کی طرف سے جہاز پر تعینات کرنے کے لیے خریدے گئے طیاروں کے انتخاب پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور ان میں سے ہر قسم کے طیارے کی کارکردگی کے سابقہ ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس نے ڈر ظاہر کیا تھا کہ یہ جہاز کسی جنگی معرکے سے پہلے جہاز کے عرشے سے پرواز کرتے اور لینڈکرتے ہوئے تسلسل سے تباہ ہو سکتے ہیں، جس سے جہاز اور طیاروں کے عملے کے حوصلے پست ہو جائیں گے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment