مانا کہ عید قرباں کوگزرے مدت ہوئی، مگر قربانیوں کا سلسلہ کہاں تھمتا ہے، سعادتوں کا یہ ابرِ گھنگھور، صاحبِ اختیار افراد کی زندگیوں میں سایۂ عاطفت فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے، بالخصوص اُن کے لئے جو عاقبت سے بے خبر مفادات کے اسیر ہیں۔ طویل تمہید کی ضرورت نہیں، بات ہے حنیف عباسی تصویر لیکس کی۔ جس کی محکمہ جاتی تفتیش سے اعلیٰ پولیس حکام پھر بچ نکلے اور جرم کے مرتکب حسبِ سابق چھوٹے اہل کار قرار پائے۔ حافظ جی کی اطلاع کے مطابق قربانی کے اِن بکروں کی تعداد ایک دو چار نہیں، بلکہ پچاس سے بھی زائد ہے، جنہیں معاملے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے قصوروار ٹھہرایا ہے۔
تبدیلی کا شور مچانے والی حکومت کے ذمہ داروں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ وزیر قانون، وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ پنجاب کو ہی نہیں، وزارت داخلہ پاکستان کا قلم دان اپنی ٹیبل پر سجانے والے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے لئے بھی حنیف عباسی تصویر لیکس کا معاملہ اور پھر بھانڈا پھوٹنے پر اس کی جانب دارانہ تحقیقات کسی ٹیسٹ کیس سے کم نہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ معاملے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کی بھی تفتیش کی جائے کہ اس نے یہ کیسے ثابت کیا کہ اڈیالہ جیل کے بڑے افسران بے اختیار اور جیل کے اندر ہونے والے فیصلوں کا اختیار چھوٹے اہل کاروں کی دسترس میں ہے کہ وہ جو جی چاہے کریں، جس مجرم کو چاہیں جہاں لے جائیں، اس کا فرمائشی پروگرام پورا کریں، خواہ قونین کی دھجیاں ہی اڑتی رہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھرجیل سپرنٹنڈنٹ اور آئی جی جیل خانہ جات جیسے عہدیداران کی کیا ضرورت؟ ان پوسٹوں کو فی الفور ختم کرکے پیسہ بچائیے، جو ملک کی اکنامی اور ڈیم مصارف میں یقیناً کام آئے گا۔
جناب وزیر اعظم! الیکشن سے پہلے اور الیکشن کمپئن کے دوران آپ کا سب سے زیادہ جارحانہ نعرہ پولیس اصلاحات سے متعلق تھا، مگر اب منصب وزارت عظمیٰ پر متمکن ہونے کے بعد آپ اتنے پُرتحمل نظر آرہے ہیں کہ آپ کے نعروں سے متاثرہو کر آپ کی ہاں میں ہاں ملانے اور پارٹی کو اقتدار تک پہنچانے والوں پر بھی احتساب کے حوالے سے مایوسی کے سائے چھانے لگے ہیں۔ اور وہ مخالفین سے شرمندہ انہیں منہ دکھانے سے بھی کتراتے پھر رہے ہیں۔ جناب وزیر اعظم! کہیں آپ بھی وزارت داخلہ کے قلم دان کو نواز شریف کے قلمدانِِ وزارتِ خارجہ کی طرح استعمال کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے؟ جناب وزیر اعظم! اس مظلوم قوم نے آپ سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، اگر آپ بھی ان کی توقعات پر پورا نہ اترے تو پھر حافظ جی بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ قائد اعظم کے بعد انصاف پَروَر لیڈر شاید اس قوم کے نصیب میں لکھا ہی نہیںگیا، جو بھی آیا اس نے قوم کے دکھ درد، دور کرنے کے بجائے اس کے دکھ درد میں اضافہ ہی کیا۔ جناب وزیر اعظم! جب آپ نے کابینہ تشکیل دی اور وزارت داخلہ کا قلم دان کسی اور کو دینے کے بجائے اپنے پاس رکھا تو قوم کو یقین ہو چلا تھا کہ یقیناً آپ اپنے وژن کے تحت پولیس کا قبلہ درست کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، مگر بعد کی صورت حال اور اب اڈیالہ جیل میں منشیات اسمگلنگ کیس میں عمر قید کے مجرم حنیف عباسی کو نواز شریف کے ساتھ ٹھاٹھ سے اکڑ کر بیٹھے دیکھ کر اور پھر محکمے کی طرف سے اس کی جانب دارانہ تحقیقات سامنے آنے پر آپ اور پنجاب حکومت کی خاموشی کا کیا مطلب لیا جائے، کیا آپ کا یہ رویہ آپ کے نعروں کی نفی نہیں؟
آئی جی جیل خانہ جات ہو یا جیل سپرنٹنڈنٹ، قانون کی دھجیاں اڑانے کا اختیار تو کسی کو حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر قانون کا کوئی رکھوالا قانون سے کھلواڑ کرے تو اس کے لئے تو اصولاً دُوہری سزا ہونی چاہئے۔ ایک سزا جرم کی اور دوسری قانون جانتے ہوئے اس جرم کے ارتکاب کی۔ جن پولیس اہل کاروں کو منشیات اسمگلنگ کیس میں عمر قید کے مجرم کو رعایت دے کر وی آئی پی درجے پر فائز کرنے اور اسے نواز شریف کے ساتھ اکڑ کر بیٹھنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، انہیں معاملے کی نزاکت کے زیر اثر لے کر محکمانہ طور پر نہ جانے کون کون سی یقین دہانیاں یقینا کرائی گئی ہوں گی۔ افسران کے الزامات اپنے سر لے کر خود کو ان کا وفادار ثابت کرنے والوں کی پولیس میں ہی کیا ہر سرکاری وغیر سرکاری محکمے میں قطاریں لگی رہتی ہیں۔ سندھ میں شرجیل انعام میمن کی اسپتال میں شراب نوشی کو کس نے شہد کی بوتلوں میں تبدیل کیا، سندھ لیب نے کس طرح شرجیل میمن کو بچانے کے لئے جھوٹی اور فرضی رپورٹیں تیار کیں، یہی سب کچھ حنیف عباسی کیس میں بھی ہوا۔ اگر کسی کو اس صداقت پر یقین نہ ہو تو وہ کسی غیر جانب دار عالمی ادارے سے اس کی تحقیقات کرالے، نتیجہ برعکس آئے تو حافظ جی بھی حنیف عباسی کے ساتھ عمر قید کی سزا بھگتنے کو تیار ہوں گے۔ اڈیالہ جیل حکام نے منشیات کیس کے خطرناک قیدی حنیف عباسی کو جس آزادانہ انداز میں نواز شریف کی رہائی پر ان کے ساتھ سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بٹھایا، اس سے کم از کم یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ پولیس کے اعلیٰ حکام بھی بڑے مجرموں کے پشت پناہ ہیں اور ان بڑے مجرموں کی خدمت گزاری اور ان کی اطاعت کے لئے ہر قسم کا خطرہ بھی مول لے سکتے ہیں۔ حنیف عباسی کا معاملہ تو چوں کہ سیاسی طور پر نواز شریف سے نتھی ہے، شاید اس لئے دھماکہ خیزی کے ساتھ منظر عام پر آگیا، ورنہ تو ’’جنگل میں مور ناچا‘‘ کے مصداق کسے خبر کہ پولیس اور اعلیٰ پولیس حکام اپنے اختیارات کے زعم میں کیا کچھ کرتے ہوں گے۔
گستاخی معاف! منشیات ایکٹ کے سنگین جرم میں انسداد منشیات کی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والا حنیف عباسی ہو یا کوئی اور ڈان، ایسے مجرموں کو یہ رعایتیں پولیس یونہی پھٹکل میں نہیں دے دیتی۔ ان تمام معاملات کے پس پردہ ایسی ایسی کہانیاں امربیل کی طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ کسی عام فرد کی سوچ ان کا احاطہ بھی نہیں کرسکتی۔ وزیر اعظم عمران خان، صدر پاکستان عارف علوی اور ان کے درجنوں وہ ساتھی جو اقتدار کے حصول سے قبل پولیس ریفارمز اور احتساب کا نعرۂ مستانہ لگاتے نہیں تھکتے تھے، اب ان کی ان معاملات پر ویسی گھن گرج سنائی نہیں دے رہی تو حافظ جی اور ان جیسے نہ جانے کتنے، پولیس ریفارمز اور احتساب کے متمنیوں کے پیٹ میں مروڑ سے اٹھنے لگے ہیں۔ پولیس کے معمولی اے ایس آئی سے لے کر ان کے اعلیٰ افسران تک کا ذاتی رہن سہن کوئی کھلی آنکھوں دیکھ لے، اس کی آنکھیں خیرہ نہ ہو جائیں تو کہئے۔ (وما توفیقی الاباللہ) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭