زن اور زر کے ساتھ زمین کو بھی دنیا بھر کے مفکرین نے فتنہ و فساد کی جڑ قرار دیا ہے۔ پاکستان میں بڑے بڑے قطعات اراضی، ان پر تعمیر شدہ عظیم الشان محل نما مکانات، کوٹھیوں، زرعی زمینوں اور خالی پلاٹوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ چند بڑے خاندانوں نے پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ کر ملک کے ہر حصے میں زمینوں پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں، جبکہ ایک انسان اپنی زندگی میں چند سو گز زمین کے مکان پر گزارہ کر سکتا ہے اور مرنے کے بعد تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اسے کتنی اور کہاں زمین ملے گی؟ ملے گی بھی یا نہیں؟ قبر کے اردگرد بڑے بڑے مقبرے تعمیر کرا لیے جائیں تب بھی ان کا مرنے والے کو ہرگز کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ مرنے کے بعد اس کے ساتھ صرف اعمال جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں حکمران ٹولے اور اس کے لاڈلے نوکر شاہی کے طبقے نے خود بھی ملک کو خوب لوٹا اور اپنے اعزہ و اقارب کو بھی پورا پورا موقع فراہم کیا، جس کا نتیجہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ ملک کی بائیس کروڑ آبادی کا بک نما فلیٹوں یا کچے پکے مکان میں اس طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے کہ انہیں صاف پانی، بجلی، گیس جیسی ضروریات تو درکنار، قدرتی ہوا اور سورج کی روشنی بھی میسر نہیں۔ دوسری طرف قومی دولت کے لٹیروں نے وسیع و عریض زمینوں پر قبضے کر کے یہ سمجھ لیا تھا کہ کم از کم زمین پر حیات فانی تک تو انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ باقی رہا آخرت کا معاملہ تو اس پر یقین ہو تو کوئی ہوشمند اور صاحب ایمان شخص زمین کی ہوس اور محبت میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتا۔ دنیاوی زندگی کو سب کچھ سمجھنے والے اس بات پر یقین و ایمان رکھتے ہیں کہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ لیکن اب یہ لوگ مکافات عمل کے تحت قانون قدرت کی پکڑ میں آئے تو انہیں چھٹی کا دودھ یاد آرہا ہے۔ وہ تمام حقائق سامنے آنے کے باوجود اب بھی جھوٹ بولنے، دھوکا دینے، اپنے آپ کو بے گناہ و معصوم باور کرانے اور جھوٹی قسمیں کھانے سے باز نہیں آئے۔ ادھر ادھر بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں۔ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے کے مصداق گرفتار ہونے اور جیل کاٹنے کو تیار ہیں، لیکن مقبوضہ زمینیں اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت لوٹانے کے لیے تیار نہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کے گرد شکنجہ سخت کر دیا ہے تو تحقیقاتی ادارے بھی فرض شناسی دکھانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے متحدہ عرب امارات کے تعاون سے دوبئی میں دو ہزار سات سو جائیدادیں بنانے والے ڈیڑھ ہزار افراد کی طلبی شروع کر دی ہے۔ مال و دولت اور جائیداد و املاک کی بہتی گنگا میں صرف ہاتھ دھونے والے نہیں بلکہ اشنان کرنے والوں میں شریف خاندان کے افراد، لیگی رہنمائوں کے علاوہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے افراد بھی شامل ہیں۔ ان سب کے حلف نامے اور دیگر ریکارڈز سپریم کورٹ میں پیش کئے جائیں گے۔ حلف ناموں میں غلط بیانی کرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا اور ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں گے۔
باخبر ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے طلب کئے جانے والے مالی دہشت گردوں میں پانچ سو بڑی مچھلیاں یا مگرمچھ شامل ہیں۔ ان میں سے تین سو کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ یاد رہے کہ جوڑ توڑ کے بادشاہ اور ان کی ہمشیرہ سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں تحقیق و تفتیش کے سخت مراحل سے گزر رہی ہیں۔ ان کی جائیدادوں اور اثاثوں کے تانے بانے کہیں نہ کہیں بے نظیر بھٹو کے ادوار حکومت سے جا ملتے ہیں جب ان کے شوہر آصف علی زرداری نے پہلے مسٹر ٹین پرسینٹ کی حیثیت سے لوٹ مار کا بازار گرم کرنا شروع کیا تھا، جس کے بعد ترقی کرتے کرتے وہ مسٹر سینٹ پرسینٹ قرار پائے۔ ان کے وکیل لطیف کھوسہ فرماتے ہیں کہ اسے چھیڑنے کا مقصد بے نظیر بھٹو کی قبر کا ٹرائل کرنا ہے، جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ البتہ لوٹ کے مال کی تحقیق و تفتیش ضروری ہے، جس سے استفادہ کرنے والوں نے ملک اور اس کے عوام کو بدترین اقتصادی زبوں حالی سے دوچار کر دیا ہے۔ چھاج بولے سو بولے، چھلنی بھی بولنے لگی کے اصول پر بلاول بھٹو زرداری بھی پوچھ رہے ہیں کہ ان کے خاندان سے پرانا حساب کتاب کیوں طلب کیا جارہا ہے۔ پلٹ کر ان سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ انہوں نے پاکستان میں کتنا عرصہ گزارا ہے۔ ان کی ساری عمر تو مغربی ممالک میں رہ کر عشق بتاں میں کٹی اور اب وہ پاکستانی ورثے میں مال و اسباب اور جائیداد و املاک ہی نہیں، عوام کی گردنوں پر بھی مسلط ہونا چاہتے ہیں۔ آصف علی زرداری ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرنے کے علاوہ افواج پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ آئندہ کسی وقت خود آصف علی زرداری ملک کے صدر اور ان کے لاڈلے صاحب زادے وزیراعظم ہوں گے۔ گویا پاکستان بھی لوٹی ہوئی دولت کی مانند ان کی خاندانی جاگیر ہے، جس کے ورثا میں آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، بیٹا بلاول بھٹو زرداری اور خاندان کے دوسرے افراد شامل ہوں گے۔ یوں تو قومی وسائل کو لوٹنے والوں میں شریف اور زرداری خاندان سب سے زیادہ پیش رہے ہیں، لیکن حکمران جماعت پی ٹی آئی سمیت شاید ہی کسی سیاسی پارٹی اور اس کے رہنمائوں کا دامن صاف ہو۔ بیوروکریسی کے علاوہ قبضہ مافیا کے شہنشاہ ریاض ملک، دیگر کئی شخصیات اور ادارے زمینوں کی ناجائز الاٹمنٹ کے ذریعے ملک کو اربوں کھربوں روپے کا نقصان پہنچا چکے ہیں۔ سرکاری اور غریبوں کی نجی زمینوں پر قبضے کر کے وہاں مہنگی رہائشی اسکیموں کی شہرت رکھنے والے ملک ریاض کو کوئی کیا کہے، جبکہ یہاں تو ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے نام پر اربوں کا فراڈ کرنے کے سلسلے میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے داماد مرتضیٰ امجد بھی دوبئی سے گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس خاندان کے دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے کینیڈا سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان بھی اسکینڈل میں ملوث ہونے کی بنا پر گرفتار کئے جا سکتے ہیں۔ انسانی قانون کی گرفت سے تو شاید کوئی بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائے، لیکن جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو سورۃ رحمن میں قرآن کا فرمان ہے کہ ’’اے گروہ جن و انس، اگر تم زمین اور آسمان کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو۔ نہیں بھاگ سکتے اس کے لیے بڑا زور چاہئے۔‘‘ (جو یقینا تمہارے پاس نہیں ہے)۔ دوبئی، امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے تو انسانی کارندے ہی تمہیں گردنوں سے پکڑ کر لاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ خود نیک نیت اور فرض شناس ہوں۔ ٭
٭٭٭٭٭