ناچار میں ایسکلا کے واحد مسلح گارڈ اور اس کے کیبن کی طرف چلا۔ السلام علیکم کہہ کر ان صاحب سے مصافحہ کیا اور پھر پانی کا پتہ کیا۔ اس شریف آدمی نے مجھے کوئی زیادہ لفٹ نہ دی اور یہ مختصر سا جواب دے کر مجھے فارغ کر دیا کہ اس کے پاس کوئی پانی نہیں۔ پھر میں نے اس سے قشم یا بندر عباس جانے کے لئے کشتی کی بابت معلوم کیا۔ اس مرد نیک نے مجھے بتایا کہ یہاں کوئی کشتی سروس نہیں ہے۔ البتہ سامنے کھلے سمندر کی طرف اشارہ کر کے بتایا وہ ایرانی بحریہ کی ایک کشتی کھڑی ہے، شاید اس میں کوئی مسئلہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ٹھیک ہو کر وہ یہاں آئے اور پھر یہاں سے واپس جائے۔ دوسرا آپشن اس نے یہ بتایا کہ نیچے ایک سرکاری کشتی کسی افسر اور اس کے عملے کو لے کر آئی ہوئی ہے۔ وہ لوگ ابھی شہر میں ہیں۔ امید ہے کہ وہ جلد یا بدیر پلٹ کر بندر عباس واپس جائیں گے۔ میں اس مرد نیک سے یہ معلومات لے کر ایسکلا کے پائپوں سے بنے ہوئے جنگلے کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور آنکھیں دور سمندر میں کھڑی ایرانی بحریہ کی کشتی پر مرکوز کر دیں۔ مگر اس طرف سے سے کافی دیر گزر جانے کے باوجود کوئی مثبت سگنل نہ موصول ہوا۔ اسی اثنا میں میری نظر نیچے کنارے پر کھڑی محکمے کی اس موٹر بوٹ پر پڑی کہ جس کا تذکرہ مسلح گارڈ نے کیا تھا۔ میں فوراً مع اپنے تمام سامان کے نیچے اترا اور سیدھا اس سرکاری کشتی پر گیا، جس پر اس کا ناخدا بڑے آرام سے بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے کیا بات ہوئی اور اس نے کیا جوابات دیئے، اس کی تفصیل لارک کے ایسکلا کی بابت کچھ حقائق گوش گزار کرنے کے بعد پیش کروں گا۔ ہرچند کہ لارک، ایرانی بحریہ کا ایک اہم مرکز تھا مگر اس کے ایسکلا کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ تھی۔ کسی زمانے میں یہاں یقیناً کوئی شاندار ایسکلا موجود رہا ہوگا کہ جس کی زیریں اور بالائی منزلیں فولادی سریئے اور کنکریٹ کی بجائے بھاری فولادی شہتیروں اور موٹے فولادی پائیوں سے تعمیر کی گئی تھیں۔ مگر سال بہ سال ان کو رنگ و روغن کی تہہ سے محفوظ نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً تمام یا بیشتر فولادی ڈھانچہ سرخ رنگ کے زنگ میں تبدیل ہوکر پورے ایسلکا کے علاقے میں پھیل گیا۔ وہاں اس وقت حالت یہ تھی کہ ایسکلا اور اس کے چاروں طرف کے علاقے کی زمین سرخ رنگ کی تھی کہ اس پر خاصی دبیز زنگ کے پاؤڈر کی تہہ بچھی ہوئی تھی، جو جوتوں پر لگ جاتا تو ان کا بیڑا غرق کرتا تھا اور اگر کپڑوں پر کہیں لگ جائے تو پھر وہ سرخ رنگ کے دھبے کسی چیز سے نہیں چھوٹتے تھے۔ ایسکلا کے اسٹیل پائپ کے بالائی جنگلے کے جو پائپ باقی بچے رہ گئے تھے، ان کو بھی لوگ ہاتھ لگانے سے احتراز کرتے تھے، کہ وہ بھی سخت زنگ آلود تھے۔ اس صورتحال کے پیش نظر میں اس تمام عرصے میں اپنے فیلڈ کے سامان کے بیگ، ہتھوڑے، مینوئل کیمرے اور جمع کردہ پتھروں کے نمونوں کو اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہی گھومتا رہا۔
کشتی کے ناخدا سے سلام دعا کرنے کے بعد میں نے اس سے دریافت کیا کہ اس کشتی پر کون سے حاکم آئے ہوئے ہیں؟ اس نے مختصر جواب دیا کہ ’’میں یہ نہیں بتا سکتا‘‘۔ میں نے پھر معلوم کیا کہ وہ کب تک واپس آجائیں گے؟ اس مرد نیک نے پھر مختصر جواب دیا کہ ’’معلوم نہیں‘‘۔ میں نے اس سے اپنا مختصر سا تعارف کرانے کے بعد سوال کیا کہ کیا تمہارے افسر کے آنے تک میں کشتی میں بیٹھ سکتا ہوں؟ اس نے فوراً جواب دیا کہ ’’نہیں‘‘۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرا سامان ہی کشتی میں امانتاً اس وقت تک کے لئے رکھ لو جب تک تمہارے افسر صاحب نہیں آتے۔ اس پر بھی اس نے فوراً ’’نہیں‘‘ میں جواب دیا۔ اور اس مرتبہ اس کی آواز میں کچھ غصہ اور برہمی بھی شامل تھی۔ پس میں نے اس سے مزید کچھ بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور اوپر آگیا۔ دراصل اس مرد نیک نے مزید کچھ بات کرنے کی کوئی گنجائش چھوڑی ہی نہ تھی۔ اوپر آکر میں نے تیمم کیا کہ ظہر کی نماز ادا کرلوں اور پھر اپنے پرانے رفیق مسلح گارڈ کے پاس گیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس کے پاس جا نماز ہوگی؟ اس مرد نیک نے اثبات میں جواب دیا اور جلدی ہی اپنے کیبن سے جا نماز اور ’’مہر‘‘ لے آیا۔ ایک صاف جگہ پر جا نماز بچھادی اور سجدے کی جگہ مہر رکھ کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ میں نے ظہر اور عصر کی قصر نمازیں ادا کیں۔ میرے نماز پڑھنے کے طریقے اور مہر استعمال نہ کرنے سے اسے معلوم ہوگیا کہ میں سنی ہوں۔ مگر اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ میرے ساتھ اس کے برتاؤ میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ وہ اور بہتر ہوگیا۔
نماز کے بعد گارڈ نے مجھے بڑے دوستانہ انداز میں بتایا کہ بحریہ کی کشتی ٹھیک ہو گئی ہے اور اب وہ ایسکلا کی جانب بڑھ رہی ہے۔ شاید تمہاری مشکل حل ہو جائے۔ میں نے کھلے سمندر کی جانب دیکھا تو بندہ نیک کی بات کو صحیح پایا۔ جنگی کشتی ایسکلا کی جانب بڑھ رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ایسکلا میں داخل ہوگئی۔ مگر اس کے تینوں ناخدا کشتی کے ساتھ بڑے اناڑیوں کے طرح برتاؤ کر رہے تھے۔ کشتی کو اس کے مخصوص مقام پر کھڑا کرنے میں انہیں کوئی پندرہ منٹ لگے ہوں گے۔ کبھی آگے لے جاتے تھے اور کبھی پیچھے اور کبھی ادھر اور کبھی ادھر۔ ان کے سارے انداز اناڑیوں کے سے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ تینوں زیر تربیت افسران ہیں اور کسی تجربہ کار ملاح کے بغیر ہی کشتی لے کر کھلے سمندر میں چلے گئے تھے۔ خیر وہ تینوں بظاہر تھکے ماندے جب اوپر آئے تو میں نے بہ آواز بلند ان کو السلام علیکم کہا اور یکے بعد دیگر تینوں سے مصافحہ کیا اور پھر ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ اب واپس بندر عباس جائیں گے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ آج ہمارا واپس جانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور یہ کہہ کر تینوں اپنی جائے قیام کی طرف چلے گئے۔ مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ ان تینوں صاحبان نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا کہ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟ بہر حال ان کے اس انکشاف سے کہ ان کا واپسی کا کوئی ارادہ نہیں، مجھ حقیر کے اوپر کافی اوس پڑی۔ مگر پھر اس خیال سے تازہ دم ہوگیا کہ ابھی سرکاری محکمے کی کشتی باقی ہے اور مجھے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شریف النفس مسلح گارڈ نے جب یہ دیکھا کہ بحریہ کی کشتی سے میرا واپس چلے جانے کا دروازہ بند ہوگیا ہے تو وہ نیچے لنگر انداز سرکاری کشتی پر گیا اور ڈرائیور سے مجھے بندر عباس لے جانے کی سفارش کی۔ مگر اس شریف آدمی کا جواب پھر نفی میں تھا اور ٹھیک تھا کہ عام اور خاص ہر دو حالات میں کسی سرکاری محکمے کے ڈرائیور کو اس کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ کسی انجان شخص کو اپنے افسر کی اجازت کے بغیر کشتی میں بٹھالے۔ اس واقعے کے بعد کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ شہر کی طرف سے تین آدمیوں کی ایک جماعت ایسکلا کی جانب آتی نظر آئی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ سرکاری کشتی والے ہیں، جن کا مجھے انتظار تھا۔ میں ان کے استقبال کے لئے ایسکلا کے علاقے سے ذرا آگے میدان میں آگیا۔
سلام کے تبادلے کے بعد ان صاحبان سے تعارف ہوا۔ ان سب کا تعلق حکومت ایران کے محکمہ ماہی پروری سے تھا۔ میرے لیے ایک خوش کن اور ہمت افزا بات یہ تھی کہ اس ٹیم کے لیڈر ڈاکٹر اسدی سلیس انگریزی بولنے پر قادر تھے اور مجھ سے انگریزی میں بات کر رہے تھے اس ٹیم کے ممبران حسب ذیل تھے:
1۔ ڈاکٹر اسدی (ڈائریکٹر)۔ ریذیڈنٹ آفیسر علاقہ لارک (نام نوٹ نہ کر سکا)۔ مسٹر علی (چپراسی/ اٹنڈنٹ)۔ مسٹر غلام عباس (موٹر بوٹ ڈرائیور/ ناخدا)۔ (جب تعارف ہو رہا تھا کہ تو یہ صاحب کشتی چھوڑ کر اوپر آگئے تھے) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭