نئی دنیا(چوتھا حصہ)

گوشت کیسے سستا ہو؟
ابراہیم ابن ادہمؒ سے شکایت کی گئی: ’’گوشت بہت مہنگا ہو گیا ہے، کیا کیا جائے؟‘‘ آپؒ نے فرمایا: ’’گوشت کھانا چھور دو۔ ایک ہفتے میں سستا ہو جائے گا۔‘‘ صارف خود ہی مہنگائی کے اسباب پیدا کرتے ہیں اور دکاندار تو اسی تاک میں ہوتے ہیں۔ پھر قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ پوری دنیا میں یہی ہورہا ہے۔
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے:
بہو، بچوں کو اسکول سے لینے نکلیں تو دیکھا سڑک کی جگہ ’’نہر اپر باری دوآب‘‘ بہہ رہی ہے۔ اب جائیں تو کیسے؟ انہوں نے شوہر کو فون کیا کہ گھر کے باہر سیلاب آیا ہوا ہے۔ میں نے بچوں کو لینے اسکول جانا ہے۔ کیا کروں؟ یا پھر آپ لے آئیں۔ شوہر میٹنگ میں تھے۔ ان کے لیے آنا ممکن نہ تھا۔ بولے: ’’میں تو نہیں جاسکتا، تم خود ہی کچھ کرو۔‘‘ میڈم نے تیاری پکڑ لی۔ گھر کی دیوار کے ساتھ کچھ پتھر اور ٹوٹی ہوئی ٹائلیں پڑی تھیں۔ انہیں پانی میں جماتی ہوئی گاڑی تک پہنچیں اور بچوں کو لے آئیں۔ میونسپلٹی والوں کو اپنی مشکل بتائی تو پتہ چلا کہ یہ سیوریج کا پانی نہیں۔ گاڑیاں دھونے والوں کی کارستانی ہے۔ شام تک وہاں پانی کا ایک قطرہ تک نہ تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہیں۔
اب کے برس:
کراچی سے چلے تھے تو وہاں ٹماٹر مہنگا ہونے کا شور تھا۔ یہاں آئے تو وہی شور یہاں بھی سنائی دیا۔ کیا کراچی کیا ابوظہبی۔ مہنگائی ہر جگہ موجود ہے۔ اک ٹماٹر ہی پر موقوف نہیں، ہر چیز مہنگائی کی آگ میں جل رہی ہے۔ گزشتہ برس جو چیز دس درہم میں آسانی سے مل جاتی تھی، اب کے برس چالیس درہم میں بھی نہیں ملتی۔ واقفان حال اسے امریکہ، سعودی عرب اور امارات کے سیاسی حالات کو ٹھہراتے ہیں۔ ملازمت پیشہ طبقہ بہت پریشان ہے۔ پاکستانیوں کے تو ہاتھ کے طوطے اڑے ہوئے ہیں۔ غذائی اشیا مہنگی، تعلیم مہنگی ترین، کرائے کے مکان ناقابل یقین حد تک مہنگے۔ لوگ شہر سے مضافات میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اپنے ہی مکان کے سامنے گاڑی پارک کرنے کے لیے پندرہ درہم فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ بات بات پر مخالفہ پڑ جاتا ہے۔ کاشف نے ہوٹل سے کھانا لینا تھا۔ وہ اس خوف سے ہوٹل کے اندر نہ جا سکا کہ مخالفہ (جرمانہ) نہ پڑ جائے۔ بیرے سے کھانا منگوایا، لیکن شرطے نے پھر بھی پارکنگ فیس لے کر چھوڑی۔ اتنے کا تو کھانا بھی نہ تھا جتنی پارکنگ فیس ادا کرنی پڑی۔ قانونی پابندیاں سخت ہیں۔ رہنا بے حد دشوار ہو گیا ہے۔ جی تو یہی چاہتا ہے کہ ’’ڈھوک رانجھن دی‘‘ کیوں نہ چلے جائیں۔ لیکن یہ بھی کچھ کم آسان نہیں۔ وہاں جاکر بھی کیا کریں گے۔ وہاں دہشت گردی نے ’’گلیاں سنجیاں‘‘ کر دی ہیں۔ جو کچھ ہوتا ہے، وہ اسٹریٹ کرائم کی نذر ہو جاتا ہے۔ اب تو وہاں گھاس بھی نہیں رہی کہ وطن کی محبت میں گھاس کھا کر گزارہ کر لیں گے، محاورتاً بھی نہیں۔ تھوڑے عرصے پہلے تک ابوظہبی میں صرف ایک چیز پاکستان سے سستی تھی۔ اب وہ بھی نہیں رہی۔ وہ تھی: ’’ٹشو پیپر۔‘‘
آفیسرز کلب پارک:
’’آفیسرز کلب پارک‘‘ یہ اس کا اصل نام نہیں ہے، بلکہ اس کا کوئی نام ہے ہی نہیں۔ آفیسر کلب کی قربت کے باعث اس کا یہ نام عوام نے خود ہی رکھ لیا ہے اور پھر یہی نام شہرت پا گیا۔ آج جمعرات کا دن تھا اور ابوظہبی والوں کا ویک اینڈ بھی۔ پچھلے پانچ دنوں میں ہم کہیں باہر نہ جا سکے تھے۔ ہم سے زیادہ بچے پرجوش تھے کہ آج کہیں کھلی جگہ نکلنا چاہئے۔ امی اور ابو تو گویا ’’سیاسی قیدی‘‘ بن کر رہ گئے ہیں۔ کھانے پینے سونے اور آرام کرنے کی مکمل آزادی تھی، لیکن کاشف اور فیصل کے بغیر گھر سے باہر نکلنا ممنوع تھا۔ مبادا کہ ابوظہبی کی بھول بھلیوں میں کہیں ہم کھو نہ جائیں۔ کاشف اور فیصل نے پہلے ہی سے طے کر رکھا تھا کہ ویک اینڈ پر ’’آفیسر کلب پارک‘‘ چلیں گے، رات کا کھانا (باربی کیو) وہیں تیار کیا جائے گا اور ڈنر وہیں ہو گا۔ چند روز قبل سرراہ میں یہ پارک دیکھ چکا تھا۔ اس لیے مجھے ان سے مکمل اتفاق تھا۔
ابوظہبی کا یہ ایسا پارک ہے جو کسی ترقیاتی منصوبے کی اسکیم میں نہ تھا۔ ضرورت کے تحت اس جگہ اوپر نیچے متعدد سڑکیں گزار دی گئی تھیں، جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہر سڑک سگنل فری رہے اور عوام کا وقت ضائع نہ ہو۔ رش اور انتظار کی کوفت نہ اٹھانا پڑے۔ اس منصوبے نے بہت سارا علاقہ گھیر لیا تھا۔ آفیسرز کلب سے ملحق اس پارک کو سڑکوں کے جال سے نیچے بچی کھچی جگہ پر بنایا گیا ہے، جو خوب صورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ابوظہبی کے بانی شیخ زاید ہریالی کے شیدائی تھے۔ وہ درخت لگانے کے تو قائل تھے، لیکن کاٹنے کے سخت خلاف تھے۔ شنید ہے کہ جب ابوظہبی اور دبئی کے درمیان شیخ زاید روڈ بن رہا تھا تو کھجور کا ایک درخت روڈ کے عین درمیان تن کر کھڑا ہو گیا کہ ’’میں دیکھتا ہوں کہ مجھے کون کاٹتا ہے!‘‘ تعمیراتی ادارے ایک مدت تک شیخ بابا سے اس کی شکایتیں کرتے رہے، لیکن کاٹنے کی منظوری نہ ملی۔ آخر بابا نے نقشے منگوائے اور سڑک کو دوسری طرف سے گزارا گیا، لیکن اس کھجور کے درخت کا کوئی بال بھی بانکا نہ کر سکا۔ وہ آج بھی اپنی جگہ پر کھڑا ہے۔ درخت جیت گیا۔ ادارے ہار گئے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment