حکومت نے جب سے گورنر ہائوسز عوام کے لئے کھولے ہیں اور وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا ہے، پیپلز پارٹی خاصی پریشان نظر آرہی ہے، وزیراعظم ہائوس ہو یا گورنر ہائوس، یہ عوام کے سرمائے سے ہی بنے ہیں اور ان کے سرمائے سے ہی چلتے ہیں، اگر انہیں عوام کے لئے کھولا جا رہا ہے، تو یہ کوئی احسان نہیں، عوام کا یہ حق ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان کے حکمرانوں کا رہن سہن کیا ہے، وہ ان کے دئیے ہوئے وسائل پر کیا کیا اور کس طرح موجیں اڑا رہے ہیں، لیکن پاکستانی حکمرانوں نے عوام کو یہ حق کبھی نہیں دیا، اب اگر عوام کو یہ موقع ملا ہے، اس پر سب سے زیادہ پریشانی کا اظہار اس جماعت کی طرف سے کیا جا رہا ہے، جو خود کو عوامی کہتے نہیں تھکتی۔ پیپلز پارٹی جس طرح روزانہ حکومتی محلات عوام کے لئے کھولنے اور اضافی گاڑیاں فروخت کرنے کے خلاف بیان دے رہی ہے، انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ محلات اور گاڑیاں سرکار کی نہیں، بلکہ پی پی پی کی ملکیت ہیں، جو وہ اتنی بے چین ہو رہی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کا اعتراض سندھ کی حد تک رہتا تو بھی شاید بات سمجھ میں آتی، لیکن پارٹی کے رہنما تو وفاق اور پنجاب کے اثاثوں پر بھی ایسے بیانات دے رہے ہیں، جیسے بس وہاں اگلی حکومت ان کی ہی آنے والی ہے، حالاں کہ وفاق اور پنجاب بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی یہ پارٹی ایسے صاف ہو چکی ہے کہ مستقبل قریب میں دور دور تک اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پنجاب میں تو نئی نسل کے لئے پیپلز پارٹی کی شناخت سندھ کی ایک صوبائی جماعت کی پختہ ہوگئی ہے، دوسری شناخت تو اس کے کرپشن اسکینڈل ہیں، یہ اسکینڈل اب منی لانڈرنگ کیس کے ذریعے پارٹی کی نوجوان قیادت کو بھی لپیٹ میں لیتے نظر آرہے ہیں اور اگر یہ لپیٹ میں نہ بھی لیں تو تب بھی پی پی پی اپنی نوجوان قیادت سے جو امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھی، ابھی الیکشن کے نتائج ان امیدوں کا مستقبل بتا گئے ہیں، ہمارے سیاستدان ویسے اس لحاظ سے کمال کے ہیں کہ یہ اپنی اولادوں کو اور کچھ سکھائیں نہ سکھائیں، دولت کس طرح بنانی ہے، یہ طریقے وراثت میں ضرور منتقل کرتے ہیں، حالاں کہ وہ خود اتنی دولت بنا چکے ہوتے ہیں کہ ان کی اولادیں کیا، ان کی کئی نسلوں کے لئے وہ کافی ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ اپنے ’’گر‘‘ منتقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
وزیر اعظم ہائوس ابھی عوام کے لئے تو نہیں کھلا، حالاں کہ گورنر ہائوسز کی طرح اسے بھی عوام کے لئے کھولنا چاہئے تھا، مگر میڈیا کے لئے ضرور کھولا گیا ہے، وزیر اعظم ہائوس کو دیکھ کر تو آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں، وزیر اعظم ہائوس اور ایوان صدر کے بارے میں عام آدمی یہ خیال تو ضرور رکھتا ہے کہ وہ بہت بڑے ہوں گے، ان میں ہر طرح کی سہولتیں ہوں گی، لیکن اتنی غریب قوم کے حکمران اس طرح کے محلات میں اور اتنی آسائشوں کے ساتھ رہتے ہیں، اس کا بیشتر نے تصور نہیں کیا تھا۔ وزیراعظم ہائوس میں 1993ء میں پی پی پی حکومت کے دوران پارٹی کے موجودہ سربراہ آصف زرداری کے گھوڑوں کے لئے اصطبل بھی بنایا گیا تھا۔ حیرت ہے ان کے بعد کتنی حکومتیں گزر گئیں، گھوڑے بھی نہ رہے، لیکن یہ اصطبل اب بھی موجود ہے۔ لگتا ہے اس اصطبل کا مستقبل خطرے میں دیکھ کر بھی پی پی پی رہنما زیادہ ردعمل ظاہر کررہے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی حکومتی محلات کی۔ گورنر ہائوس لاہور میں ہی چلے جائیں تو بندہ تھک جاتا ہے، لیکن یہ ختم نہیں ہوتا، گورنر ہائوس کیا ہے، بس زمین پر جنت کی طرح بنایا گیا ہے، پہاڑیوں سے لے کر مصنوعی جھیل اور اپنے باغات سے لے کر سبزی فارم تک، ہر چیز اس میں موجود ہے۔ یہ بنایا تو گوروں نے تھا اور اپنے لئے انہوں نے ٹھیک ہی بنایا ہوگا، کیوں کہ وہ یہاں ہم پر حکمرانی کرنے آتے تھے۔
غلام قوم پر رعب ڈالنے اور اس سے فاصلہ رکھنے کے لئے انہیں اس طرح کے محلات کی ضرورت تھی، ان کے جانے کے بعد تو یہ سلسلہ ختم ہوجانا چاہئے تھا، لیکن 70 برس گزر گئے، انگریزوں کی جگہ آنے والوں نے بھی ان کا طرز عمل اپنائے رکھا، بس مکین اور چہرے بدلی ہوتے رہے، کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ یہ محلات تو نوآبادیاتی سوچ کے تحت بنائے گئے تھے، ہم تو اسی قوم سے ہیں، ان سے ہی ووٹ لے کر یہاں پہنچے ہیں، کیوں نہ ان محلات کو عوام کے لئے استعمال کریں۔ اب پی ٹی آئی حکومت نے اس حوالے سے اعلانات کئے ہیں، گورنر ہائوسز کی حد تک عوام کے لئے کھولا بھی گیا ہے، لیکن اصل امتحان ابھی باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اعلان کے مطابق ان کا عوامی مقاصد کے لئے استعمال کرے اور حکومتی عہدیدار چھوٹے گھروں میں واقعی منتقل ہوں۔ کیوں کہ اپوزیشن ہی نہیں، خود حکومت کے کئی رہنمائوں کو بھی یہ محلات چھوڑنے پر پریشانی ہوگی۔ یہ جو گورنر ہائوس لاہور میں کچرا پھینکنے اور لکڑی کا پل ٹوٹنے پر واویلا مچا ہے، اس میں بھی اپوزیشن کے ساتھ کچھ حکومتی رہنمائوں کی سوچ کی شراکت بھی بتائی جا رہی ہے۔ یہ ایک سوچ ہے، جو عوام کو شودروں کی طرح سمجھتی ہے، اپنے آپ کو ان سے اوپر سمجھتی ہے، ان سے فاصلہ رکھنا چاہتی ہے۔ انہیں اصل میں گورنر ہائوس میں پھینکے گئے کچرے سے نہیں، عوام سے ہی پریشانی ہوتی ہے۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اس پر درست کہا ہے کہ اگر کچرا پھینکا گیا ہے، تو آئندہ اسے بروقت اٹھانے کا بندوبست کیا جائے گا،کھانے پینے کی اشیا لانے کا معاملہ محدود کیا جا سکتا ہے، لوگوں کو آگہی دینے کیلئے عملہ تعینات کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭