نئی دنیا (تیسرا حصہ)

ٹوپی۔ چھتری:
کچھ تو ہوتے ہی ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
ابوظہبی کی ایک مشہور اور مصروف شاہراہ سلام روڈ ہے۔ یہاں دنیا کی سب سے طویل ٹنل بنائی گئی ہے۔ تیز رفتار ٹریفک سے ہٹ کر پیدل واک کے لیے خوب صورت ٹریک بنایا گیا ہے۔ رات کے کھانے کے بعد فیصل مجھے واک کے لیے یہاں لے آتا ہے۔ ٹریک سے ملحق ’’بحر مردار‘‘ جیسا پانی کھڑا ہے۔ تقریباً ہر سو میٹر کے فاصلے پر ایک ٹوپی کے ڈیزائن کا استراحہ بنا ہوا ہے۔ آگے پھر سو میٹر کے بعد چھتری کے ڈیزائن کا استراحہ (بیٹھنے یا آرام کرنے کی جگہ) بنا ہوا ہے۔ ٹوپی اور چھتری اتنی بڑی ہے کہ اس کے نیچے 6 سے آٹھ افراد پکنک منا سکتے ہیں۔ بیٹھنے کے لیے پتھر کی گول میز اور بینچ نصب کئے گئے ہیں۔ واک کے بعد لوگ یہاں باربی کیو بھی کرتے ہیں۔ بچے یہاں لمبی لمبی دوڑیں لگاتے ہیں۔ چوڑائی میں تھوڑا کم لیکن لمبائی میں بہت بڑا پکنگ پوائنٹ ہے۔ ہر ملک کے باشندے اور کھلاڑی مرد و زن یہاں جوگنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ نیم برہنہ ہونے کے باعث انہیں دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ شرفا یہاں واک کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں، لیکن پھر بھی ’’سب چلتا ہے۔‘‘
ابوظہبی، کراچی کی راہ پر:
ملک چاہے کتنا جدید اور امیر ہو۔ بے پناہ وسائل کا حامل ہو۔ مسائل سے خالی نہیں ہوتا۔ جہاں انسان رہتے ہوں۔ وہاں مسائل اور دشواریاں نہ ہوں، یہ ممکن نہیں۔ کراچی کی طرح یہاں بھی مسائل نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں برسوں تک مسائل جوں کے توں رہتے ہیں تاوقتیکہ الیکشن سر پر نہ آجائیں۔ البتہ ابوظہبی کی حکومت بہت جلد ایکشن لیتی ہے اور کوئی شور بھی نہیں مچتا۔ حالانکہ حکومت کو یہاں الیکشن کا سامنا بھی نہیں ہوتا۔
مسائل عموماً گھروں سے شروع ہوتے ہیں۔ ایک صبح ۔آواز آئی کہ اے سی کام نہیں کررہا۔ گرمی سے بچے بے حال ہوئے جارہے ہیں، جبکہ دوسرے کمرے میں اے سی کام کررہا تھا۔ بچے پرندوں کی طرح ہجرت کر کے ٹھنڈے کمرے میں چلے گئے۔ تین دن تک ٹھک ٹھک ہوتی رہی، تب اے سی ٹھیک ہوا تو بچے اپنے آشیانوں کو سدھارے۔ لائٹ چلی جاتی تو مسئلہ گھر سے باہر چلا جاتا۔ لیکن ایسی نوبت آئی ہی نہیں۔
بن بادل برسات:
اگلے دن میرا گزر باورچی خانے کی طرف ہوا۔ اندر نظر پڑی تو جگہ جگہ پلاسٹک کی بالٹیاں رکھی تھیں۔ پتہ چلا
کہ باورچی خانے کی چھت ٹپک رہی ہے۔ بہو بڑے تحمل سے اس بن بادل برسات کو برداشت کررہی ہے اور کھانا بھی تیار کررہی ہے۔ کاشف نے فون گھمایا۔ تھوڑی ہی دیر میں میونسپلٹی کا لائو لشکر پہنچ گیا اور شام سے پہلے برسات ختم ہو گئی۔
کاشف بابو ماشکی بن گیا:
ایک دوپہر پتہ چلا کہ گھر میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ جو گاڑی پانی دینے آتی تھی، وہ نہیں آئی۔ فون کیا تو پتہ چلا کہ بوجوہ اگلے چار دن پانی نہیں مل سکے گا۔ لہٰذا چار دن بازار سے پانی لانا ہو گا۔ کاشف، بابو سے ماشکی بن گیا۔ روزانہ آفس سے واپسی پر بازار سے پانی لاتا رہا اور اس وقت تک لاتا جب تک سپلائی لائن درست نہ ہو گئی۔
مہنگے ٹماٹر کا متبادل:
ایک صبح شور مچا کہ ٹماٹر بہت زیادہ مہنگا ہو گیا ہے۔ بہو کو تشویش لاحق تھی کہ کھانا کیسے پکے گا؟ پوری ہانڈی اتنی مہنگی نہ تھی جتنا ٹماٹر۔ لوگ کیا کھائیں گے۔ دوسروں کی فکر بھی اسے کھائے جا رہی تھی۔ میں نے بہو سے پوچھا
’کہ ’’جب ٹماٹر عام نہیں ہوا تھا، تب بھی تو کھانا مزے کا پکتا تھا؟ اب بھی بغیر ٹماٹر کے پکالو۔‘‘
’’ابوجی! بچے نخرے کرتے ہیں۔ پیٹ بھر نہیں کھاتے۔‘‘ بہو نے عذر پیش کر دیا۔
’’ٹماٹر کا کوئی متبادل بھی تو ہو گا؟‘‘ میں نے یاد دلانے کی کوشش کی۔
’’دہی کا استعمال کرو۔‘‘ نصف بہتر نے مشورہ دیا۔ ’’کھانا ٹماٹر سے بھی زیادہ مزے کا بنے گا۔ چاہو تو املی کا پانی استعمال کر سکتی ہو۔‘‘
اچھا امی! یہی کر کے دیکھتی ہوں۔‘‘
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment