’’کفرتوپ‘‘

’’یہ سارے کے سارے پکے جہنمی ہیں…‘‘
’’ان سے ہماری کون سی چیز ملتی ہے‘‘
’’یہ سند یافتہ گستاخ ہیں، ان کے عقائد نہیں دیکھے آپ نے؟‘‘
’’کافر کافر…‘‘
ان نعروں اور اس قسم کی جاہلانہ گفتگو کے بعد سیلانی کا وہاں رکے رہنا کسی طور ممکن نہ تھا، جہاں ایمان کے ٹھیکیدار ہاتھ میں کفر کے فتوے لئے پاؤں پسارے بیٹھے تھے۔ سیلانی کا جی چاہا کہ جاتے جاتے وہ اس گروپ کے عالی دماغ پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھائے اور بتائے کہ وہ جس کھیل کا حصہ بن رہے ہیں، سیلانی اس کا نتیجہ دیکھ آیا ہے۔ خدا کے لئے پاکستان پر رحم کریں، لیکن وہاں موجود لوگ سننے اور سمجھنے والے نہیں، برسنے والے تھے۔ ان کی گفتگو سے سیلانی کو استنبول کی وہ سرد شام یاد آگئی، جسے وہ آج تک اپنے ذہن سے نہیں نکال سکا۔
سیلانی گزشتہ برس ستمبر کے انہی دنوں خوشحال ترکی میں تھا، خوش مزاج ترکوں کے دیس کے تاریخی شہر استنبول میں موسم سرما کے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی تھی اور یہاں ہوٹلوں کا رش چھٹنے لگا تھا۔ یورپ اور ایشیا کے دو براعظموں میں واقع اس شہر میں سردیاں سیاحوں کو آنے سے روک دیتی ہیں، یہاں خوب ٹھنڈ پڑتی ہے، جاڑا لباس اور گوشت پوست کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے بوڑھی انگلیوں سے ہڈیاں چھو رہا ہوتا ہے۔ ایسے سرد موسم میں بھلا یورپ اور دیگر ممالک کے سیاح یہاں کیوں آنے لگے؟ جو آئے ہوئے بھی ہوتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اکتوبر ہوتے ہی واپسی کی راہ لے لیں۔
سہہ پہر ہونے والی بارش کے بعد استنبول کی وہ شام بھی خاصی سرد ہو چکی تھی اور جیسے جیسے شام ڈھلتی جا رہی تھی، سردی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ سیلانی اپنے ہوٹل کے کمرے میں دبکا ہوا تھا کہ قریبی جامع مسجد سے خوش الحان مؤذن کی آواز نے مسجد کی طرف آنے کی صدا دی۔ سلطان فاتح کی مسجد قریب تھی اور اس عظیم نوجوان کا مزار بھی۔ سیلانی لفٹ سے نیچے اترا اور جیسے ہی ہوٹل کے چمکتے فرش سے باہر نکلا تو جھرجھری لے کر رہ گیا۔ اچھی خاصی سردی ہو چکی تھی۔ سیلانی کا جی چاہا کہ پلٹ جائے، لیکن وہ یہ سوچ کر آگے بڑھ گیا کہ ذرا سا ہی تو فاصلہ ہے۔ سیلانی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالے تیزی سے چلتا ہوا مسجد میں داخل ہو گیا۔ صاف ستھری اور شاندار مسجد میں باہر جیسی یخ بستگی نہ تھی، لیکن ٹھنڈ تھی۔ نماز کے بعد سیلانی تیزی سے مسجد سے باہر نکلنے لگا کہ ٹھنڈ میں کچھ اور اضافہ ہوگیا تھا۔ اس نے جلد از جلد ہوٹل پہنچنے کے لئے قدموں کی رفتار بڑھانی چاہی کہ ایک باریک سی آواز جیسے راہ میں حائل ہوگئی۔ سیلانی نے مڑ کر دیکھا تو ایک باپرہ خاتون کو اپنی جانب متوجہ پایا۔ وہ عربی زبان میں کچھ کہہ رہی تھی، جسے سیلانی نہیں سمجھ سکتا تھا، لیکن وہ یہ سمجھ سکتا تھا کہ یہ انبیائؑ کے سرزمین شام کی کوئی دکھیاری ہے اور مدد کی طالب ہے۔ وہ بار بار اپنی گود میں پڑے بچے کی جانب اشارہ کرکے کچھ کہے جا رہی تھی، نیم تاریکی میں وہ اس کی آنکھوں کا پانی تو نہیں دیکھ سکتا تھا، لیکن اس کا لرزتا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ رو رہی ہے۔
جانے وہ کون تھی، کس گھر کی عزت تھی، کس کی ماں اور کس کی بیٹی تھی، کل تک یقینا وہ اپنے گھر میں محفوظ تھی، کسی کی آنکھ اس پر پڑ سکتی تھی، نہ ہاتھ اس کی جانب اٹھ سکتے تھے، لیکن آج وہ خود ہاتھ پھیلائے ہوئے سوالی بنی کھڑی تھی۔ جانے کس کس کی نظر اس پر پڑتی تھی۔ سیلانی کا دل پسیج گیا، وہاں دو اور نمازی بھی آگئے۔ ان میں ایک غالباً ڈاکٹر تھا، اسے عربی بھی آتی تھی، وہ اس سے بات چیت کرنے لگا، اس نے بچے کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو جیسے گھبرا گیا، بچے کو سخت بخار تھا، اس رحم دل نے خانماں برباد عورت کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور ایک گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ سیلانی سوچنے لگا کہ کب تک کوئی نیک دل انسان اس کی مدد کے لئے آتا رہے گا؟ کیا ضروری ہے کہ اگلی بار اس کی ضرورت پر اس کی مدد کرنے والا بھی ایسا ہی کوئی خدا ترس ہو؟ سیلانی دل پر بوجھ لئے ہوٹل کی طرف بڑھنے لگا۔ سردی کا احساس کہیں غائب ہو چکا تھا۔ بس اس کے ذہن میں تباہ حال شام کے مہاجر پھر رہے تھے۔ وہ چند دن پہلے ہی ترکی کے سرحدی قصبوں سے واپس پلٹا تھا اور تباہ حال شام سے آنے والے شامیوں کا حال دیکھ چکا تھا۔ اس کی دلی دعا تھی کہ کسی ملک میں شام کی طرح شام غریباں نہ ہو۔
سیلانی کو ترکی کے شب و روز یاد آئے تو کیلس کی اک محفل بھی یاد آگئی۔ کیلس ترکی کا نواحی علاقہ ہے۔ یہاں سے شام کا بارڈر قریب ہی ہے، یہاں لٹے پٹے شامی مہاجر بکثرت دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان مہاجروں کی مدد کے لئے کام کرنے والوں میں ترکی کی این جی او آئی ایچ ایچ بھی ہے۔ راسخ العقیدہ ترک مسلمانوں کی یہ تنظیم جی جان سے شامی مہاجروں کے لئے کام کر رہی ہے۔ کیلس میں اس تنظیم کے کیمپ کے نوجواں نگراں نے پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کا رسمی سا استقبال کیا اور پھر جو شام کی صورتحال پر بریفنگ کا آغاز کیا تو محفل میں سب ہی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ بتانے لگا کہ حلب میں صورتحال یہ ہو گئی تھی کہ لوگ درختوں کی ٹہنیاں چبا کر اور پتے کھا کر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ ادلب میں حال یہ ہے کہ غذا کی قلت کے سبب پیدا ہونے والے بچوں میں ہاتھ ہلانے کی سکت نہیں، ان کا وزن ہی بمشکل ڈیڑھ کلو گرام ہے۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بار ہم نے ایک مہاجر کیمپ میں کنٹینر آفس منگوایا۔ یہ کنٹینر میں بنا چھوٹا سا دفتر تھا، رات کے وقت ایک شامی نوجوان ہچکچاتا ہوا آیا اور کہنے لگا مجھ سے علیحدگی میں بات کرنی ہے۔ میں اسے لے کر ایک جانب ہو گیا تو وہ کہنے لگا کہ کیا یہ کنٹینر مجھے کچھ دنوں کے لئے مل سکتا ہے؟
میں اس کی اس عجیب خواہش پر حیران ہوا اور پوچھا کہ کیا تمہارے پاس خیمہ نہیں ہے؟ وہ کہنے لگا کہ خیمہ ہے، لیکن مجھے کچھ دنوں کے لئے یا پھر کم از کم ایک رات ہی لئے یہ کنٹینر دے دیں۔ میں نے اس کے کاندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ ایسی کیا ضرورت ہے؟ تو وہ زمین میں نظریں گاڑتے ہوئے بولا: میں ایک خیمے میں بیٹی بیٹیوں کے ساتھ رہتا ہوں اور تین سال سے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ یوں رہ رہا ہوں، جیسے ہم میاں بیوی نہیں، بہن بھائی ہوں…
اس شام کو جانے دیجئے، افغان مہاجر ہمارے اردگرد ہی بستے ہیں، ہم میں سے بہت سوں نے افغانستان کی بربادی اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہے، یہ بھرے پرے گھر چھوڑ کر وہ بھکاریوں کی طرح سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوئے تھے، جس کے بعد ایسے ہزاروں میں ہوں گے، جنہیں اپنے وطن کی مٹی نصیب نہ ہوئی، وہ یہیں مر کھپ گئے، ستر کی دہائی کے آخر میں کابل میں جو آگ لگی، اس کی حدت آج بھی وہاں امن کا سبزہ پھوٹنے نہیں دے رہی، آج تک افغانستان سنبھل نہیں سکا۔ ایک دوسرے کا ایمان چھین کر دوزخ اور جنت کے فیصلے صادر کرتے ہوئے ہم شام اور افغانستان کو کیوں بھول جاتے ہیں؟
سیلانی کو جانے کس گدھے نے فیس بک کے ایسے ہی ایک گروپ میں شامل کر لیا تھا، جہاں جنت اور دوزخ کے فیصلے صادر کئے جا رہے تھے۔ بیک جنبش قلم بتایا جا رہا تھا کہ فلاں کافر اور فلاں بدترین کافر… سیلانی نے اس مجلس کا یہ رنگ دیکھا تو کان پکڑ لئے اور اب وہ کفرتوپ میں بارود بھرنے والوں سے کہے گا: خدارا! اپنی نسلوں کیلئے پاکستان پر رحم کریں، پاکستان کو شام اور کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور کو حلب بننے نہ دیں۔ تقسیم ہماری طاقت نفی میں ڈال رہی ہے، اکہتر میں ہم نے لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا تھا، اب ہمیں مسلکی بنیادوں پر تقسیم کیا جا رہا ہے اور ہم ہو رہے ہیں۔ فقہی اختلافات کو زندگی موت، جنت اور دوزخ کا مسئلہ بنا یا جا رہا ہے۔ مسالک اور مذاہب کو چھوڑیں، اختلافات تو ایک ماں کے بطن سے جنم لینے والے بھائیوں میں بھی ہوتے ہیں۔ کسی کو سفید رنگ بھاتا ہے اور کسی کو سیاہ؟ اب اس بنیاد پر سفید رنگ پسند کرنے والا بھائی دوسرے سے نفرت کرنے لگ جائے؟
خدارا! پاکستان کی قدر کریں اور اپنے آس پاس کا احوال تو معلوم کریں، بھارت میں ہم مسلمانو ں کا حال یہ ہے کہ وہاں عید قرباں پر پولیس مساجد میں جا کر اعلانات کرواتی ہے کہ خبردار… عید پر گائے کی قربانی کا سوچنا بھی نہ۔ وہاں فیکٹریوں میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے جتھے مسلمانوں کا ٹفن چیک کرتے ہیں کہ کسی کے ٹفن میں گائے کے گوشت کی بوٹی تو نہیں؟ نکل آئے تو وہیں بوٹی بوٹی کر دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے تقسیم کاروں کا کام بہت آسان کر دیا ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے تیزابی نفرتیں کسی روک ٹوک کے بنا پھیلا رہے ہیں۔ ہمیں تقسیم کر رہے ہیں تاکہ ہمارا دشمن اپنی طاقت کو ضرب دے سکے… سیلانی ٹھنڈی سانس بھرکر فیس بک کے اس گروپ سے باہر نکل آیا اور لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے اس کی تاریک ہوتی اسکرین دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment