حسنین کریمینؓ کی محبت جزو ایمان ہے (آخری حصہ)

عبد المالک مجاہد

ایک دن رسول اکرمؐ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ سجدے میں گئے تو سیدنا حسنؓ کھیلتے ہوئے آئے اور نانا محترم کو دیکھاکہ سجدے میں گئے ہیں تو اپنے نانا کی پشت پر سوار ہو گئے۔
معزز قارئین! کائنات نے اس سے زیادہ محترم، خوبصورت سوار اور سواری نہ دیکھی ہوگی۔ رسول اقدسؐ کی اپنے پیارے اور لاڈلے نواسے کے ساتھ محبت کو ملاحظہ کیجیے کہ آپؐ نے اپنے سجدے کو طویل کردیا کہ بچہ کھیل رہا ہے۔ پھر جب اپنی مرضی سے سیدنا حسنؓ آپؐ کی پشت مبارک سے نیچے اترے تو آپؐ نے اپنا سر مبارک سجدہ سے اٹھایا۔ نماز مکمل فرمائی تو صحابہ کرامؓ نے نہایت ادب سے عرض کی: حضور! آج آپ نے خلاف معمول بہت لمبا سجدہ کیا ہے؟! فرمایا: میرے اس بیٹے نے میرے سجدے کو لمبا کر دیا۔ یہ میری پشت پر سوار ہوگیا۔ میں نے جلدی کرنا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے اسے موقع دیا کہ وہ کھیل لے اور جب وہ اپنی مرضی سے نیچے اترے تو میں نے اپنا سر سجدے سے اٹھایا۔
قارئین کرام! ذرا غور فرمائیں کہ نانا جان محترمؐ اور پیارے نواسے کے درمیان کس قدر محبت اور پیار ہے، وہ آپس میں کتنے مانوس ہیں۔ بچوں کے ساتھ یہ محبت اور پیار ایک دن کی بات نہیں ہوتی، بلکہ یہ مسلسل محبت و شفقت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مسجد نبویؐ نے ایک منظر اور بھی دیکھا کہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اپنے گھر سے مسجد نبویؐ میں داخل ہوئے ہیں۔ رسول اقدسؐ کے یہ دونوں پھول، سرخ رنگ کے لباس پہنے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اپنے نانا محترمؐ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
کائنات کے امامؐ اس وقت منبر پر تشریف فرما ہیں۔ آپؐ خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں۔ لوگ ان معصوم بچوں کے لیے راستہ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ آپؐ نے دونوں نواسوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو آپؐ نے خطبہ چھوڑ دیا، منبر سے نیچے اترے اور اپنے نواسوں کو اپنے مبارک ہاتھوں میں اٹھا لیا۔ ارشاد ہوا: حق تعالیٰ کا فرمان بلا شبہ سچ ہے: (ترجمہ) ’’ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔‘‘ میں نے اپنے نواسوں کو دیکھا تو صبر نہ کر سکا۔
قارئین کرام! یہ بات بتانے اور لکھنے کی ضرورت نہیں کہ رسول اقدسؐ ان کو چومتے، پیار کرتے اور اپنے سینے سے لگا تے رہے، پھر دوبارہ منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے خطبے کو مکمل فرمایا۔
یہاں ایک اور قابل غور وفکر بات ہے کہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ آپؐ کے پوتے نہیں، نواسے ہیں۔ آپؐ کی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کی اولاد ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بیٹی کو عار سمجھا جاتا تھا، اسے زندہ در گور کر دیا جاتا تھا۔ رسول اقدسؐ بیٹی کو کتنا مرتبہ اور مقام دیتے ہیں کہ اس کے بیٹوں کے متعلق فرما رہے ہیں: ’’یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔‘‘
امام احمدؒ فضائل الصحابہ میں یعلیٰ عامریؓ سے روایت کرتے ہیں: ایک مرتبہ ایک دعوت پر رسول اقدسؐ کے ساتھ میں بھی تھا۔ نبی کریمؐ سب ساتھیوں کے آگے آگے چل رہے تھے۔ آپؐ کے پیارے نواسے حسینؓ راستے میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ رسول اقدسؐ نے انہیں پکڑنا چاہا تو بچے نے آپؐ کی گرفت سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگنا شروع کر دیا۔ نبی اکرمؐ انہیں ہنساتے رہے، حتیٰ کہ انہیں پکڑ لیا۔ آپؐ نے اپنا ایک دست مبارک سیدنا حسینؓ کی گردن کے نیچے رکھا اور دوسرا ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر انہوں دونوں ہاتھوں میں قابو کرکے ان کا بوسہ لے لیا۔ ساتھ ہی آپ نے فرمایا: ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، الٰہی! حسین سے محبت فرما، حسین نواسوں میں ایک شان وعظمت والا نواسہ ہے۔‘‘
اس واقعے میں سیدنا حسین بن علیؓ کی شان وعظمت بہت واضح ہے۔ گویا کہ آپؐ کو وحی کے ذریعے آنے والے حالات کی خبر دے دی گئی اور آپؐ نے حسینؓ سے محبت کرنے کی تاکید فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’حق تعالیٰ اس سے محبت کرے جس نے حسینؓ سے محبت کی، کیونکہ حسینؓ کی محبت رسول خداؐ کی محبت کا ذریعہ ہے اور رسول خداؐ کی محبت خدا کی محبت کا ذریعہ ہے۔ ‘‘
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ رسول اکرمؐ کی وفات کے بعد سیدنا بلالؓ نے اذان کہنی چھوڑ دی تھی۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ اب میں اذان میں حضور کریمؐ کا اسم مبارک لیتے وقت کس کے چہرے کی طرف دیکھوں گا! اس کے بعد صرف دو موقعوں پر اذان دی۔ پہلی مرتبہ آپؓ نے اس وقت اذان کہی جب سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں سرحدوں پر تشریف لے گئے اور جہاد میں مشغول ہوگئے۔ سیدنا عمر فاروقؓ جابیہ تشریف لے گئے تو ان کی درخواست پر انہوں نے اذان کہی۔ جب صحابہ کرامؓ نے سیدنا بلالؓ کی اذان کی آواز سنی تو رونے لگے۔ دوسرا موقع وہ تھا جب وہ مدینہ تشریف لائے اور سیدنا حسنؓ اور حسینؓ نے ان سے اذان کے لیے کہا۔ جب انہوں نے اذان دی تو مدینہ میں کہرام مچ گیا۔ مرد، خواتین اور بچے روتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے۔ یہ دونوں مواقع رقت انگیز تھے۔
سیدنا طلحہؓ نے اپنی زندگی میں مختلف اوقات میں کئی شادیاں کیں۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سیدنا ابو بکرؓ کے داماد تھے۔ ان کی بیٹی ام کلثومؓ ان کے عقد میں تھیں۔ ان کی متعدد بیویوں سے دس بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ان کی اولاد کئی نسلوں تک بڑے بڑے مناصب پر فائز رہی۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق ان کی ایک صاحبزادی ام اسحاق بنت طلحہؓ کی شادی سیدنا حسن بن علیؓ ہوئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد وہ سیدنا حسین بن علیؓ کے عقد نکاح میں آئیں اور ان کے بطن سے سیدہ فاطمہ بنت حسینؓ پیدا ہوئیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پوتے عبد اللہ بن عبد الرحمنؓ اور حضرت مصعب بن زبیر بن العوامؓ بھی ان کے داماد تھے۔
سیدنا فاروق اعظمؓ کے عہد خلافت میں ایران فتح ہو تا ہے تو شاہ ایران یزدگرد کی تین بیٹیاں بھی بازار میں بکنے کے لیے موجود ہیں۔ وہ نہایت انکساری اور ذلت کے ساتھ نظریں نیچی کیے ہوئے زمین کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ کہاں وہ وقت کہ ان شہزادیوں کے آگے پیچھے نوکر چاکر اور خدام پھرا کرتے تھے۔ کہاں یہ وقت کہ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور وہ اپنے مستقبل کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ سیدنا علی بن ابی طالبؓ وہاں سے گزرے۔ انہوںنے سوچا ان شہزادیوں کی تربیت اعلیٰ شاہانہ انداز میں ہوئی تھی۔ انہیں یہ بات اچھی نہیں لگی کہ عام لوگ انہیں خرید کر اپنے گھر کی رونق اور زینت بنا لیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ سے بات کی: یہ بڑے گھرانے کی بیٹیاں ہیں، ان کے ساتھ عمدہ سلوک ہونا چاہیے۔ اگر کبھی کسی بڑے خاندان کے شخص پر مصیبت کے دن آ جائیں تو اس کی حیثیت کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ سیدنا علیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے مشورے سے ایک شہزادی کا نکاح محمد بن ابی بکر صدیقؓ کے ساتھ دوسری کا عبداللہ بن عمر بن خطابؓ کے ساتھ اور تیسری شہزادی شہر بانو کا نکاح سیدنا حسین بن علی بن طالبؓ کے ساتھ کر دیا جاتا ہے۔ ان تینوں بہنوں نے اسلام قبول کر لیا اور اسلام پر بھر پور طریقے سے کاربند ہو گئیں۔ تینوں شہزادیوں کے ہاں ایک ایک بیٹا پیدا ہوا، جو اپنے زمانے کے یکتا اور انمول ہیرے تھے۔ محمد بن ابی بکرؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام رسول اقدسؐ کے بڑے صاحبزادے کے نام پر قاسم رکھا گیا۔ سیدنا ابن عمرؓ کے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا، اس کا نام سالم رکھا گیا اور سیدنا حسین بن علی بن ابی طالبؓ کے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام علی رکھا گیا، جنہوں نے بعد ازاں زین العابدین کے لقب سے شہرت پائی۔ یہ وہی زین العابدین ہیں، جو کربلا میں زندہ بچے تھے۔ صرف انہی سے سیدنا حسینؓ کی نسل چلی۔ باقی ساری اولاد کربلا میں شہید ہو گئی۔
سیدنا حسینؓ سن چار ہجری میں شعبان کی پانچ تاریخ کو مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ سیدنا حسن بن علیؓ کی ولادت کے پچاس روز بعد شکم مادر میں تشریف لائے۔ آپؓ کو جو مختلف لقب دیئے گئے ہیں، ان میں رشید، طیب، سید، زکی، مبارک ، بسیط وغیرہ شامل ہیں۔ آپؓ کمر سے پاؤں تک جسمانی ساخت میں رسول اقدسؐ سے بہت مشابہ تھے، جبکہ سیدنا حسنؓ کمر سے اوپر تک اپنے نانا جانؐ کے ہم شکل تھے۔

Comments (0)
Add Comment