ایک بدوی کی عجیب دعوت

بعض واقعات اتنے عجیب اور حیرت انگیز ہوتے ہیں کہ ان پر حیرت ہی کی جا سکتی ہے۔ نہ ان کو عقلی تاویل ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان پر یقین کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اگر راوی ثقہ اور معتبر ہو تو یقین کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ واقعہ بھی ایسا ہی ہے کہ عقل ششدر ہے اور حیرت بھی حیرت زدہ ہے۔
یہ واقعہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے سن 1350ھ کی ایک اصلاحی مجلس میں نقل فرمایا ہے۔ اس کے راوی مولوی عبد الحق شیخ الدلائل ہیں۔ ایک بوڑھا بدوی مدینہ منورہ میں روضۂ اطہر پر بیٹھا رہتا اور روضۂ اطہر کو تکا کرتا تھا۔ فرماتے ہیں کہ میں بھی اس کے پاس محبت کی وجہ سے جا بیٹھتا تھا۔
رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ ایک دن اس نے کہا: تمہاری دعوت ہے۔ میں نے عذر کر دیا اور عذر دو وجہ سے کیا۔ پہلی وجہ تو یہ تھی پیٹ کی تکلیف کی وجہ سے میں چاول نہیں کھا سکتا تھا اور بدوی اکثر چاول ہی کھاتے ہیں۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ افطار اور مغرب کی نماز کے بعد ہی کھانا کھانے جائیں گے۔ پتہ نہیں ان بدوی کا مکان کتنا دور ہو۔ اگر دیر ہو گئی تو عشاء کی نماز مسجد نبویؐ میں نہ ملے گی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ تراویح میں تلاوت قرآن کی ترتیب بھی فوت ہو جائے گی۔
اس لیے میں نے عذر کر دیا۔ مگر انہوں نے بہت ہی اصرار کیا۔ ان کے غیر معمولی اصرار پر آخر میں مجبور ہو گیا اور دعوت قبول کر لی۔ (مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر ایک مسلمان کی دعوت کو رد کرتے ہوئے بھی خلاف سنت ہونے کا ڈر لگا ہو گا۔ راقم) مغرب کے بعد وہ مجھے لے کر چلے۔ چلتے چلتے شہر سے باہر نکل گئے۔ اب جنگل میں چل رہے ہیں۔ غصے سے دل بھرا ہوا ہے کہ اب تو مسجد نبویؐ میں عشاء کی نماز کسی طرح بھی نہیں مل سکتی۔ آخر کافی دور چلنے کے بعد کچھ جھونپڑیاں نظر آئیں۔ ان کے قریب پہنچ کر آواز دی۔ یا ولد! شیخ کے واسطے کھچڑی پکائو!
یہ سن کر مجھے سخت ناگوار ہوا کہ ابھی تو کھچڑی پکے گی۔ پھر کھانا کھائیں گے اور پھر واپسی میں اتنی دور چلنا ہو گا۔ غصے اور بے چارگی سے میرا برا حال تھا۔ اس خیال سے کہ اب عشاء کی جماعت تو ملے ہی گی نہیں۔ سوچا کہ اب تو پھنس ہی گیا ہوں۔ اس لیے مجبوراً بیٹھ گیا۔ کھچڑی تیار ہوئی۔ آخر کھائی (افطار کے بعد بھوک بھی لگی ہو گی۔ راقم) آخر کھانے کے بعد وہ مجھے واپس لے کر چلے۔ مجھے جلدی تھی اور وہ بوڑھے ہونے کی وجہ سے تیز نہیں چل سکتے تھے۔ اس پر اور زیادہ ناگواری ہوئی۔ مگر تھوڑی دور چل کر ان بدوی صاحب کو ایک اور مہمان مل گیا۔ وہ عذر کر کے واپس ہو گئے۔ میں نے غنیمت سمجھا اور جلدی جلدی کر کے مسجد نبویؐ کی طرف چلا۔ خیال تھا کہ عشاء تو خیر کیا ملتی، مگر شاید دروازہ بند نہ ہوا ہو۔ مسجد کی فضیلت تو مل جائے گی۔
غرض شہر میں داخل ہو کر سیدھا مسجد نبویؐ پر پہنچا۔ مسجد کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک شخص مسجد کی ایک طرف بیٹھا کچھ کھا رہا تھا۔ میں نے ان کے پاس جاکر پوچھا کہ کیا عشاء کی نماز ہو چکی ہے؟ تو اس نے کہا کہ: ’’انت مجنون!‘‘ تم دیوانے ہو، ابھی تو مغرب کی نماز پڑھی ہے۔ افطاری کر رہا ہوں۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ غور کر کے دیکھا تو واقعی مغرب کا وقت ہے۔ حیرت زدہ رہ گیا اور خیال ہوا کہ یہ ان بدوی صاحب کی کرامت ہے۔ میں نے رات تو کسی طرح گزاری۔ فجر کی نماز کے بعد ان کو تلاش کیا۔ مگر ان کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ غالباً ان سے معافی کی درخواست کرنا چاہتے ہوں گے۔ ایک صاحب نے حضرت تھانویؒ سے عرض کیا کہ حضرت وہ بدوی ابدال ہوں گے۔ مزاحاً فرمایا:
جی ہاں، دال کھلائی تھی۔ ابدال ہی ہوں گے۔ (ملفوظات حکیم الامت۔ ج۔2۔ ص 70)
اس واقعے کو پڑھ کر کئی سوال ذہن میں ابھرے۔ اول تو یہ کہ اگر کرامت تھی تو کیا کرامت وقت کو آگے پیچھے کر سکتی ہے؟ اس واقعے میں راوی پر دو ڈھائی گھنٹے تو گزرے ہی ہوں گے، جبکہ ان ہی راوی پر مسجد میں چند ہی منٹ گزرے۔ گویا اسی دنیا میں رہتے ہوئے، ان پر مغرب کے بعد سے عشاء کے بعد تک کا وقت دو بار گزرا۔ یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔ زمین اور اس کی فضا سے باہر صرف اس قدر ممکن ہے کہ زمین کے کئی گھنٹے، بلکہ کئی دن کسی سیارے کے کئی سال ہوں۔ جیسا کہ مشتری سیارے کے بارے میں راقم نے اپنی کتاب ’’قرآن اور سائنسی انکشافات‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ بات یہ ہے کہ وحی ہو، الہام ہو، یا کرامت ہو، ان میں عقل کا گھوڑا ہمیشہ ٹھوکریں کھاتا ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ واقعہ اگر خلاف اسلام نہ ہو اور راوی معتبر ہو تو بلاچون و چرا اس کو تسلیم کر لیا جائے۔
جیسا کہ اس واقعے میں مقام بھی افضل ترین ہے۔ مہینہ بھی مقدس ہے۔ وقت بھی نہایت مبارک ہے اور راوی بھی ایسا ہے کہ اس کے بارے میں یہ ادنیٰ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے اس واقعے میں ذرا سی بھی غلط بیانی کی ہوگی۔
بات یہ ہے کہ وہ دربار ہی بہت بڑا ہے۔ وہاں ابدال ہوں، غوث ہوں، علماء ہوں، صوفیائے کرام ہوں، محدثین ہوں یا مفسرین ہوں۔ سب اس دربار کے بھکاری ہیں۔ وہاں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ برابر میں بیٹھا ہوا شخص کس رتبے اور درجے پر فائز ہے۔ سچ کہا ہے۔
خاکساران جہاں را بحقارت منگر
تو چہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت تھانویؒ نے بیان فرمایا کہ ’’مولوی قلندر صاحب جلال آبادی ’’صاحب حضوری‘‘ تھے۔ روزانہ حضور اقدسؐ کی زیارت سے مشرف ہوتے تھے۔ یہ حضرت حاجی امداد اللہؒ کے ابتدائی کتابوں کے استاد بھی تھے۔ سفر مدینہ میں ان کے جمال سے جو کہ ایک لڑکا تھا، کچھ غلطی ہوگئی تھی۔ مولوی قلندر صاحب نے اس لڑکے کو ایک تھپڑ مار دیا۔ بس اس تھپڑ کا مارنا تھا کہ ان کی حضوری بند ہو گئی، یعنی حضور اقدسؐ کی زیارت کے شرف سے محروم ہو گئے۔
یہ بہت پریشان ہوئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر وہاں کے مشائخ سے اپنی اس پریشانی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایک مجذوب عورت ہے۔ اس سے مل کر اپنا معاملہ پیش کرو۔ امید ہے کہ اس سے یہ گرہ کھل جائے گی۔ اس عورت کی تلاش شروع کی۔ معلوم ہوا کہ وہ روضۂ مبارک پر
حاضر ہوا کرتی ہے۔ آخر ان سے ملے اور اپنا واقعہ بیان کیا۔ ان خاتون کو یہ سن کر کچھ جوش سا آیا اور روضۂ شریف کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’شف‘‘ یعنی دیکھو۔ انہوں نے جو روضۂ اطہر کی طرف دیکھا تو بیداری میں زیارت ہوگئی۔ (حوالہ بالا۔ ص۔ 71)
بہت سے حضرات کو حق تعالیٰ اس اعزاز سے نوازتے ہیں کہ انہیں روزانہ آنحضرتؐ کی زیارت سے مشرف فرماتے ہیں۔ یہ عجیب سعادت ہے، جو حق تعالیٰ کسی کو بھی عطا فرما دیتے ہیں۔ یہ وہبی نعمت ہے۔ خالص ان کا کرم ہے۔ کسی کوشش اور وظیفوں وغیرہ سے یہ نعمت حاصل نہیں ہو سکتی۔ بس کسی کی کوئی خفیہ ادا حق تعالیٰ کو پسند آجاتی ہو گی، اس کو نواز دیتے ہیں۔ اس نعمت کی قدر کرنا اور اس کے آداب پورے کرنا بھی ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اکثر بزرگوں کا کہنا ہے کہ درود شریف کی کثرت اور اس مقصد کے لیے بعض درود کے خاص صیغے تجویز کئے جاتے ہیں۔ مگر وہ بھی کسی کسی کے حق میں زیارت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ مولوی قلندر صاحب کی قسمت دیکھئے کہ ایک مجذوب عورت کے ذریعے ان کو بیداری ہی میں زیارت کا شرف مل گیا۔ سبحان اللہ!
یہ سب کچھ درست سہی، مگر ہمارے بزرگوں کا مزاج یہ رہا کہ حضور اقدسؐ کی زیارت کی نیت سے اعمال اختیار کرنے کے بجائے آپؐ کے احکام پر عمل کیا جائے تو وہ اس سے آپؐ زیادہ خوش ہوں گے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے کسی نے عرض کیا: حضرت! دعا فرما دیجئے کہ رسول اقدسؐ کی زیارت نصیب ہو جائے۔ فرمایا: بھائی! تمہاری بڑی ہمت ہے کہ اتنی بڑی خواہش کر رہے ہو۔ ہمیں تو روضۂ اطہر کے گنبد کی طرف بھی نطر کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ جتنا وقت اور جتنی کوشش زیارت رسولؐ کے لیے کی جائے، اگر اتنا وقت اور محنت حق تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جائے گی، اس سے رب تعالیٰ بھی خوش ہوں گے اور رسول اقدسؐ بھی خوش ہوں گے۔ پھر حق تعالیٰ خوش ہو کر جس کو چاہیں گے، اس نعمت سے نواز دیں گے۔
اصل چیز محبت ہے۔ یعنی حق تعالیٰ جل شانہ سے محبت کرنا۔ محبت ایک ایسا جادوئی عمل ہے، جس سے بڑی بڑی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ محبت کیسے پیدا ہو؟ اس کے لیے فرائض و سنن کے ساتھ ساتھ اپنے خیال اور فکر کی بھی تھوڑی سی ضرورت ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ مراقبہ نہایت نافع ہے کہ اس کا خیال دل میں جمائے کہ حق تعالیٰ ہمیں چاہتے ہیں۔ ہم سے محبت کرتے ہیں۔ (اور ظاہر ہے کہ وہ ہم سے ہمارے ماں باپ سے زیادہ محبت کرتے ہیں) اس سے محبت پیدا ہو کر خوف پر غالب آجائے گی۔ (از حوالہ بالا۔ ص۔223)
اکثر لوگوں کی طبیعت پر خوف غالب ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ سے ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں۔ ان سے ڈرنا اگر تقویٰ کی وجہ سے ہو، یعنی ان کے خوف سے گناہوں سے بچنا یہ خوف تو مطلوب بھی ہے اور بڑی نیکی ہے۔ اگر خوف کا درجہ اس سے بڑھ جائے تو وہ محبت کے راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
اس کے لیے ہر وقت ان نعمتوں کا خیال رکھے جو اس پر حق تعالیٰ کی طرف سے بارش کی طرح برس رہی ہیں۔ ان کا شکر کرتا رہے۔ اس سے نعمتوں میں اضافہ بھی ہو گا اور ان کے احساسات کو دیکھ کر دل میں ان کی محبت بھی پیدا ہو گی۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment