قسط نمبر 124
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں اس رپورٹ کی فوٹو گرافی کر چکا تھا، لیکن اس کے مندرجات نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ میں نے مزید تفصیلات پڑھیں۔ جن میں بتایا گیا تھا کہ جہاز پر ابتدائی طور پر سولہ عدد چالیس ملی میٹر (1.6 انچ) دہانے والی طیارہ شکن توپیں نصب کی جانی تھیں، لیکن جہاز پر مناسب جگہیں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ تعداد آدھی یعنی آٹھ کرنی پڑی، جس کے نتیجے میں یہ جہاز بھاری تعداد میں حملہ آور طیاروں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا ہے اور خطرہ ہے کہ اگر بیس سے زائد لڑاکا طیارے بیک وقت آئی این ایس وکرانت پر حملہ آور ہو گئے تو جہاز کے عرشے پر موجود طیارے اڑان بھرنے سے پہلے ہی تباہ ہو جائیں گے۔
رپورٹ میں شک ظاہرکیا گیا تھا کہ وکرانت پر مجوزہ طور پر رکھے جانے والے مختلف اقسام کے طیاروں ہاکر سی ہاک اور سی ہیریئر جیٹ فائٹرز، سی کنگ اور چیتک ہیلی کاپٹرز اور آبدوز شکن طیارے بریگویٹ ایلیزے وغیرہ جہاز کی ساخت اور صلاحیت کے لحاظ سے موزوں نہیں ہیں۔ کیونکہ جہاز کا پرواز کے لیے مختص عرشہ اگرچہ چوبیس ہزار پاؤنڈز (گیارہ ہزار کلوگرام) وزنی طیاروںکی لینڈنگ کا وزن سنبھالنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، لیکن ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ بیس ہزار پاؤنڈز سے زائد وزنی طیاروںکی لینڈنگ برداشت نہیں کر پائے گا۔ اسی طرح جہاز پر بیس سے زائد طیاروں کی موجودگی جہاز کی نقل و حرکت اور کارکردگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
کیپٹن ایس پرکاش آبدوز شکن طیارے بریگویٹ ایلیزے کی وکرانت پر تعیناتی کی موزونیت کے حوالے سے خصوصاً خدشات کا شکار تھا۔ کیونکہ وکرانت کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے اس طیارے کو لینڈ کرتے وقت اپنی رفتار اتنی کم رکھنی پڑتی کہ اس کے تباہ ہونے کا خطرہ بے حد بڑھ جاتا۔ جب کہ اس طیارے کا وزن بھی اتنا زیادہ تھا کہ باقی اقسام کے طیاروں کی تعداد کافی رکھنی پڑتی۔ لہٰذا کیپٹن ایس پرکاش نے تجویز پیش کی تھی کہ یہ طیارہ بدل دیا جائے یا اس کے وزن میں خاطر خواہ کمی کر دی جائے۔
اسی طرح رپورٹ میں آئی این ایس وکرانت کے کسی جنگی مہم کے لیے کھلے سمندر میں روانہ ہونے کی صورت میں اس کی حفاظت کے لیے ساتھ چلنے والے بحری بیڑے میں شامل چاروں دستیاب جنگی جہازوں کی صلاحیت پر بھی سوال اٹھائے گئے تھے۔ ان میں سے آئی این ایس کاواراتی میں آس پاس کے پانیوں میں آبدوز کا پتا لگانے کی صلاحیت سرے سے موجود ہی نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ باقی تین جہازوں کو آئی این ایس وکرانت کے پانچ سے دس میل کی حد کے اندر رہنا پڑے گا۔ ورنہ وکرانت مکمل طور پر کسی بھی آبدوز کے رحم و کرم پر ہوگا۔
مجھے یہ سب معلومات انتہائی سنسنی خیز اور حوصلہ بخش لگ رہی تھیں۔ لیکن جب میں رپورٹ کے آخری حصے پر پہنچا تو یکایک میری آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔ آئی این ایس وکرانت کے کماندار کیپٹن ایس پرکاش نے اعلیٰ حکام سے درخواست کی تھی کہ اگر ہندوستانی حکومت سال کے آخر ی مہینے میں پرتگال کے زیر تسلط گوا کے علاقے کو ہندوستان میں ضم کرنے کے لیے کیے جانے والے مجوزہ ’’آپریشن وجے‘‘ میں آئی این ایس وکرانت کو شامل کرنے پر بضد ہے تو اسے اس رپورٹ میں شامل تمام تحفظات و خدشات کا تدارک یقینی بنانا ہوگا۔
میں نے باری باری تمام فائلوں کی فوٹوگرافی کرلی۔ اس دوران میں نے کئی فلم رولز تبدیل کیے۔ تاہم اس دوران میرا ذہن مسلسل کیپٹن ایس پرکاش کی رپورٹ میں الجھا رہا۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میری اس تمام جدوجہد کا حاصل یہی رپورٹ ہے۔ اسی رپورٹ میں آئی این ایس وکرانت نامی خطرے سے ہمیشہ کے لیے نجات پانے کا راز موجود ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں کئی اور سوالات اور خیالات بھی میرے ذہن میں ہلچل مچارہے تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ پہلی فرصت میں افتخار صاحب سے ملاقات کرکے اپنے ان سوالوں پر تبادلہ خیال کروں گا۔
بالآخر میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا۔ میں نے فائلوں کو پہلے کی طرح باندھا، کیمرے میں نیا رول ڈالا اور اسے پہلے والی جگہ رکھ کر نیچے آگیا۔ اس وقت تک سچن بھنڈاری نشست گاہ کے صوفے پر بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑا اور کوارٹر سے باہر آگیا۔ چاروں طرف ابھی تک تاریکی کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ میں احتیاطاً چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے اپنی ٹیکسی کی طرف بڑھا۔ بظاہر کوئی خطرے کی بات نہیں تھی۔ سرد موسم میں ویسے بھی گرم لحاف ہی سب سے مرغوب پناہ گاہ لگتا ہے۔ میری ٹیکسی بھی اندر سے برف خانہ بنی ہوئی تھی۔ لیکن اس کا انجن حسبِ معمول پہلی کوشش میں ہی بیدار ہو گیا۔
میں گھر پہنچا تو سورج اپنی ابتدائی کرنیں زمین پر بکھیر رہا تھا۔ اسلم کے آنے میں ابھی کم ازکم دو ڈھائی گھنٹے باقی تھے۔ لہٰذا میں نے اپنی بوجھل آنکھوں کو نیند کا خیر مقدم کرنے کی اجازت دے دی۔
خوابوں میں ڈوبا ہونے کے باوجود میرا دماغ اسلم کا انتظار کر رہا تھا۔ لہٰذا نیند خاصی گہری ہونے کے باوجود دروازے پر پہلی دستک کے ساتھ ہی میں بیدار ہو گیا۔ سلام دعا سے فارغ ہوتے ہی اسلم نے بے تاب لہجے میں پوچھا ’’کیا خبریں ہیں چھوٹے بھیا؟‘‘۔
میں نے مطمئن لہجے میں کہا۔ ’’الحمد للہ، بہت حوصلہ بخش خبریں ہیں اسلم بھائی۔ آج کا رت جگا امیدوں سے زیادہ کارآمد ثابت ہوا۔ مجھے پہلے سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ سچن نے ہمارا کام کرنے کی ہامی بھر لی تھی تو پھر مجھے یہ بظاہر اضافی کام کرنے کی زحمت کیوں دی جا رہی ہے۔ لیکن میں نے جو کچھ مشاہدہ کیا ہے، اس سے میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ براہ کرم یہ تمام فلم رولز افتخار صاحب کے حوالے کرتے ہوئے میری یہ درخواست بھی پہنچا دیں کہ میں جلد از جلد ان سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔
اسلم نے میرے لہجے میں چھپا ہیجان محسوس کرلیا ہوگا۔ اس نے کہا۔ ’’اس کا مطلب ہے امریکی شراب نے کام دکھایا ہے اور اس سچن بھنڈاری سے واقعی کوئی اہم معلومات ہتھے لگی ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نشے میں مدہوش سچن سے بھی کام کی باتیں معلوم ہوئی ہیں اور میں نے تصویریں کھینچنے کے دوران جو دستاویزیں پڑھیں، ان سے بھی کئی حساس معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ جن پر میں افتخار صاحب سے فوراً تبادلہ خیال کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
اسلم نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، میں آپ کا پیغام ابھی ان تک پہنچا دوں گا اور ممکن ہے ہاتھ کے ہاتھ ان کا جواب بھی پہنچادوں گا‘‘۔
میں نے اطمینان دلایا کہ میں کم ازکم دوپہر تک اپنے گھر پر ہی اس کا انتظار کروں گا۔ اسلم نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور مجھ سے رخصت ہوگیا۔ میں نے دوبارہ سونا چاہا، لیکن نیند مجھے سے روٹھ چکی تھی۔ چنانچہ میں نے اپنی سندیدہ جگہ سے ڈٹ کر ناشتا کیا اور شام تک کے لیے پیٹ بھرنے کی فکر سے آزاد ہوگیا۔ (جاری ہے)