وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نجم الحسن نے کہا ہے کہ پاکستان میں سودی نظام کا خاتمہ آئینی تقاضا ہے، لیکن اس کا خاتمہ کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، شریعت کورٹ صرف ہدایات جاری کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ سودی نظام کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت گزشتہ روز چیف جسٹس شریعت کورٹ جسٹس نجم الحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ پہلے ربا (سود) کی تشریح کی جائے، اس کے بعد مقدمے کو آگے بڑھایا جائے۔ اسی طرح سودی نظام ختم کرنے سے متعلق مقدمے میں سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کو حل کیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس شریعت کورٹ نے واضح کیا کہ ہمارا دائرئہ کار ذرا مختلف اور محدود ہے۔ سودی نظام کا خاتمہ بلاشبہ آئینی تقاضا ہے، لیکن ہم صرف ہدایات جاری کر سکتے ہیں۔ اسے ختم کرنا پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ فاضل عدالت نے آئندہ سماعت پر ربا اور سود (انٹریسٹ) کی تشریح سے متعلق تیاری کر کے آنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی آئندہ سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔ وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام معیشت ختم کرنے سے متعلق کم و بیش ایک سو اٹھارہ درخواستیں دائر ہیں، لیکن عملی طور پر گزشتہ سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور خان اور جماعت اسلامی کے وکیل قیصر امام ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ حکومتوں اور عام عدالتوں کی سود سے عدم دلچسپی تو اہل وطن برسوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں، لیکن وفاقی شرعی عدالت کا بھی یہ حال ہے کہ اس نے کیس کی آئندہ سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے اور اپنی مجبوری کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ہم نے اس سلسلے میں کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا ہے، کیونکہ ہم صرف ہدایات جاری کر سکتے ہیں۔ ربا کی آخری تشریح اسلامی نظریاتی کونسل کرے گی۔ فاضل عدالت کے مطابق ملک سے سود کا خاتمہ کرنا اس کا کام نہیں، یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ اگر وفاقی شرعی عدالت بے بس ہے، اس نے بھی سود جیسے اہم مسئلے پر آئندہ سماعت کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا ہے اور ربا کی تشریح کے لئے وکیلوں کو حکم دے دیا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ سطح پر سود کے خاتمے سے کسی کو معمولی دلچسپی بھی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے اکثر ارکان کو تو شاید صحیح طور پر کلمہ پڑھنا بھی نہیں آتا۔ وہ چھوٹی سورتوں کی تلاوت بھی نہیں کر سکتے تو پارلیمنٹ کے نام سے ان کی بھیڑ سود کے خاتمے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔ حکمرانوں، سیاستدانوں، ارکان پارلیمان اور بعض بڑے مفکرین اور دانشوروں کو بھی نہیں معلوم کہ قرآن و حدیث میں کس قدر سختی کے ساتھ سود کی ممانعت کی گئی ہے۔ سود کو اپنی سگی ماں کے ساتھ زیادتی کرنے سے بھی زیادہ سنگین گناہ قرار دیا گیا ہے۔ سود کھانے والے کی مثال ایسے شخص سے دی گئی ہے جسے پاگل کتے نے کاٹ کر باؤلا کردیا ہو۔ پاکستان کی معیشت اور معاشرت میں سودی نظام کی مضبوط گرفت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں ہوس دولت میں مبتلا باؤلوں کی تعداد روز بروز کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔
ربا کی اصل تعریف اور سود سے اس کے فرق کے شوشے چھوڑ کر دراصل اس شیطانی نظام کو برقرار رکھنا مقصود ہے۔ پیر کو وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نجم الحسن کی جانب سے نظر ثانی کے لئے مقدمے کی سماعت ناصرف غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی، بلکہ ان کے ریمارکس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ انہوں نے اس کیس کو ختم کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ حکومت پاکستان دستور میں 1973ء کی ایک ترمیم کے تحت پابند ہے کہ وطن عزیز کو سودی نظام معیشت سے جلد از جلد نجات دلائے، لیکن تمام حکومتیں اور متعلقہ ادارے گزشتہ پینتالیس برسوں سے کبھی اسمبلیوں میں اور کبھی مختلف عدالتوں میں لے جا کر مسئلے کو لٹکائے ہوئے ہیں۔ 1990ء میں سپریم کورٹ میں بحث کے دوران حکومت نے سود کو ختم کرنے کے لئے سات سال کی مہلت طلب کی تھی، لیکن اسے ختم ہوئے بھی اکیس سال ہو چکے ہیں۔ سود جیسی بدترین لعنت سے چھٹکارا پانے کے لئے اول تو سات سال کی مدت ہی مضحکہ خیز تھی، جبکہ اسے ایک آرڈی نینس کے ذریعے آن کی آن میں ختم کیا جا سکتا تھا۔ اسے جاری رکھنے میں پیپلز پارٹی جیسی سیکولر جماعتوں کا کردار تو قابل فہم ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر میاں نواز شریف کی ایک سابقہ لیگی حکومت نے سود کی لعنت کو برقرار رکھنے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ چنانچہ ان سب کی سعی نامسعود کے باعث ہماری معیشت سود کے ناپاک سائے میں پل کر جوان ہوئی اور اس کی نحوست سے پاکستان آزادی کے ستر سال بعد بھی سیاسی و معاشرتی اور معاشی و اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہے۔ سودی نظام معیشت سے ملک اور عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا، البتہ شیطان کے چیلوں نے اپنے اقتدار و اختیارات استعمال کر کے ملک میں اور بیرون ملک دولت کے انبار جمع کئے لیکن تابہ کے۔ اب وہ بھی مقدمات کی صورت میں سودی کمائی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے کوئی عبرت حاصل نہیں کی ہے، بلکہ الٹا خود کو بے گناہ اور معصوم ظاہر کر رہے ہیں۔ ثبوت کے طور پر وہ عوامی حمایت کو اپنے حق میں پیش کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خاتمے اور اس سے ملتے جلتے ایک سو چودہ مقدمات کی مشترکہ سماعت کی، جس میں بینکاروں، ماہرین معاشیات، حکومتی نمائندوں اور علما کو تفصیل کے ساتھ سنا گیا۔ دقیق بحث و مباحثے ہوئے اور تحریری و زبانی بیانات لئے گئے۔ اکتوبر 1991ء میں ایک سو ستاون صفحات پر مشتمل وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ سامنے آیا، جس میں سود سے متعلق بائیس مروجہ قوانین کا جائزہ لے کر بینکنگ سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دیا گیا۔ فیصلے کے مطابق یکم جولائی 1992ء سے تمام سودی قوانین غیر آئینی اور سودی کاروبار ممنوع قرار پانا تھا۔ لیکن بعد کی حکومتوں کی جانب سے مسلسل لیت و لعل اور اس معاملے کو بار بار مختلف عدالتوں میں لے جانے کی وجہ سے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور یہ لعنت ہنوز برقرار ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس نے بھی سودی معیشت کو ختم کرنے میں دلچسپی نہ لی تو اس کا انجام بھی سابقہ حکومتوں سے کچھ کم نہیں، بلکہ شاید زیادہ ہی عبرت ناک ہو۔ ٭
٭٭٭٭٭