یہودیوں کی مینٹل پاور

واقعی یہودی بہت ذہین قوم ہیں اور وہ اپنی مینٹل پاور سے دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم کی وجہ سے ہم ہمیشہ یہودیوں کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں، لیکن شام میں جس طرح پہلے اسرائیلی طیاروں نے کھیل کھیل کر روسی طیارے کو بشار فوج کے ہاتھوں تباہ کروایا، اس کے بعد جس طرح پہلے روس غصے میں اسرائیل پر لال پیلا ہوتا نظر آیا، اسے جوابی کارروائی کی دھمکی دی، لیکن پھر دوسرے دن یکدم ٹھنڈا پڑ گیا، اسے دیکھتے ہوئے آج یہودیوں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کا جی چاہ رہا ہے، یہ کیسی ذہین قوم ہے کہ دنیا کی تقریباً ساڑھے سات ارب کی آبادی میں ان کا حصہ ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہے، ان کے ملک اسرائیل کی آبادی تو 90 لاکھ کا ہندسہ بھی ابھی تک نہیں چھو پائی، اس میں بھی 17 فیصد مسلمانوں سمیت 24 فیصد اقلیت ہے، لیکن اس کے باوجود یہودیوں نے پوری دنیا کو آگے لگا رکھا ہے، پونے دو ارب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے انہوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر رکھا ہے، فلسطینیوں پر جب چاہیں میزائلوں اور طیاروں سے حملہ کر دیتے ہیں، غزہ کی 10 برس سے ناکہ بندی کر رکھی ہے، لیکن مجال ہے اسرائیل کے چاروں اطراف موجود مسلمان ملکوں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو، کسی نے اس سے حقیقی احتجاج ہی کرلیا ہو، کوئی اس کے خلاف عالمی سطح پر مقدمہ بنانے گیا ہو۔ اس کے برعکس کئی مسلم ممالک نے تو اس سے اعلانیہ سفارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں اور کچھ خفیہ عہد وپیمان کے ذریعے کام چلا رہے ہیں۔ اپنے تعاون کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ مصر تو غزہ کے محاصرے میں عملاً شریک ہوکر مدد کر رہا ہے۔
چلیں مسلمان تو خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے گزشتہ تقریباً سو سال سے زوال کا شکار ہیں، ان میں تو زندگی کی رمق پیدا ہوکر نہیں دے رہی، وہ تو بہت زیادہ تقسیم کا شکار بھی نظر آتے ہیں، اس لئے یہودیوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے، لیکن یہودیوں نے صرف مسلمانوں کو تو آگے نہیں لگا رکھا، مسلمانوں سے بھی زیادہ تعداد میں دنیا میں عیسائی موجود ہیں، جن کی آبادی سوا دو ارب کے قریب ہے، یہودیوں نے تو انہیں بھی آگے لگا رکھا ہے، بس ذرا طریقہ کار مختلف ہے۔ مسلمانوں کا تو 1948ء میں اسرائیل کے قیام سے پہلے یہودیوں سے کوئی براہ راست بڑا مذہبی تنازعہ بھی نہیں رہا، بلکہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے عیسائیوں کے مقابلے میں یہودی مسلمانوں کے زیادہ قریب رہے ہیں، عیسائی اسپین کی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح میں بھی یہودیوں نے مدد کی تھی، مسلم فوج کے لئے کئی قلعوں کے دروازے کھولنے والے یہودی ہی تھے۔ خلافت عثمانیہ اور یورپ کے عیسائی ممالک کے درمیان جنگوں میں بھی یہودی مسلمانوں کی ہی مختلف طریقوں سے مدد کرتے رہے، کیوں کہ اس دور میں عیسائی یورپ نے ان کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ انہیں پناہ اور کاروبار کی اجازت خلافت عثمانیہ میں ہی ملتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیت اور یہودیت میں براہ راست مذہبی تنازعہ ہے، عیسائی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو مصلوب کرنے والے یہودی تھے۔ (اگرچہ حقیقت میں یہودی اس سازش میں کامیاب نہیں ہوئے تھے اور رب العالمین نے قرآن پاک میں واضح کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو اوپر اٹھا لیا گیا تھا اور یہودیوں نے ان کے شبہے میں کسی اور کو مصلوب کیا تھا)۔ اس لئے عیسائی ہمیشہ سے یہودیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، ان کا وجود برداشت نہیں کرتے تھے۔
جب تک تو مسلمان دنیا میں طاقتور رہے، یہودیوں نے اپنے تحفظ کے لئے مسلمانوں کا پلو پکڑے رکھا، جو ان کی ذہانت کی مثال تھا، یہودی مالدار تو شروع سے ہی رہے ہیں، اس کے علاوہ طب سمیت علم نجوم میں بھی انہیں مہارت حاصل رہی ہے، یہ اپنی ان صلاحیتوں کو مسلم حکمرانوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے، پھر ان میں بلا کا اتحاد ہمیشہ سے رہا ہے، یہ صرف اپنی ذات کے لئے نہیں، بلکہ اپنے ہم مذہبوں کے لئے پیکیج لیتے تھے۔ لیکن جب مسلمان دنیا میں کمزور ہونے لگے تو یہودیوں کو بھی پریشانی ہوئی، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ عیسائی دنیا تو پہلے ہی ان کی جان کی دشمن ہے، یہاں بھی ان کی ذہانت نے مدد کی، وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ عیسائیوں کی ان سے دشمنی کی وجہ ان کی مذہب سے قربت ہے، اگر یورپ سے وہ پاپائے روم کا اقتدار ختم کردیں، یورپی عوام کو عیسائی مذہب سے دور کردیں تو پھر ان کے لئے راستے کھل جائیں گے، یورپی عوام میں پاپائیت کی پالیسیوں کی وجہ سے کچھ ناراضگی تو پائی جاتی تھی، انہوں نے اسے استعمال کیا اور یوں عیسائی یورپ کو جمہوری اور لبرل یورپ میں تبدیل کرنے کے لئے سرمایہ کاری شروع کردی، جس کے نتیجے میں پاپائے روم کا یورپ پر اقتدار ختم ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی عیسائی بھی اپنے مذہب سے دور ہونے لگے، انہیں متنفر کرنے کے لئے بائبل کے بھی اتنے ایڈیشن متعارف کرا دئیے گئے کہ لوگوں کی مذہب میں دلچسپی ہی ختم ہوگئی۔ اب تو حال یہ ہے کہ یورپ میں عیسائیت نام کو رہ گئی ہے، لوگ لادینیت کی طرف چلے گئے ہیں۔ جب یورپی عیسائی ریاستیں مذہب سے دور ہوگئیں تو ان کی یہودیوں سے دشمنی بھی ختم ہوگئی، کیوں کہ اس دشمنی کی وجہ تو مذہبی ہی تھی۔ جس کے بعد کئی صدیوں تک مسلمانوں کے اتحادی رہنے والے یہودیوں نے یورپ کو اپنا ہمنوا بنالیا اور اس ہمنوائی کی بدولت ہی صدیوں بعد 1948ء میں اسرائیل نامی ریاست بھی حاصل کرلی۔ عیسائی یورپ نے وہ بیت المقدس پلیٹ میں رکھ کر یہودیوں کو دے دیا، جس کے لئے وہ صدیوں تک مسلمانوں سے جنگ کرتے رہے تھے۔ صلیبی جنگیں لڑی گئی تھیں، کیوں کہ مسلمانوں کی طرح عیسائی بھی بیت المقدس کو مقدس سمجھتے تھے، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی، جہاں سے عیسائیت کا آغاز ہوا تھا، لیکن آپ یہودیوں کی ذہانت کو داد دیں کہ یہی بیت المقدس انہوں نے عیسائی یورپ سے بطور تحفہ لے لیا۔ یہ صرف اس لئے ممکن ہوا کہ یہودیوں نے کمال ہوشیاری سے عیسائیوں کو ان کے مذہب سے دور کر دیا تھا۔ اس لئے بیت المقدس کی بھی ان کی نظر میں اتنی اہمیت نہیں رہی تھی۔
یہودیوں کی ذہانت ہی ہے کہ انہوں نے مغرب میں اپنے لئے خصوصی درجہ حاصل کر رکھا ہے، عیسائیوں کے لئے اتوار کا دن مذہبی حوالے سے خاص ہوتا ہے، اس لئے وہاں ہفتہ وار تعطیل کا رواج ہوا تو اس دن کو تعطیل مقرر کی گئی، لیکن یہودیوں نے اس میں اپنے لئے ہفتہ کے دن کا بھی اضافہ کرالیا، کیوں کہ ہفتہ یہودیوں کا مذہبی دن ہے، سبت کا دن جب انہیں رب العالمین نے شکار سے منع کیا تھا، اسی طرح آج اگر یورپ میں مسلمانوں کو حلال گوشت دستیاب ہے، تو یہ بھی یہودیوں کی مرہون منت ہے، کیوں کہ یہودی بھی حرام گوشت نہیں کھاتے، وہ بھی ذبح کرکے جانور کھاتے ہیں، اس لئے یورپ میں ذبیحے پر پابندی نہیں ہے، اگر یہ یہودیوں کی ضرورت نہ ہوتی تو وہاں جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر ذبح پر پابندی لگ چکی ہوتی، مسلمان بچوں کی طرح یہودی بھی اپنے بچوں کی سنت کرتے ہیں، اس لئے یورپ میں بچوں کی سنت پر بھی پابندی نہیں ہے۔ یہ سہولت بھی یورپی مسلمانوں کو یہودیوں کی وجہ سے ہی حاصل ہے۔
بلاشبہ یہودی کرئہ ارض کی سب سے ذہین اور منظم قوم ہیں، اسی لئے ڈیڑھ کروڑ ہو کر بھی وہ ساڑھے سات ارب کی دنیا پر راج کر رہے ہیں، اسی لئے ساٹھ پینسٹھ لاکھ یہودیوں کا ملک اسرائیل دنیا کے لئے اتنا اہم ہے کہ ساری سپر طاقتیں اس کی ناراضگی سے ڈرتی ہیں، آپ مغرب میں آزادیٔ اظہار کے نام پر کچھ بھی کر اور کہہ سکتے ہیں، لیکن ہولو کاسٹ یعنی نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کا انکار جرم ہے۔ یہ قانون یہودیوں کی طاقت کا بھی بتاتا ہے۔ امریکہ میں کسی اور ملک کا جاسوس پکڑا جائے تو وہ طوفان کھڑا کر دیتا ہے، اس ملک کو لائن حاضر کر دیتا ہے، روس اور چین جیسے طاقتور ملک کا جاسوس ہو تب بھی پابندیاں لگانے پر آجاتا ہے، اس ملک کو اتنا رگڑا دیتا ہے کہ وہ آئندہ کے لئے امریکہ میں جاسوسی سے تائب ہو جائے، لیکن امریکہ میں کتنے ہی اسرائیلی جاسوس پکڑے گئے، مگر آپ نے کبھی اس پر شور نہیں سنا ہوگا۔ ایسا ہی حال روس سمیت دیگر ممالک کا ہے۔
شام میں روسی طیارے کی تباہی اس کی تازہ مثال ہے، پہلے ردعمل میں جو فرد ہو یا ریاست اکثر زیادہ حساب کتاب لگائے بغیر دے دیا جاتا ہے، روسی وزیر دفاع نے طیارے کی تباہی کا الزام براہ راست اسرائیل پر لگایا، تفصیل سے بتایا کہ ان کے طیارے کو اسرائیلی طیاروں نے اس طرف دھکیلا جہاں بشار فوج کا میزائل دفاعی نظا م چلا رہا تھا، اسرائیل کو جواب دینے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن جب ایک دن گزر گیا اور روسی حکومت نے حساب کتاب لگا لیا ہوگا کہ اسرائیل کو ناراض کرنے سے کیا کیا ہو سکتا ہے تو خود روسی صدر پیوٹن نے میدان میں آکر معاملے کو سنبھالا، حالاں کہ روسی دھمکی کے باوجود اسرائیل ڈٹا ہوا تھا اور واضح اعلان کر رہا تھا کہ وہ شام میں حملے جاری رکھے گا۔ آپ اس سے بھی اندازہ لگالیں کہ روس بشار کو اپنا اتحادی کہتا ہے، امریکہ نے دوبار شام میں حملے کئے ہیں تو اس پر روس نے بہت شور کیا، جنگ چھڑنے کی دھمکیاں دیں، حالاں کہ امریکہ سپر پاور ہے، لیکن اسرائیل کے آگے روس اتنا بے بس ہے کہ وہ آئے روز اس کے اتحادی پر حملہ کرتا ہے، ایران کے فوجیوں کو وہاں نشانہ بناتا ہے، حزب اللہ کے ٹھکانے تباہ کرتا ہے، لیکن نہ تو روس کو یہ برا لگتا ہے اور نہ نشانہ بننے والے ایران اور حزب اللہ اس پر اف کرتے ہیں۔ واقعی یہودی بہت ذہین قوم ہیں اور وہ اپنی مینٹل پاور سے دنیا پر راج کررہے ہیں، دنیا کی اصل سپر پاور وہی ہیں، جو کام سپر پاورز بھی نہیں کر پاتیں، وہ بھی اسرائیل کر ڈالتا ہے۔ ایک دوسرے کے دشمن بھی اس کے معاملے میں اکٹھے سر جھکا دیتے ہیں۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment