کوالالمپور میں کس کے ہاں ٹھہرنا چاہئے؟(پہلا حصہ)

ملائیشیا میں میرا پروگرام صرف ترنگانو ریاست تک جانے کا تھا۔ میں وہاں ایک دو دن میر اللہ داد تالپور کے ہاں ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ میں سستے ٹکٹ کے شوق میں تین ماہ تک کراچی میں انتظار کرتا رہا۔ پھر میں نے محض ایک دو دن کے بجائے ملائیشیا میں پورا ایک ہفتہ گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اپنے اس پروگرام سے ٹریول ایجنٹ کو بھی آگاہ کر دیا، تاکہ وہ اس کے مطابق پیشگی بکنگ کرا سکے۔ کیونکہ اس کے بعد مجھے ایک مہینے کے لیے آگے یعنی اوساکا (جاپان) اپنی بیٹی کے پاس ٹھہرنا تھا۔
ملائیشیا میں ایک ہفتہ ٹھہرنے کا پروگرام بنانے کے بعد میں کبھی کبھی سوچنے لگتا کہ اتنے دن وہاں کیا کروں گا۔ مجھے جن دوستوں سے ملنا ہے، ان سے فون پر پیشگی پروگرام طے کر لوں۔ ملائیشیا کے مختلف شہروں میں میرے کئی ہم وطن ڈاکٹر، انجینئر اور طالب علم رہتے ہیں، جو مجھ سے ملنے کے لیے اکثر ای میل کرتے رہتے ہیں۔ میں بھی ان میں سے چند لوگوں سے ملنا چاہتا تھا ، جو کوالالمپور، شاہ عالم، شریمان اور ملاکا جیسے قریبی شہروں میں رہتے تھے۔ اس کے علاوہ میں اپنے ان ملئی دوستوں سے ملنے کا بھی ارادہ رکھتا تھا، جن کے ساتھ میں نے ملازمت کے دوران دس سال گزارے تھے۔ تیسرے نمبر پر وہ ملئی مصنف، شاعر اور سیاست دان تھے، جو میرے ہم عمر تھے۔ جن کے ساتھ ملائیشیا میں نہ صرف ملازمت کے دوران، بلکہ اس ملک کی بندرگاہوں میں جہاز لے جانے کے دنوں میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہی تھیں۔
میں نے کراچی سے انہیں ای میل اور فون کرنا شروع کر دیا۔ سب لوگ میری طرح ریٹائر اور فرصت کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ خود مجھ سے ملنے کے لیے بے چین تھے اور ان کی خواہش تھی کہ میں ان کے بچوں سے بھی ضرور ملوں، جو مختلف شہروں میں مختلف ملازمتیں کرتے تھے۔ ظاہر ہے وہ بچے جو ستر اور اسی کے عشرے میں پیدا ہوئے تھے، اب وہ کم از کم تیس برس کی عمر کو پہنچ چکے ہوں گے اور ان کی شادیاں بھی ہو چکی ہوں گی۔
میں بھی سب سے ملنے کی ہامی بھرتا رہا۔ لیکن جب روانہ ہونے کا دن قریب آیا تو میں الجھ کر رہ گیا۔ گوکہ میں ملائیشیا میں ایک ہفتہ رہنے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن مختلف شہروں میں رہنے والے جتنے لوگوں سے ملنے کا وعدہ کر چکا تھا، ان تمام دوستوں سے ملنا مجھے ناممکن نظر آنے لگا۔ خاص طور پر ملائیشیا کی فضائی کمپنی MAS کی پرواز میں ہم کراچی کے مسافروں کا ایک دن کوالالمپور پہنچتے پہنچتے ہی ضائع ہو جانا تھا۔
ملائیشیا کی یہ پرواز کراچی سے رات کو تقریباً بارہ بجے روانہ ہوتی ہے اور چھ گھنٹے کے بعد وہاں کے مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے کوالالمپور پہنچاتی ہے۔ یاد رہے کہ ملائیشیا اور پاکستان کے وقت میں تین گھنٹے کا فرق ہے۔ یعنی وہ پوری رات جاگ کر گزاری جاتی ہے۔ مسافر بھاری ذہن اور نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ کوالالمپور میں اترتے ہیں۔ چھ گھنٹے کا سفر خاصا طویل ہوتا ہے۔ جہاز کے بلند ہوتے ہی کیبن عملہ فوراً کھانا لگانے اور پھر برتن وغیرہ سمیٹنے کا کام دو گھنٹے میں نمٹا دیتے ہیں۔ اس کے بعد مسافروں کو سونے کے لیے چار گھنٹے ملتے ہیں۔ اگر یہی جہاز مغرب کی جانب محو پرواز ہوتا تو اس کے لینڈ کرنے تک رات کی تاریکی ہی رہتی۔ لیکن ملائیشیا مشرق میں ہے، اس لیے دو، تین گھنٹے کے بعد، یعنی اس وقت ہمارے ہاں رات کے تین بج رہے ہوتے ہیں، لیکن اس دوران میں جہاز برما سے آگے نکل چکا ہوتا ہے اور وہاں صبح کے چھ بج رہے ہوتے ہیں۔ صبح کی روشنی پھیل چکی ہوتی ہے۔ جہاز میں سوار تین سو مسافروں میں چھ، سات ایسے سرپھرے بھی ہوتے ہیں جو ایئرہوسٹس کی درخواست، بلکہ منت کرنے پر بھی باز نہیں آتے اور کھڑکیوں کے پردے ہٹا دیتے ہیں۔ وہاں سے آنے والی صبح کی تیز روشنی میں دیگر مسافروں کا سونا بھی محال ہو جاتا ہے۔
میں کوالالمپور پہنچ کر کسی ایسے گھر میں ٹھہرنا چاہتا تھا ، جہاں اپنا بیگ، جاپان کے سرد موسم میں پہننے والے گرم کپڑے اور دیگر سامان چھوڑ کر اپنے شولڈر بیگ میں صرف ایک جوڑا رکھ کر ایک ایک دن کے سفر پر ملاکا اور اردگرد کے دوسرے شہروں کی طرف نکل سکوں۔ کوالالمپور میں ٹھہرنے کے لیے میرے پاس کئی آپشن تھے۔ سب سے بہتر روہڑی سے تعلق رکھنے والے بزنس مین غلام علی سولنگی کا گھر تھا۔ اس کے علاوہ ٹنڈو قیصر کے ڈاکٹر شفیع نظامانی کا گھر تھا۔ جب ڈاکٹر صاحب ملائیشیا گئے تھے، وہ بڑی چاہت کے ساتھ مجھے کوالالمپور آنے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ میں یہ چاہتا تھا کہ میری وجہ سے میرے میزبان کو کسی قسم کی بے جا تکلیف نہ پہنچے اور اس کی روزمرہ کی مصروفیات میں خلل نہ پڑے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment