قربانی کے بکرے! (دوسراحصہ)

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اڈیالہ جیل میں ایفی ڈرین کیس کے حوالے سے عمر قید کی سزا بھگتنے والے حنیف عباسی کو سہولیات فراہم کرنے کی پاداش میں محکمانہ انکوائری رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ جیل سعید اللہ گوندل سمیت دیگر پانچ افسران و اہل کاروں کو بالآخر معطل کرکے انصاف کا بول بالا کیا۔ واضح رہے کہ صوبائی حکومت کو پیش کردہ تحقیقاتی رپورٹ پر گزشتہ کالم میں حافظ جی نے بھی اپنے تحفظات ظاہر کئے تھے۔ حکومت کو پیش کردہ تفتیشی رپورٹ پولیس کی روایتی محکمانہ کارکردگی تھی، جس پر ماہرین تو کیا ایک عام آدمی بھی یقین نہیں کر رہا تھا۔ تفتیشی ٹیم آئی جی جیل خانہ جات ملتان ریجن ملک شوکت فیروز اور اے آئی جی (جو ڈیشل) جیل خانہ جات لاہور ملک صفدر پر مشتمل تھی، جنہوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ اپنے پیٹی بند بھائی سپرنٹنڈنٹ جیل سعید اللہ گوندل کو بچایا جا سکے، مگر انہیں اپنے اس منصوبے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
حنیف عباسی تصویر لیکس میں جو رپورٹ مسترد ہوئی، وہ خاصی مضحکہ خیز اور پولیس حکام کی روایتی خانہ پوری سے بھرپور تھی، جس میں سپرنٹنڈنٹ جیل کا منشیات کے خطرناک قیدی کے سہولت کار ہونے کا کوئی تذکرہ ہی نہ تھا، جب کہ پچاس سے زائد چھوٹے اہل کاروں کو اس میں قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ نے پولیس کے محکمے کے اعلیٰ افسران کی تفتیشی کارکردگی کا پول ہی نہیں کھولا، بلکہ بددیانتی اور انصاف کی راہ کھوٹی کرنے کے ان کے عزائم کا پردہ بھی چاک کر ڈالا۔ اصولاً تو اس دو رکنی ٹیم کے لئے بھی کسی سرزنشنی دعوتِ طعام و قیام کا اہتمام وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو کرنا چاہئے تھا، تاکہ آئندہ مفروضہ رپورٹوں کے تخلیق کار ایسی رپورٹیں مرتب کرنے کی جرأت نہ کر سکیں۔ ویسے سپرنٹنڈنٹ جیل کی معطلی بھی ان کے عہدے کی مناسبت سے کوئی سزا نہیں۔ یہ تو ان کا ریسٹ پیریڈ ہوگا، جس میں وہ یہ نئی پلاننگ کریں گے کہ آئندہ کوئی بھی گیم ایسے کھیلا جائے، جس میں پکڑ ممکن نہ ہو۔ اب کون نہیں جانتا کہ معطل سرکاری افسر ہمارے سرکاری نظامِ ملازمت میں بظاہر تو معطل ہوتا ہے، مگر اس کے اثر و رسوخ پوسٹنگ والے ہی ہوا کرتے ہیں اور ملازمین میں وہ ہمدردی کا پروٹوکول بھی پاتا ہے، لہٰذا ضروری تھا کہ سپرنٹنڈنٹ اور ان کے ہرکاروں کو ان کے عہدوں سے معطل کرنے کے بجائے ان کے لئے ایسی سزاؤں کا تعین کیا جاتا، جس سے ان کی اصلاح ہو سکتی، نہ کہ انہیں توڑ جوڑ کے لئے آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ ایک سپرنٹنڈنٹ جیل ہی کیا، ہر محکمے کا بڑا افسر محکمے کے چھوٹوں کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے، اگر وہ معاملات سدھارنے کے بجائے اختیارات کے زعم میں لاقانونیت پھیلائے تو اس کی سزا اس کے عہدے کی مناسبت سے بڑی، کڑی اور عبرت ناک ہونی چاہئے۔
حنیف عباسی جس کیس میں پس زنداں ہیں، جیل حکام بخوبی جانتے ہیں کہ اس کیس کے ڈانڈے کہاںجا کر ملتے ہیں۔ ایفی ڈرین بین الاقوامی مافیا سے جڑا منشیات کی اسمگلنگ کا کیس ہے، جس نے اپنے منطقی انجام تک پہنچنے تک بہت سے روپ بدلے، کبھی پارٹی، کبھی حکومت اور کبھی سابقہ عدالتی اتھارٹیز سے ریلیف حاصل کرکے اس کیس کو لٹکایا جاتا رہا۔ حنیف عباسی اپنی ادویہ ساز کمپنی کے لئے ایفی ڈرین کی حد درجہ بڑی مقدار کے حصول کا اعتراف مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بارہا کرتے رہے اور کلمۂ طیبہ پڑھ پڑھ کر خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کیا کرتے تھے۔ نواز شریف کے سمدھی سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی آمدنی سے زائد اثاثہ جات کا جواب دینے کے بجائے حنیف عباسی کی طرح کلمۂ طیبہ پڑھ پڑھ کر لوگوں کو باورکرایا کرتے تھے کہ انہوں نے قومی خزانے کو ایک پائی کا نقصان نہیں پہنچایا، مگر جب بات عدالت میں ثابت کرنے کی آئی تو وہ بزدلوں کی طرح خاموشی سے وزیر اعظم کے خصوصی طیارے میں بیٹھ کر فرار ہوگئے اور عدالتوں کی بارہا طلبی کے باوجود پاکستان آنے پر تیار نہیں۔ صرف اسحاق ڈار ہی نہیں، ان سے پہلے امریکہ میں متعین سابق سفیر حسین حقانی اور سابق کمانڈو، جنرل پرویز مشرف بھی مقدمات کا سامنا کرنے کے بجائے اداروں اور عدالتوں کو غچہ دے کر ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ عین ممکن تھا کہ حنیف عباسی بھی اسی آپشن کا استعمال کرتے، مگر انہیں یا تو پارلیمنٹ کے پروٹیکشن کا زعم رہا یا پھر وہ معاملے کی نزاکت کو نہ سمجھ سکے۔ آصف علی زرداری کے کاروباری پیر و مرشد امجد مجید بھی ایسی ہی کسی خوش فہمی میں کشاں کشاں پاکستان آکر پھنس گئے۔ اگر انہیں بھی عدلیہ اور مقتدرین کے عزائم کا علم ہوتا تو وہ بھی شاید دیار غیر میں ہی عمر پوری کر دیتے اور کبھی پاکستان نہ پھٹکتے۔
حسین حقانی ہوں یا پرویز مشرف، نواز شریف ہوں یا آصف زرداری، حنیف عباسی یا پھر امجد مجید اور ان کے بیٹے عبد الغنی مجید ان سب کے آسرے وہ قربانی کے بکرے ہیں، جو ان کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ قربانی وہ قربانی ہوتی ہے، جو خلوص اور نیک نیتی سے عاری مفادات کے حصول کے لئے دی جاتی ہے۔ اب بکروں کی دیکھا دیکھی بکریاں بھی اس مفاداتی گیم کا حصہ بن رہی ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے دورۂ جناح اسپتال کے موقع پرجب عبد الغنی مجید کی بابت پوچھا تھا کہ وہ کہاں ہیں تو اسپتال میں موجود قربانی کے کسی بکرے سے کوئی بات نہ بن پڑی تھی، ایسے میں جناح اسپتال کی انتظامی سربراہ محترمہ سیمی جمالی نے قربانی کی بکری بن کر دکھایا اور ہکلاتے ہوئے ایم آر آئی مشین میں لیٹے کسی مریض کو عبد الغنی مجید بتاکر پیپلز پارٹی کا حق نمک ادا کیا۔ چیف جسٹس سیمی جمالی کے اس حوصلے پر دنگ رہ گئے تھے۔ شاید انہوں نے سیمی جمالی کے عورت ہونے کا خیال کیا اور مسکرا کر آگے بڑھ گئے۔ ان کی مسکراہٹ سے واضح تھا کہ انہیں علم ہے کہ ایم آر آئی مشین میں لیٹا ہوا فرد عبد الغنی مجید ہرگز نہیں۔ پھربعد کی کسی سماعت میں انہوں نے سیمی جمالی کی اس بارے میں سرزنش بھی کی تھی۔ اندازہ لگائیے کہ جہاں صورت حال اس حد تک آگے بڑھ جائے کہ بڑے بڑے اداروں کے لوگ اپنے مفادات کے لئے، فراڈیوں، چوروں اور قومی خزانے کو لوٹنے والوں کے لئے پلک جھپکتےقربانی کے بکرے اور بکریاں بن جائیں، وہاں سخت فیصلے وقت کی ضرورت نہ بنیں تو اس ملک کا کیا بنے۔
گستاخی معاف! نواز شریف کی رہائی پر کلف لگے کپڑوں میں اکڑکر ان کے وفاداروں کی حیثیت سے ان کے ساتھ بیٹھنے اور پھر اس تصویر کے لیک ہو جانے پر حنیف عباسی اب اڈیالہ سے اٹک جیل منتقل کر دئیے گئے ہیں۔ ان کی اس منتقلی کے ساتھ ہی اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سعید اللہ گوندل بھی معطل ہوکر قربانی کے بکروں کی فہرست میں اپنا نام درج کرا چکے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے ابھی تک ان پچاس سے زائد بکروں کا مؤقف سامنے نہیں آسکا، جنہیں، ہائی لیول پولیس افسران نے سپرنٹنڈنٹ کو بچانے کے لئے قربان گاہ پہنچانے کا بندوبست کیا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment