پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس کی سائڈ لائن پر ہونے والی ملاقات منسوخ کر کے بھارت نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور پاکستان پر الزام تراشی کا تسلسل قائم رکھا ہے۔ دونوں ممالک کے سیاسی مبصرین اور دانشوروں کے خیال میں بھارت نے پاکستان میں نئی حکومت سے قائم ہونے والا ایک اچھا موقع ضائع کر دیا ہے۔ جبکہ سنجیدہ و فہمیدہ مفکرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان اقوام متحدہ میں اجلاس کے موقع پر کوئی باقاعدہ مذاکرات نہیں ہونے تھے بلکہ رسمی ملاقات طے پائی تھی۔ جس میں دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات پر آئندہ پیش رفت ممکن تھی۔ اگر یہ ملاقات ہوجاتی اور اس کے نتیجے میں باقاعدہ مذاکرات کا بھی آغاز ہو جاتا تو بھارت کے ساتھ ستّر سال کے تجربات کی روشنی میں کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ کہہ مکرنی یعنی کہنا اور پھر مکر جانا بھارت کی دیرینہ روایت اور پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ پالیسی کا ایک لازمی جز ہے۔ اچھا ہوا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کے اجلاس سے پہلے ہی پاکستان کے ساتھ غیر رسمی بات چیت سے انکار کر کے اپنا مکروہ چہرہ ایک بار پھر عالمی برادری کے سامنے کر دیا ہے۔ بھارت سے خوش گمانی رکھنے والے کچھ رہنما کہتے ہیں کہ بھارت کا حالیہ انکار ایک عارضی مرحلہ اور مودی حکومت کی مجبوری ہے۔ کیونکہ نریندر مودی کو اگلے سال کے عام انتخابات میں بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں سے اپنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے ووٹ لینے کی خاطر پاکستان دشمنی اور جنون پسندی دکھانا ضروری ہے۔ معاملہ کسی ایک گاندھی یا مودی کا نہیں ہے۔ اسلام اور پاکستان سے نفرت و عناد کے جو بیج انگریزوں سے آزادی کے وقت بوئے گئے تھے۔ بھارت کی تیسری نسل بھی اس کے کڑوے کسیلے پھلوں کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہے۔ نریندر مودی کے بعد آنے والا کوئی اور وزیر اعظم بھی انتہا پسندی اپناکر ہی جنونی ہندوؤں میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ بھارت کی پاکستان دشمنی کے پیچھے اصل محرک تلاش کیا جائے تو وہ بھارتی فوج کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ بات چیت سے بھارتی حکومت کے انکار کی حمایت کرتے ہوئے وہاں کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کو درد محسوس کرانا چاہتے ہیں، اور اس سے بھارتی سرحدی فوج کے اہلکاروں کی ہلاکت کا بدلہ لیںگے۔ یہ بظاہر بھارتی حکومت کی حمایت پر مبنی بیان ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوج اپنی عیاشی اور بجٹ میں کثیر حصہ حاصل کرنے کے لئے پاکستان دشمنی خود بھی برقرار رکھتی ہے اور اپنی حکومتوں کو بھی پاکستان کا ہوّا دکھا کر خوفزدہ کرتی اور انتہا پسندی کی جانب مائل کئے رہتی ہے۔
بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر کہا ہے کہ اب اسے جواب دینے کا وقت آگیا ہے اور پاک فوج کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ راوت جی کو شاید معلوم نہیں کہ پاکستان کے خلاف کارروائی کا وقت تو بھارتی فوج کے لئے ہمیشہ رہا ہے۔ لیکن 1974ء میں ایٹمی دھماکا کرنے کے بعد بھی بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ کیونکہ اسے پاکستانی افواج کی دفاعی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ تھا۔ 1998ء میں بھارت نے بیک وقت پانچ ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیا تھا کہ پاکستان اب تک ایٹمی طاقت سے محروم ہے۔ اگر 1974ء کی طرح ان پانچ دھماکوں کا بھی پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو پاکستان کی کمزوری ثابت ہوجائے گی اور اس پر ہم اپنی بالادستی قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ افغان مجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین کی ذلت آمیز شکست اور دنیا کی اس دوسری سپر پاور کے پرخچے اڑنے کے بعد بھارت اس کی گود سے نکل کر امریکا کی گود میں جا بیٹھا تھا۔ اس لئے بھارتی حکومت اور فوج کا یقین تھا کہ امریکا اور اس کے ماتحت بڑے ممالک کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان اپنی ایٹمی قوت کو ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ لیکن اکتوبر 1998ء میں افواج پاکستان نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ عالمی برادری کی دھمکیوں کو پر کاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دے اور پاکستان کی ایٹمی قوت کا ثبوت پیش کر دے۔ چنانچہ پاکستان نے 1974ء کے ایک اور 1998ء کے پانچ بھارتی ایٹمی دھماکوں کا جواب بیک وقت چھ ایٹمی دھماکے کر کے دے دیا۔ ساری دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور برتر ہے۔ بھارتی آرمی چیف بپن راوت کے حالیہ بیان کا جواب دیتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے واضح کر دیا ہے کہ بھارت ایک ایٹمی ملک کو اشتعال نہ دلائے۔ بھارتی فوج سیاست اور کرپشن کے الزامات میں گھری ہوئی ہے۔ اسے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے علاوہ ملک کے کئی حصوں میں علیحدگی پسند تنظیموں کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کو اپنے ملک کی ایٹمی صلاحیتوں اور خود اپنے افسروں اور اہلکاروں کی ’’بہادری‘‘ کا اندازہ ہے۔ ایک اور اہم بات جو بھارتی فوج اور عالمی جنگی ماہرین سے چھپی ہوئی نہیں یہ ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑنے کی حماقت کی تو افواج پاکستان آن کی آن میں اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہیں۔ جبکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو اگر کوئی نقصان ہوا تو وہ دیر میں اور بہت کم ہوگا۔ جنگ کے وقت پاکستانی قوم کے تمام اجزا بالکل متفق و متحد اور پوری طرح متحرک و فعال ہوجاتے ہیں۔ جبکہ بھارت میں کئی قومی اور آزادی کی تحریکیں اپنی حکومت کے خلاف ہیں۔ جس کے باعث وہاں کسی اتحاد اور کامل یکسوئی کا فقدان ہوگا۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان نے برسر اقتدار آتے ہی بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ لیکن انہیں بھی جلد ہی اندازہ ہوگیا ہے کہ بھارتی قیادت بصیرت سے محروم اور کم ظرف ہے۔ ادنیٰ درجے کے لوگ بڑے عہدوں پر فائز ہوجائیں تب بھی وہ بصیرت اور دور اندیشی سے محروم رہتے ہیں۔ لہٰذا ان سے مثبت اور بڑے فیصلوں کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ بھارت اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، دفاعی قوت، افواج کی مہارت اور دونوں قوموں کے عزم و حوصلے کے تناظر میں شیخ رشید کا یہ تبصرہ مبنی بر حقیقت نظر آتا ہے کہ اگر حملہ ہوا تو بھارت میں گھاس اگے گی نہ چڑیاں چہکیں گی اور نہ مندروں میں گھنٹیاں بجانے والا کوئی ہوگا۔ اس کے برعکس عالمی تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے چودہ سو برسوں سے گونجنے والی اذان کی آواز آج تک کبھی اور کہیں نہیں رکی ہے۔ ٭