سی پیک پر اچھی خبریں

سی پیک کے حوالے سے ہم نے گزشتہ ہفتہ دو کالم لکھے تھے، جس میں اس منصوبے کو پاکستان کے لئے زیادہ فائدہ مند بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا، نئی حکومت آنے سے اس کی امید جاگی تھی اور اب اس جانب کچھ پیشرفت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ برادر ملک سعودی عرب کو اس منصوبے میں شراکت دار بنانے کا اعلان اور سعودی قیادت کی اس پر آمادگی ایک بڑی پیشرفت ثابت ہو سکتی ہے۔ بلاشبہ سی پیک ایک بڑا منصوبہ ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ اب تک ہمارے لئے بجلی کے کچھ مسائل حل کرنے کے علاوہ زیادہ مفید ثابت نہیں ہو سکا، بلکہ سی پیک کے لئے اس تیزی سے درآمدات چین سے بڑھی ہیں کہ ہماری معیشت کی چولیں ہل گئی ہیں، تجارتی خسارہ کی نئی تاریخ بن گئی ہے اور اس کے نتیجے میں ردعمل کی ایک پوری زنجیر بن رہی ہے، جس سے ہماری معیشت متاثر ہو رہی ہے، تجارتی خسارے کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر بلبلہ کی طرح اڑ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں روپے پر دبائو بڑھ رہا ہے، روپے پر دبائو بڑھنے سے تیل سمیت دیگر ضروری درآمدی اشیا بھی مہنگی ہو رہی ہیں۔
اصل میں تو سی پیک پاکستانی معیشت کی بحالی کا جامع منصوبہ تھا، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اس کے صرف ایک پہلو کو پکڑلیا اور اس کے ساتھ خود کو باندھ دیا، حصہ بھی وہ پکڑا جس میں ہمیں گائے کو چارا کھلانا تھا، جبکہ دودھ والا حصہ ہم نے چین سے لینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مہنگے قرضے لے کر ہم نے گوادر تک سڑکوں کا جال بچھا دیا، اب ان سڑکوں کی مرمت پر بھی ہم بڑی رقم لگا رہے ہیں، حالاں کہ سڑکیں چین کی ضرورت تھی، کیوں کہ پاکستانی مصنوعات نے تو گوادر سے کم ازکم آنے والے چند برسوں میں بھی نہیں جانا، کیوں کہ ہماری جو تھوڑی بہت صنعتی بنیاد ہے، وہ بھی ان شہروں میں ہے جو کراچی کے قریب ہیں اور کراچی بندرگاہ ہی ان کے لئے موزوں ہے۔ اس لئے ہمیں اول تو ان سڑکوں پر اپنے پلے سے اور مہنگے قرضے لے کر بھاری سرمایہ لگانے کی ضرورت نہیں تھی، یہ چین کی ضرورت تھی، اس لئے ہمیں چین کو قائل کرنا چاہئے تھا کہ وہ ہمیں قرضے دینے کے بجائے بی او ٹی کی بنیاد یعنی بنائو، تعیمر کرو اور حوالے کرو کی بنیاد پر یہ سڑکیں خود بنائے، ویسے بھی ساڑے ٹھیکے چینی کمپنیوں کو ہی دیئے جا رہے تھے۔ دوسرا یہ کہ ہمیں چین سے کہنا چاہئے تھا کہ سڑکوں کا نیٹ ورک قائم ہو رہا ہے تو وہ ساتھ میں اقتصادی زون پر بھی کام شروع کردے، تاکہ جب سڑکیں مکمل ہوں تو یہ اقتصادی زونز بھی تکمیل کے مراحل طے کر چکے ہوں، تاکہ ایک طرف ان سڑکوں کا استعمال شروع ہو جائے، ان سے آمدن آنے لگے اور دوسری جانب پاکستان میں صنعتیں لگنے سے روزگار کے مواقع پیدا ہونے لگیں، برآمدات سے ملکی معیشت کو زرمبادلہ کے بحران سے نکلنے میں مدد ملنی شروع ہو جائے، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہم نے موٹرویز سمیت گوادر تک سڑکیں تو مکمل کرلی ہیں، لیکن ان سڑکوں کو جس مقصد کے لئے استعمال کیا جانا ہے، یعنی اقتصادی زونز اور چینی برآمدات، ان کا دور دور تک پتہ نہیں، ان پر اب بھی کام شروع ہو تو مکمل ہونے میں کم از کم پانچ سے سات برس لگیں گے، تب تک ہم نے گائے کو اپنے پلے سے چارہ کھلانا ہے، یعنی ان سڑکوں کے نیٹ ورک کی دیکھ بھال اور مرمت کے اخراجات خود برداشت کرنے ہیں۔
سی پیک میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل گوادر ہے، لیکن وہاں یہ حال ہے کہ ہم اب تک پینے کے پانی کا انتظام نہیں کر پائے، کوئی صنعت لگنا تو دور کی بات، وہاں پہلے سے موجود چھوٹے سے شہر کے لئے بجلی کا مناسب بندوبست نہیں ہے، اسے ہم عالمی تجارتی کا مرکز بنانے کے خواب قوم کو دکھا رہے تھے، لیکن وہاں ہوائی اڈہ بھی اب تک نقشوں میں ہی ہے، بجلی اور عالمی سطح کے ہوائی اڈے کے لئے چین نے کام کرنا تھا، لیکن بوجوہ اب تک زمین پر کوئی پیشرفت نہیں ہے، صنعتی زون تو بہت بعد میں آئے گا۔ مگر اس میں چین سے زیادہ ہمارا اپنا قصور ہے، یہ ہمارے مفاد کے منصوبے تھے، ہمیں ان پر پہلے اور جلدی کام کے لئے زور دینا چاہئے تھا، اب ہم نے سعودی عرب کو تیسرا شراکت دار بنانے کا فیصلہ کیا ہے، یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا، اس سے ایک تو مقابلے کی فضا پیدا ہوتی، جو پاکستان کے مفاد میں تھی اور دوسرا عالمی منظرنامے میں اہمیت کے حامل سعودی عرب جیسے ملک کی شمولیت سے پاکستان اور چین دونوں کو سی پیک کے خلاف جاری سازشوں سے نمٹنے میں مدد ملتی۔ تیل کے ذخائر اور عرب ممالک کا قائد ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی عالمی حیثیت مسلمہ ہے، جس طرح بھارت سی پیک کے خلاف اعلانیہ مہم چلاتا رہا ہے، اگر ہم سعودی عرب جیسے برادر ملک کو پہلے اس منصوبے میں شامل کرلیتے تو اس کے لئے ایسا کرنا آسان نہ ہوتا، کیوں کہ لاکھوں بھارتیوں کا روزگار سعودیہ سمیت عرب ممالک سے وابستہ ہے اور اسے تیل بھی وہیں سے خریدنا ہے۔ بھارت سی پیک کے خلاف ایران کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن ہمیں پھر بھی ہوش نہ آیا کہ سعودی عرب جیسے برادر ملک کی مدد حاصل کرلیں، اس سے ایک اور فائدہ یہ ہو سکتا تھا، جو اب یقیناً ہوگا کہ متحدہ عرب امارات کے بھی گوادر بندرگاہ کے حوالے سے تحفظات کی باتیں کی جاتی رہی ہیں، اگرچہ ایسا کچھ ریکارڈ پر موجود نہیں ہے، لیکن بالفرض کوئی تحفظات تھے تو بھی سعودی عرب کے آنے سے وہ تحفظات تعاون میں تبدیل ہو جاتے، جیسا کہ اب اشارے مل رہے ہیں کہ سعودیہ کے ساتھ عرب امارات بھی اس منصوبے میں بتدریج شامل ہو جائے گا۔
گوادر میں آئل سٹی کا منصوبہ سی پیک کا حصہ ہے، جو پہلے چین نے بنانا تھا، لیکن اب سعودی عرب اس میں سرمایہ کاری کرے گا، جو دس ارب ڈالر سے زائد بتائی جا رہی ہے، چین کو بھی اس پر اعتماد میں لیا گیا ہے اور حقیقت میں یہ چین کے مفاد میں بھی جاتا ہے، کیوں کہ سعودی عرب کو اس شعبے میں مہارت حاصل ہے، پھر تیل ان کی پروڈکٹ ہے، چین کے بجائے سعودی عرب اپنا سرمایہ لگا کر یہ آئل سٹی بناتا ہے تو چین کا کام آسان ہو جائے گا، دوسری جانب پاکستان کو فائدہ ہوگا کہ یہ منصوبہ جلدی مکمل ہو جائے گا اور پھر تیسرا دوست ملک آنے سے کسی ایک ملک پر انحصار بھی بہت زیادہ نہیں بڑھے گا۔ سعودی عرب کے حصہ بننے سے منصوبے کے بہت سے مخالف ممالک کے لئے بھی پیچھے ہٹنا مجبوری ہو جائے گا۔ کیوں کہ پھر معاملہ صرف پاکستان اور چین کا نہیں، بلکہ عرب ممالک کا بھی ہو جائے گا۔
اسی طرح پشاور سے کراچی تک ریلوے لائن ایم ایل ون کا منصوبہ بھی جو اب تک کاغذوں میں تھا، تقریباً9 ارب ڈالر کا یہ منصوبہ بھی پاکستان کے مستقبل کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے، دنیا میں اس وقت ٹرینیں چار سو سے پانچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر آگئی ہیں، لیکن ہم قیام پاکستان کے وقت کی رفتار سے آگے نہیں بڑھے، آج بھی پشاور سے کراچی کا سفر تیس گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے، راولپنڈی سے چھبیس گھنٹے میں ٹرین کراچی پہنچاتی ہے، ایم ایل ون ایک بڑا منصوبہ ہے، لیکن ہم پھر غلطی کرنے جا رہے تھے، یہ منصوبہ چین سے قرضہ لے کر چینی کمپنی سے بنوانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس میں ٹرینوں کی رفتار ڈیڑھ سو کلومیٹر کی نوید سنائی جا رہی تھی، پھر ٹریک بھی موجودہ براڈ گیج بچھانے کا ارادہ تھا، جو اس وقت دنیا سے ختم ہوتا جا رہا ہے اور ساری دنیا کی ریل اسٹینڈرڈ گیج پر جاچکی ہے، موجودہ حکومت نے اس منصوبے کے حوالے سے بھی اچھے اشارے دیئے ہیں، وزیر ریلوے شیخ رشید بالکل درست کہہ رہے ہیں کہ ایم ایل ون کا منصوبہ اسٹینڈرڈ گیج میں بدلا جائے، اس کے ساتھ اس منصوبے کو قرض لے کر بنانے کے بجائے بی او ٹی کی بنیاد پر آگے بڑھایا جائے اور اس میں جاپان اور جرمنی جو تیز رفتار ٹرینوں کے لئے جانے جاتے ہیں، انہیں شمولیت کی دعوت دینے کے فیصلے کے بھی اچھے نتائج برآمد ہوں گے، کیوں کہ یہ منصبہ دو چار برس کے لئے تو ہے نہیں، ہم نے ستر برس بعد ریلوے کو جدید بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا ہے تو یہ اس طرح ہونا چاہئے کہ آئندہ ستر برس تک کارآمد ہو، اس کے لئے رفتار ڈیڑھ سو نہیں، تین سو سے ساڑھے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ والا نظام لائیں، جیسا کہ بھارت بھی لانے جا رہا ہے۔
ایک اور اچھی خبر یہ ہے رحیم یار خان میں کوئلے کے پاور پلانٹ کا منصوبہ بھی ختم کر دیا گیا ہے، اگر رحیم یار خان میں ختم کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے ہم سرائے عالمگیر والے بھی کوئلے سے کالے ہونے سے بچ جائیں گے، کیوں کہ سابقہ حکومت نے سرائے عالمگیر میں بھی کول پاور پلانٹ کا منصوبہ بنا رکھا تھا، اس کے بدلے چین کو پن بجلی یعنی پانی سے بجلی پیدا کرنے کے دو منصوبوں کیروٹ اور کوہالہ میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جا رہی ہے، جس سے ایک طرف کوئلے کے پلانٹ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل سے ہم بچ جائیں گے اور دوسری جانب سستی بجلی بھی حاصل ہو سکے گی۔ کوہالہ منصوبے پر چین نے سرمایہ کاری پر رضامندی بھی ظاہر کی تھی۔ تاہم بوجوہ ابھی اس پر کام شروع نہ ہوسکا۔ ٭

Comments (0)
Add Comment