ڈاکٹر صابر حسین
آج کا سچ یہ ہے کہ ہم لوگ ہمیشہ سے نیلی روشنی کی پوجا کرنے والوں میں سے ہیں۔ نیلی روشنی کو سیوا کرنے والوں میں سے ہیں۔ صدیوں سے ہماری یہ عادت رہی ہے کہ ہم اپنے آنگن کی پیلی روشنیاں بُجھا بُجھاکر آسمان نیلی روشنی کے انتظار میں سر جھکائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہماری فطرت میں، ہمارے خون میں ، ہماری Genes میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور اپنی مدد آپ کرنے اور اپنی تقدیر خود بدلنے اور سنوارنے کے DNA ہیں ہی نہیں۔ ہمارے خِطّے، ہمارے علاقے، ہماری زمین میں وہ تاثیر ہی نہیں کہ ہم اپنی خودی کو آسمانی بُلندی کے Level تک لے جاسکیں اور خود کو لینے والوں کی فہرست سے نکال کر دینے والوں کی صف میں کھڑا کر سکیں۔
یہ نہیں کہ محض آج کا سچ یہی رہا ہو۔ ماضی کی تصویروں میں بھی کچھ اِسی طرح کی عکاسی جھلکتی ہے۔ ہماری زمین کا اپنا آسمان نہیں۔ نہ آج ہے اور نہ کبھی رہا ہے۔ ہمارے پہاڑوں، ہمارے دریائوں، ہمرے میدانوں، ہمارے صحرائوں، ہمارے جنگلوں اور ہمارے سمندروں کے سروں پر چلنے والی ہوا کی تاثیر سُلانے والی ہے، اِس ہوا میں تخلیق اور تعمیراور خیال کے بیج نہیں۔ ہم صدیوں سے مانگے تانگے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
زمین کے سِوا ہماری اپنی کوئی چیز نہیں۔ جانے کتنی قوموں، کتنے قبیلوں، کتنے رنگوں، کتنی نسلوں، کتنی زبانوں کی آمیزش نے ہماری فطرت، ہماری شخصیت اور ہماری نفسیات کو ترتیب دیا ہے۔ ہمارے اندر ہمار ا اپنا، کچھ خالص، کچھ ذاتی کچھ بھی نہیں اور چونکہ ہمارے اندر ہماری اپنی ذاتی، خالص کوئی شے نہیں۔ تو خودی کہاں سے آئے گی۔ ہماری Genes جب ہماری نہیں تو ہم کیونکر خود اپنے آپ کے ہوسکتے ہیں اور جب ہم اپنے آپ کے نہیں تو ہم کو نہ اپنی قدر ہے اور نہ اپنی وقعت کا اندازہ۔ اور جب ہمارے نزدیک ہماری اپنی کوئی Value نہیں تو پھر کِسی کی بھی Value نہیں۔ نہ کِسی اپنے کو نہ کِسی پرائے کی۔ نہ کِسی شے کی نہ کِسی نظریے کی۔ نہ اخلاقی اقدار کی نہ معاشرت اطوار کی۔ نہ دین کی نہ مذہب کہ۔
ہمیں تو ہر شے مُفت میں چاہئے اور وہ بھی ایک نہیں۔ ایک کے بعد ایک اور۔ دو نہیں چار۔ اور کبھی کبھی تو چار چار بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ کچھ کہے بغیر سب کچھ پورا ہو رہا ہے۔ تو یہی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ خودی، مٹّی کے ڈھیر میں دفن ہوتی چلی جاتی ہے۔ خود نمائی اور خود غرضی اور خود پسندی کے کونو کارپس کے جنگلی اور پیاسے پودے چند مہینوں چند سالوں میں تنا ور درخت بنتے چلے جاتے ہیں۔