بچوں کے جلوس نے مجھے بندرگاہ پہنچایا

مزید ایک فرق ہرمز اور لارک میں موجود رکازی پرت (fossil bed) کا ہے۔ یہ رکازی پرت موجودہ زمانے کی پیداوار ہے اور تقریباً تمام عام سیپیوں اور گھونگوں سے مل کر بنی ہے۔ ہرمز میں جہاں اس کی اوسط ضخامت تقریباً واحد میٹر ہے، یہ ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ خاصی وفاداری کے ساتھ نظر آتی ہے اور گاہے گاہے نمک کے بے پایاں ماس (mass) کے مسلسل اوپر کھسکنے کی وجہ سے خاصی اونچائیوں پر بھی نظر آتی ہے۔ مگر لارک میں جہاں کی ارضیاتی تاریخ اور تاریخی واقعات ہرمز سے بہت مختلف رہے ہیں اور جہاں نمک کے ماس یا عظیم پلگ کا سطح زمین پر منتقلی کا عمل بہت عرصہ پہلے ہی ختم ہوگیا تھا اور یہ علاقہ نمک کے بعد از مائیگریشن فسادات (post salt migration tectonics) کی زد میں آگیا تھا، اس لئے یہ غریب فوسل بیڈ بھی بہت زیادہ یکسانیت اور ہمہ گیریت کے ساتھ نہ جم سکی۔ مگر جہاں جہاں بھی جمی، وہاں بڑی ضخامت (تقریباً 50 فٹ) کے ساتھ جمی۔ لارک میں اس کی ضخامت ہرمز کی فوسل بیڈ کی ضخامت سے کئی گنا زیادہ ہے، مگر اجزائے ترکیبی وہی ہیں۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اس فوسل بیڈ کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ تو جیساکہ شروع میں عرض کیا گیا کہ یہ فوسل بیڈ ساری کی ساری سیپیوں اور گھونگوں سے مل کر بنی ہے۔ اور یہ تمام سیپیاں اور گھونگے علم الحیوانات کی رو سے صرف دو خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک لیمیلی برینکیا (Lamelebranchia) اور دوسرا گیسٹرو پوڈا (Gasteropoda)۔ ان کے نام تو گزرے زمانے کے بزرگوں نے بڑے ٹیڑھے میڑھے رکھ دیئے ہیں، مگر یہ ہیں بڑی سیدھی سادی مخلوقات۔ کراچی کے ساحل پر جو سیپیوں اور گھونگوں سے بنی بڑی خوبصورت اور لا تعداد اشیا فروخت کی جاتی ہیں، وہ انہی دو قبیلوں کی سیپیوں اور گھونگوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
لارک اور ہرمز کے علاقوں کا ایک اور واضح فرق ہرمز فارمیشن کا اپنے ٹائپ سیکشن ہرمز میں چونے کے پتھر کی غیر موجودگی اور لارک میں موجودگی ہے۔ یہ تقریباً تیس میٹر ضخیم چونے کا پتھر ہے، جس کے اوپر کی پتلی کھال پیلی ہے، جبکہ اس کا اصلی یا اندرونی رنگ بسکٹی ہے۔ یہ چونے کا پتھر غاریدہ (cavernous) قسم کا ہے اور اس کے مِنی غاروں میں گاہے گاہے دریائی پتھروں سے بنی چٹان کانگلو مریٹ (conglomerate) کے چھوٹے اجسام بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ یہ چونے کا پتھر اپنی پیدائش کے بعد کسی زمانے میں اتھلے ساحلی پانیوں میں پڑا رہا ہے، مگر مجھے اس غار بردار چونے کے پتھر کی کوئی باقاعدہ پرت (bed) نہیں ملی، سوائے ایک سو فٹ قطر کے اکلوتے جسم کے۔ لارک جزیرے کی معاشی جیولوجی کا ایک اہم عنصر ہرمز فارمیشن کا متذکرہ بالا گلابی و سفید بلور کے دانوں اور قلموں (crystals) پر مشتمل سخت و یکجان ریت کا پتھر ہے۔ یہی ریت کا پتھر لارک جزیرے کا خاص اور بڑا عمدہ عمارتی پتھر ہے۔ جزیرے کی اکثر عمارتیں اسی پتھر سے بنائی گئی ہیں۔
میں نے اپنی دانست میں لارک جزیرے پر ہرمز فارمیشن کے آؤٹ کراپس کا خاصا علاقہ تسلی بخش طریقے پر چھان پھٹک لیا، فیلڈ ڈائری میں ضروری نوٹس لکھ لئے، اور اسکیچ سیکشنز بنالئے، تمام مطلوبہ تصاویر بھی لے لیں اور خاصی فراخ دلی سے پتھروں کے معدنیانی نمونے بھی جمع کرلئے اور بفضل تعالیٰ کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہ آیا۔ مگر اب میں تھک چکا تھا۔ سائٹرک ایسڈ اور پانی ملے فروٹ جوس کی جو تین ڈبیاں مع دو عدد بسکٹوں کے پیکٹ میں بندر عباس سے لے کر چلا تھا وہ شروع کے دو تین گھنٹوں میں ہی ختم ہوگئے تھے اور اب بھوک اور پیاس دونوں ہی نے مجھے پریشان کرنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ میں نے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ کیونکہ میں نے اپنا فیلڈ کا کام کرلیا تھا، اس لئے اب آبادی میں جانے سے بھی مجھے کوئی اعتراض نہ تھا۔ پھر پانی ملنے کی امید بھی آبادی ہی سے تھی۔ اس لئے میں اپنا ٹام ٹمیرہ پیٹھ پر لاد کر سوئے شہر چلا اور کچھ کوہ اور کچھ میدان نوردی کرنے کے بعد لارک کی ایسکلا روڈ یا بندر روڈ پر آگیا اور پھر پتہ چلا کہ کراچی کی سب سے قدیم، سب سے بڑی اور پر ہجوم روڈ کا نام بزرگوں نے بندر روڈ کیوں رکھا تھا۔ مگر یہ بات کہ متذکرہ روڈ ایسکلا روڈ یا بندر روڈ ہے اور سیدھی لارک کے ایسکلا کو جاتی ہے مجھے بعد میں معلوم ہوئی۔
اس روڈ پر تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ میری مڈبھیڑ بچوں کی ایک جماعت سے ہوگئی جو اپنے اسکول سے پڑھ کر آرہے تھے۔ میں نے ان سب کو السلام علیکم کہہ کر سب سے ہاتھ ملایا اور سب کے سروں پر اپنا دست شفقت رکھا اور پھر ان سے لارک کے ایسکلے کا راستہ معلوم کیا۔ ان بچوں میں جو سب سے بڑا بچہ تھا، وہ بولا کہ ایسکلے کا پتہ تو ہم آپ کو بتائیں گے ہی بلکہ وہاں چھوڑ کر آئیں گے، مگر اس سے پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ ہیں کون؟ اور کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے انہیں اپنا نام بتایا اور کہا کہ میں ایک پاکستانی زمین شناس ہوں اور آج ہی صبح آپ کے جزیرے پر زمین شناسی کا کچھ کام کرنے بندر عباس سے پہنچا ہوں۔ میری زبان سے یہ سننا تھا کہ بچوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ خوشی سے اچھلنے، کودنے اور شور کرنے لگے۔ ان کی اس اچھل کود اور شور کو سن کر ادھر ادھر سے کچھ بڑے لوگ بھی نکل آئے اور بچوں سے شور کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم ایک پاکستانی زمین شناس کو لے کر آئے ہیں۔ اس پر بلا استثنیٰ ہر شخص تعجب کا اظہار کرتا اور کہتا کہ واللہ! (کیا بخدا یہ بات سچ ہے؟)۔ جواب میں بچے بھی یہی کلمہ دہراتے کہ ’واللہ‘۔ اب اس دوسرے واللہ کا مطلب ہوا کہ قسم اللہ کی یہ بات بالکل سچ ہے۔ یوں میرا جلوس بنا کر وہ بچے مجھے سوئے ایسکلا لے چلے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سڑک پر کوئی راہگیر ان سے یہ پوچھنے والا نہ ہوتا کہ بھئی تم کیوں شور کرتے ہو؟ تو وہ کسی نزدیکی رہائشی مکان کے دروازے پر جاکر باقاعدہ دستک دیتے اور وہاں سے جب خاتون خانہ تھوڑا سا دروازہ کھول کر درمیانی درز سے پوچھتی کہ کیا بات ہے؟ تو بچے بڑے فخر سے اس سے کہتے کہ ’’ہم ایک پاکستانی زمین شناس کو لے کر آئے ہیں‘‘۔ اس پر بلا استثنیٰ خاتون عربی لہجے میں کہتیں کہ ’واللہ؟‘ اور بچے بھی وہی جواب دیتے کہ ’واللہ‘۔ پھر خاتون دریافت کرتی کہ مہمان کو کہاں لے جارہے ہو؟ وہ بڑے سریلے انداز میں کہتے کہ ’’تا بہ ایسکلا‘‘ یعنی بندرگاہ تک۔
بچوں کے رنگ، چہرے کے کٹ اور لہجے سے میں نے اندازہ لگایا کہ لارک کے رہنے والے عربی النسل ہیں۔ ویسے یہ بات مجھے پہلے سے معلوم تھی کہ جنوبی ایران میں عربی النسل لوگ خاصی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
میرا بچوں کا جلوس صرف پانچ بچوں پر مشتمل تھا، اس پر ہی میری یہ حالت ہوگئی کہ میں اپنے آپ کو اگلا وزیر اعظم پاکستان سمجھنے لگا اور اس مسحور کن تصور میں اتنا کھو گیا کہ اپنی بھوک و پیاس بھی بھول گیا۔ اس تناظر میں آپ خود ہی سوچئے کہ جو سیاسی لیڈر تیس چالیس ہزار کا مجمع پیدا کرلے اور وہاں اتنا شور شرابا بھی برپا کر لے کہ جتنا اسلام آباد میں ہوا اور یہی نہیں بلکہ ملک کے حاضر سروس اور سابقہ چوکیداران بھی اس کی پشت پر ہوں تو پھر وہ غریب اپنے آپ کو پاکستان کا اگلا وزیراعظم کیوں نہ سمجھے؟ اور کیوں نہ اس ہدف کے حصول کے لئے سرتوڑ کوشش کرے؟ اور کیوں وہ اپنا دھرنوں کا پروگرام ختم کرکے آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے؟ اطہر شاہ خان جیدی نے ایسی ہی صورت حال کے لئے کیا خوب کہا ہے
حالات بنا دیتے ہیں انسان کو لیڈر
بے وجہ کوئی قوم کی خدمت نہیں کرتا
تو صاحبو رہائشی مکانات ختم ہوگئے اور بچوں کے دروازہ کھٹکھٹانے اور خواتین خانہ کو پاکستانی زمین شناس کی آمد کی اطلاع کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا اور ایسکلا بھی سامنے نظر آنے لگا۔ میں نے بچوں سے کہا کہ میں آپ لوگوں کی ایک تصویر بنانا چاہتا ہوں جس کے لئے وہ سب بخوشی راضی ہوگئے۔ کچھ مزید آگے چلنے پر جبکہ ہم لوگ ایسکلا کے بالکل ہی قریب پہنچ گئے تو میں نے بہت بہت شکریئے کے ساتھ بچوں کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ اب آپ اپنے اپنے گھروں کو جائیں۔ میں ایسکلا کی جانب چلا اور تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ پیاس اور بھوک عود کر آئی۔ اب میں نے اپنے آپ کو بہت لعن طعن کی کہ میں اپنے ’جلوس‘ میں ایسا مست ہوا کہ بچوں سے یہ تک نہ کہا کہ مجھے کسی گھر سے پانی لاکر میری پیاس بجھا دیں۔ بچے واپس جاتے ہوئے ابھی نظر آرہے تھے، مگر مجھے انہیں دوبارہ بلاتے ہوئے شرم آئی۔ یہ بھی خیال آڑے آرہا تھا کہ اگر میں نے انہیں واپس صرف یہ کہنے کے لئے بلایا کہ بیٹا مجھے کہیں سے پانی لاکر پلا دو تو وہ اور ان کے گھر والے ایک پاکستانی زمین شناس کی دماغی اہلیت کے بارے میں کچھ اچھا تاثر نہ رکھیں گے، کہ جب آبادی سے گزر رہا تھا اس کو پانی یاد نہ آیا اور اب بچوں کو اتنی دور سے صرف اپنے پانی کے لئے واپس بلایا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment