اللہ بس، باقی ہوس!

قومی دولت کے لٹیروں سے احتساب کا عمل کم و بیش دو سال سے جاری ہے۔ کئی مقدمات سپریم کورٹ میں بھی زیرسماعت رہے اور ہیں، لیکن آج تک کسی ایک بھی بڑے مجرم کو سزا ہوئی ہے نہ اربوں ڈالر کی لوٹی ہوئی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی جا سکی ہے۔ عدالتوں میں کچھ مقدمات زیرسماعت ہیں اور بہت سے مقدمات ابتدائی تحقیق و تفتیش کے مراحل میں ہیں۔ بڑے بڑے قومی لٹیرے چونکہ سابقہ حکومتوں کے سربراہوں، ان کے چہیتے، نوکرشاہی کے اہلکاروں اور اعزہ و اقارب سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے کوئی گرفت میں نہیں آتا، تو کوئی جیل جاکر بھی ضمانت پر چھوٹ جاتا ہے۔ کئی ایک نے پاکستان کی لوٹی ہوئی رقوم سے بھاری معاوضوں پر وکیل کر رکھے ہیں، جو اگر مقدمات جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کم از کم انہیں الجھانے اور طول دینے کی مہارت ضرور رکھتے ہیں۔ اہل وطن نے اعلیٰ عدالتوں سے بڑی توقعات وابستہ کر لی تھیں، جو بعض معمولی معاملات میں تو ازخود نوٹس لے کر مقدمات کو جلد از جلد نمٹا دیتی ہیں، لیکن ملک و قوم کو چاروں ہاتھ، پیروں سے لوٹ کر دولت بیرون ملک لے جانے، فرار ہو جانے اور اندرون ملک بھی بے شمار اثاثے رکھنے والوں کے بارے میں ٹھوس ثبوت و شواہد سامنے آنے کے باوجود تحقیقات پر تحقیقات اور سماعت پر سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں کوئی حقیقی مجرم آج تک انجام کو پہنچا، نہ قومی خزانے میں اتنی دولت واپس آئی کہ بیرونی قرضوں کی قسطیں ہی ادا کی جا سکیں اور ملک کو مزید قرضے اور امداد لینے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ گزشتہ چار، پانچ عشروں سے ملک کی سیاست اور معیشت پر مسلط دو خاندانوں کی لوٹ کھسوٹ کا چرچا ہوتا رہا۔ حسن اتفاق سے ان دنوں یہ دونوں خاندان قومی سیاست سے تقریباً باہر ہو چکے ہیں۔ صرف ایک خاندان کی جڑیں ملک کے دوسرے بڑے اور تجارتی و صنعتی طور پر سب سے مستحکم صوبے میں اب تک پیوست ہیں۔ اس کے باوجود وفاقی حکومت کی مضبوط انتظامی گرفت، افواج پاکستان کی طاقت اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے کسی بھی چور، لٹیرے اور ڈاکو سے قومی دولت اگلوا لینا ہرگز کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ صرف تینوں اداروں کے اتفاق و اتحاد، عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ کسی ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے اگر مگر اور چونکہ چنانچہ سے کام نہیں چلتا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی ایمان و عمل کی سختی درکار ہے۔ عوام نے سپریم کورٹ سے اور سپریم کورٹ نے نیب (قومی احتساب بیورو) سے بڑی توقعات وابستہ کر لی تھیں کہ قاتلوں اور لٹیروں کے خلاف کارروائیاں بڑی تیز رفتاری سے جاری رہ کر جلد ہی منطقی انجام کو پہنچ جائیں گی۔ اب جبکہ ماضی کی دو سب سے زیادہ بدعنوان سیاسی جماعتوں کا کچھا چٹھا سامنے آچکا ہے، ان کی حکومتیں بھی باقی نہیں رہیں اور سب کے بلاامتیاز کڑے احتساب کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے، جسے کسی طاقتور حزب اختلاف کا سامنا بھی نہیں، اس کے باوجود قومی معیشت کی بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ صدر، گورنر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے ایوانوں کو عوام کے لیے کھول دینے، گاڑیاں اور بھینسیں فروخت کر دینے سے ملک کی اقتصادی صورت حال تبدیل نہیں ہو سکتی۔
نئی حکومت بھی بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضرورت کے نرخوں میں اضافہ کر کے اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ لاد کر عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے وعدے اور دعوے کررہی ہے۔ قومی معیشت شدید بحران سے دوچار ہے، اسے درست پٹری پر لانے کے لیے سب سے پہلے لٹیروں سے لوٹی ہوئی رقم نکلوانے کی ضرورت ہے، لیکن کسی میں یہ پہلا قدم اٹھانے کی بھی ہمت و جرأت نہیں، اس لیے ٹیکس بڑھانے اور قرضے لینے کی وہی گھسی پٹی راہ اپنانے پر غور ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا اعلان کرنے والے وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی معیشت کے آئی سی یو میں ہونے اور اس کے بائی پاس آپریشن کے کامیاب ہونے کی توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے بعد ہماری معیشت ٹریک پر آکر دوڑے گی۔ انہوں نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کو معمول کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ امریکا کی سرپرستی میں کام کرنے والے اس سودخور عالمی مالیاتی ادارے سے فی الحال بیل آئوٹ پیکیج لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، تاہم یہ مذاکرات نئے قرض کی بنیاد پر ہوں گے۔ سبحان اللہ۔ انہوں نے بھی اپنے قائد کی ’’یوٹرن‘‘ پالیسی کو جاری رکھنے کا ایک نیا رخ اختیار کرتے ہوئے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان نے نوجوانوں کو آگے لانے اور ان کے ذریعے قوم کو بہت کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ان کے وزیر خزانہ نے یہ کہہ کر نوجوانوں کی اور قوم کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے کہ نوجوان قیادت اگلے سال آنے والے بوجھ کے بارے میں سوچے۔ گویا نوجوان بوجھ لادنے کے طریقے سوچیں، حکومت عملدرآمد کرائے اور قوم اسے برداشت کرنے کے لیے تیار رہے۔ اسے کہتے ہیں تحریک انصاف کی طرز کی تبدیلی۔ ادھر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے احتسابی عمل پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ حکومت اور عدلیہ دونوں نے احتساب کا نعرہ لگایا، لیکن تاحال اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ میں تو آج تک احتساب کے حوالے سے نتائج نہیں دے سکا۔ سپریم کورٹ کے ماتحت رہ کر کام کرنے والے ادارے نیب کے بارے میں چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک کیس بھی انجام تک نہیں پہنچایا، اس کا ڈھانچا بدلنا ہوگا۔ نیب نے صرف بڑی بڑی خبریں چلوائیں۔ فواد حسن فواد اور احمد چیمہ کے کیس کا کیا بنا؟ ہم نے نیب کی پوری طرح حمایت و مدد کی، اس سے زیادہ عدلیہ کیا کرے۔ ایک نیب ہی پر کیا موقوف، ملک کے سارے عدالتی نظام سے عوام کا سوال ہے کہ جن چھوٹے بڑے لٹیروں کے نام مشہور ہو چکے ہیں، ان کی فہرستیں تیار کر کے عدالتوں میں پیش کی جا چکی ہیں، لوٹی گئی دولت کی تمام تفصیلات ثبوت و شواہد کے ساتھ سامنے آگئی ہیں اور بیرونی ممالک بھی لٹیروں اور ان کے کوائف کو حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں تو پھر دیر کس بات کی ہے؟ فوج سے مدد لے کر ان سب کو حراست میں لیا جائے اور اس وقت تک باہر نہ آنے دیا جائے جب تک وہ قوم کی ایک ایک پائی واپس نہ کر دیں۔ اس قومی فریضے میں عوام تو رکاوٹ بننے سے رہے، بلکہ وہ تو خود اپنے خون پسینے کی کمائی واپس لانا چاہتے ہیں۔ رکاوٹ بننے والے آخر کون ہیں؟ وہی لوگ جو عام شہریوں سے کہیں زیادہ عیش و عشرت اور آسائش و مراعات کی زندگی گزار رہے ہیں اور جو پوری قوم کو نظر بھی آرہے ہیں۔ کیا ان مظلوموں اور بے کس و بے بس عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا انتظار ہے؟ لیکن یاد رہے کہ اس کے بعد کچھ نہ بچے گا۔ بس اللہ کا نام باقی رہے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment