قربانی کے بکرے ! (تیسرااورآخری حصہ)

قصہ مختصر، حنیف عباسی تصویر لیکس کا معاملہ ایسے اعلیٰ پولیس افسران کا نقاب اتار گیا، جن پر عوام اور اداروںکا اعتماد ہونا چاہئے۔ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ہاتھی جیسے جرم کا ارتکاب کیا، مگر اسے معطلی کی جو سزا ملی، وہ ہاتھی کی دم جیسی ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے ذمہ دار اگر اپنے فرائض سے روگردانی کریں یا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو وی آئی پی کی تکریم دیں تو معمولی کارروائی کر کے معاملے کو درگزر ہرگز نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اس کے پیچھے پنپنے والی کہانیاں تلاش کرنی چاہئیں۔ سپرنٹنڈنٹ جیل اڈیالہ، سعید اللہ گوندل صرف حنیف عباسی کا سہولت کار ہی نہیں بنا، بلکہ اس نے اپنے بچاؤ کے لئے محکمے کے پچاس سے زائد اہل کاروں کو بھی اپنے کئے پر بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی اور قانون سے کھلواڑ کرکے قوم کو مایوس کیا۔
مذکورہ واقعے میں سپرنٹنڈنٹ جیل کو بچانے کی سعیٔ لاحاصل میں شریک پولیس افسران پر مشتمل دو رکنی کمیٹی بھی اس حوالے سے برابر کی جواب دہ ہے، جس نے قانون و انصاف کو موم کی ناک جانا۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب! صرف اس کمیٹی کی رپورٹ مسترد کر دینے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو جاتے۔ اگر آپ انصاف کا بول بالا کرکے مثال ہی قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ابتدائی کارروائی کے بعد اب خاموش ہوکر نہیں بیٹھ جانا چاہئے، بلکہ معاملے کو انتہا تک پہنچا کرعوام کے اعتماد کو بحال کرنا چاہئے۔ یہ بات کوئی ذی ہوش تسلیم نہیں کرے گا کہ پولیس افسران کی تحقیقات پولیس افسران ہی کریں اور ان کے حق میں فیصلہ دے دیں۔ پولیس کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ کتنی ایماندار اور غیر جانبدار ہے۔ اب آپ کو متعلقہ تحقیقاتی کمیٹی کی جوڈیشل انکوائری کرانی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ آخر پتہ تو چلے کہ انکوائری کمیٹی کس کی سفارش پر بنی اور اس نے کس کے دباؤ میں آکر انصاف کا گلہ گھونٹنے کا اقدام کیا۔ جناب اعلیٰ! تفتیش ان معمولی اہل کاروں سے بھی ہونی چاہئے، جنہیں جرم کا مرتکب قرار دے کر قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی گئی، ان سے بھی پوچھا جانا چاہئے کہ انہیں کن یقین دہانیوں پر، کس نے شاہ کی وفاداری کا طوق اپنے گلے میں لٹکانے پر مجبور کیا اور کس کے خوف سے وہ اپنی زبان نہ کھول سکے؟
حکومتی اور انتظامی طورپر حنیف عباسی تصویر لیکس معاملے کو اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی، مگر ذمہ داران نہ بھولیں کہ یہ معاملہ رستے ہوئے اس زخم کی طرح ہے، جس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو وہ ناسور کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ کشتی میں ہونے والے سوراخ کو اگر بروقت بند نہ کیا جائے تو وہ بڑھ کر قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور کشتی کو سواروں سمیت غرق کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے حکمراں اور اداروں کے ذمہ دار مصلحتوں میں الجھ کر ہمیشہ کڑے احتساب سے اجتناب کرتے ہیں، چنانچہ چھوٹے مسائل بڑی مصیبتوں کی صورت آئے دن نازل ہوتے رہتے ہیں۔ حنیف عباسی انسداد منشیات کی عدالت سے ایفی ڈرین کی اسمگلنگ کے سنگین کیس میں عمر قید کا سزا یافتہ قیدی ہے، تو پھر وہ نواز شریف کی جیل سے رہائی پر اتنے آزادانہ انداز میں اکڑ کر ان کے ساتھ کیسے بیٹھا اور اسے یہ سہولت کس نے اور کیوں دی؟ سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں حنیف عباسی کو ہی آزادی نہیں تھی اور بھی بہت کچھ تھا، جس تصویر کے ذریعے کھلبلی مچی، وہ کس طرح بن گئی، جب کہ اڈیالہ تو حساس نوعیت کی جیل ہے، جہاں موبائل کا استعمال ہی ممنوع ہے تو پھر وہاں نواز لیگ کے لوگ موبائل فون کیسے لے گئے اور پھر جیل میں تو موبائل جیمرز لگے ہوتے ہیں، لہٰذا ذمہ داران سے پوچھا یہ بھی جانا چاہئے کہ جیمرز کس نے کیوں اور کن مقاصد کے لئے آف کرائے اور تصویر بنا کر کیوں کر باہر سینڈ کی گئی؟ یہ واقعہ پنجاب حکومت ہی نہیں، بلکہ خود عمران خان کی وفاقی حکومت کے لئے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر حساس قسم کی جیل کا یہ حال ہے تو سپرنٹنڈنٹ جیل اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اور کیا کیا کرتا رہا ہوگا۔ حنیف عباسی جس کیس کا مجرم ہے، اس کے ڈانڈے بین الاقوامی منشیات مافیا سے ملتے ہیں، پھر تو اغلب ہے کہ جیل سپرنٹنڈنٹ حنیف عباسی کو اس کی فرمائش پر عالمی منشیات مافیا سے بھی رابطے کراتا رہا ہوگا۔
حنیف عباسی تصویر لیکس کے معاملے میں سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہئے، کیوں کہ نواز شریف کی رہائی کے موقع پر تصویر انہوں نے اپنے موبائل فون سے بنا کر اپنے بیٹے کو سینڈ کی، جس نے اسے سوشل میڈیا پر وائرل کیا۔ مرتضیٰ عباسی سے پوچھا جائے کہ انہیں یہ اجازت کس نے اور کیوں دی؟ مرتضیٰ جاوید عباسی، آصف کرمانی، حنیف عباسی سمیت اور کئی لیگی ایسے ہیں جو نواز شریف کی خوشنودی اور ان کی نظروں میں آنے کے لئے مضحکہ خیز قسم کے کام سر انجام دیتے ہیں۔ حافظ جی کی نظر سے وہ منظر نہیں بھولتا، جب پاناما کیس میں نواز شریف اور ان کے بچوں کی پیشی پر سینیٹ کا ایک معزز رکن ہوتے ہوئے آصف کرمانی کسی ٹریفک سارجنٹ کی طرح سڑک پر کھڑے ہوکر ان کی گاڑیوں کو ڈائرکشن فراہم کر رہے تھے، کبھی وہ نواز شریف اور ان کے بچوں کی تقریروں کے اسکرپٹ تھامے ان کے دائیں بائیں کھڑے پائے جاتے تھے اورکچھ نہیں تو موصوف نواز شریف کی پریس کانفرنس کے دوران باربار اپنی سیٹ سے اٹھ کر ان کا مائیک ہی درست کرنے لگتے تھے تاکہ کسی بھی طرح ہمدردی کرنے والوں کی حیثیت سے نواز شریف کی نظروں میں رہ سکیں۔ آصف کرمانی کے علاوہ نواز فیملی کے ہجوم خوشامداں میں مرتضیٰ جاوید عباسی، دانیال عزیز، طلال چوہدری، نہال ہاشمی، مریم اورنگزیب، مشاہد اللہ خان، مشاہد حسین سید، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق اور حنیف عباسی سرِ فہرست ہیں۔نواز شریف فیملی چاہے تو انہیں کسی بھی وقت قربانی کے بکروں کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ خیر بات کہیں اور نکل جائے گی، لہٰذا حافظ جی اجتناب کرتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی حنیف عباسی اور دیگر قیدیوں کو جیل انتظامیہ کی جانب سے ریلیف دیئے جانے کی، ایسا ریلیف ان جیلوں کی انتظامیہ کسی عام قیدی کو خواب میں بھی نہیں دے سکتی، جیسا ریلیف نواز شریف اور ان کی بیٹی اور داماد کو بیگم کلثوم نوازکے انتقال پر دیا گیا۔
باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ نواز شریف ان کی بیٹی اور داماد جب تک اڈیالہ جیل میں رہے، ان کے ساتھ جیل حکام نے نوازشات کا سلسلہ جاری رکھا۔ نواز شریف کی رہائی کی خبر بھی اڈیالہ جیل میں موجود بااثر قیدی حنیف عباسی کو پولیس حکام نے خود پہنچائی اور پھر اس خوشی کو سیلیبریٹ کرنے کے لئے جیل کے جیمرز سسٹم کو بند کرکے نواز شریف کے فرمائشی پروگرام پر انہیں جیل سے ہی فون پر متعدد افراد سے بات کرنے کی سہولت فراہم کی گئی، اب بات نکلتی ہے تو اس بات کی بھی بازگشت ہے کہ نواز شریف کی اسیری کے دوران بھی جو لوگ ان سے ملاقات کرنے آتے تھے، جیل قوانین کے بر خلاف ان لوگوں کو موبائل فون سمیت ملاقات کی اجازت دی جاتی تھی، شریف فیملی اور حنیف عباسی بھی اگر باہر کسی کو فون کرنے کی فرمائش کرتے تو ان کے لئے جیمر بند کئے جاتے تھے۔ جیل حکام کی جانب سے ان قیدیوں کو انٹرنیٹ کی ڈیوائسز تک فراہم کئے جانے کی اطلاعات ہیں، بلکہ انہیں یہ ایڈوائس تک جیل حکام کی جانب سے دی جاتی تھی کہ وہ وٹس ایپ پر بات کریں تاکہ ان کی گفتگو ریکارڈ پر نہ آسکے۔ زیادہ تر ملاقاتیں جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں ہی کرائی جاتی تھیں، جس میں ملاقاتیوں کے لائے گئے پکوان اور مٹھائیوں سے لطف اندوز ہوا جاتا تھا۔یہ رویہ ہے محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام کا، بلا شبہ ہمارا محکمۂ پولیس سیاست دانوں کا سیاسی ادارہ ہے اور اس کے بیشتر بڑے افسران بکاؤ سیاسی مہرے ہیں۔ ان کی آمدن اور اثاثوں۔ ان کے طرز رہائش پر حکومت اور عدلیہ کو بذریعۂ نیب ایک سخت قسم کے احتسابی ایکشن کی ضروت ہے، لیکن صد افسوس کہ اس اہم مسئلے پر ہمارے تمام ذمہ اداروں کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ انہیں بھی! جو انصاف اور مساوات کا نعرۂ مستانہ لگا کر اقتدار میں آئے ہیں، مگر اب ان کی بھی آنکھیں اصل اور بنیادی مسائل دیکھنے سے قاصر ہیں، انہیں فکر ہے تو یہ کہ پرائم منسٹر ہاؤس میں موجود گاڑیاں کتنے میں فروخت ہوں گی اور چھ یا آٹھ بھینسوں کی فروخت سے کتنی آمدنی ہوگی وغیرہ!
گستاخی معاف! خدا کے بندو! اقتدار ملا ہے تو مخلوق خدا کے کام آؤ انہیں ان کا حق دلاؤ اور عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو نشان عبرت بنانے کی سعی کرو، ایسا کرو گے تو تاریخ میں امر ہو جاؤ گے۔ حکومت کا کیا ہے، یہ بہت چلی تو پانچ سال نہ چلی تو صبح وصال۔ انصاف اور برابری کی وہ مثال قائم کرو، جو عوامی سطح پر ہوتی بھی نظر آئے۔ کیونکہ کام اسی کو کہا جاتا ہے جو ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ پولیس کا محکمہ معاشرتی برائیوں کا منبع ہے، ٹھیک ہے تم فی الفور اس گند کو صاف نہیں کر سکتے، مان لیا، مگر ابتدا تو کر ہی سکتے ہو، کوئی نوٹس کوئی وارننگ اس سے اجتناب کیوں؟ تمہارے پاس اختیار ہے جن کاموں کو کرنے کے لئے عوام نے تمہیں مینڈٹ دیا ہے، وہ کام کرو، ورنہ سابقہ حکمرانوں کے طنزیہ فقرے اور حافظ جی سے کھری کھری سننے کے لئے تیار رہو۔ (وما توفیقی الاباللہ)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment