کشمیر…کشمیر…کشمیر!

’’میری دھرتی کے گلاب
زیادہ سرخ اس لیے ہیں
ان میں ہے شہیدوں کا لہو
میرے وطن کی بہاروں میں
ان وعدوں کی مہک ہے
جو ہمارے شہداء نے
خاموش ہونٹوں اور
بولتی آنکھوں سے کیے!
وہ سرد رات
میں کس طرح بھول سکتا ہوں
جب لکڑیوں کی آگ
بجھ رہی تھی
اور اندر کی آگ بھڑک اٹھی تھی
وہ وقت تمہارے جانے کا وقت
اے مجاہد! میری محبت
تیری منتظر رہے گی!‘‘
اہلیان کشمیر اب ایسے الفاظ لکھ رہے ہیں اس انٹرنیٹ پر جو برق کی طرح بھارت پر لہراتا ہے۔ سوشل میڈیا کی کشمیری دنیا میں شوبز کلچر نہیں ہے۔ اس میں دھوکوں سے بھری محبت نہیں۔ اس میں سطحی جذباتیت کا شور شرابا نہیں۔ اس میں ایسی سنجیدگی ہے جیسی سنجیدگی گہری اور کشادہ ندی کے بہاؤ میں ہوتی ہے۔ ایسی سنجیدگی جیسی سنجیدگی پت جھڑ کی بھیگی شام میں ہوتی ہے۔ جیسی سنجیدگی سیاہ اور سرد رات کے دوران ایک اداس جھونپڑی میں جلتے ہوئے چراغ میں ہوتی ہے۔ جیسی سنجیدگی شہید کی بیوہ، شہید کی بہن اور شہید کی ماں کے مکھ پر غمگین چاندنی کے مانند لہراتی ہے۔
کشمیر پر بھلے یہ دنیا کچھ نہ لکھے، مگر کشمیر اپنے خون سے ایک عظیم کہانی تحریر کر رہا ہے۔ اپنی حریت پسندی اور دنیا کے بے حسی کی کہانی! یہ کہانی کبھی تو پڑھی جائے گی۔ یہ کہانی کبھی تو محسوس کی جائے گی۔ اس کہانی کے سامنے کبھی تو اعتراف کرتے ہوئے سر جھک جائیں گے۔ وہ کہانی صرف بادلوں کی نہیں ہے، جو وادیوں میں بے گور باغیوں کی لاشوں کے کفن بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کہانی صرف ان بلند قامت چناروں کی نہیں ہے، جو اپنے حریت پسندوں سے خود کو بہت چھوٹا سمجھتے ہیں۔ یہ کہانی صرف ان جھیلوں کی نہیں ہے، جن میں محبت کی چھوٹی چھوٹی باتوں جیسی مچھلیاں چھپ چھپ کر تیرتی ہیں اور جن میں کھلے پھول حق پرست نعروں کی طرح مہکتے ہیں اور جن پر اترتے ہیں سپنوں جیسے سفید اور سرخ پرندے!
اور جن پر گولیاں چلاتے ہیں وہ درندے جو وردیاں پہن کر آتے ہیں۔ خواب کو اور محبت کو ختم کرنے والی گولی اب تک ایجاد نہیں ہوئی۔ کشمیر کی مزاحمت ثابت کر رہی ہے وہ محبت بھی ہے اور خواب بھی۔ محبت بھی وہ جو جدائی میں رونے نہ دے اور خواب بھی وہ جو دکھائی دینے کے بعد سونے نہ دے۔ کشمیر ایک نئے کردار کی طرح ابھر رہا ہے۔ کشمیر کسی ازلی مصور کے مانند اپنے آسمان کے کینوس پر آزادی کی عظیم پینٹنگ بنا رہا ہے۔ کشمیر کیا کر رہا ہے؟ اس احمق دنیا کو کچھ نہیں معلوم۔ اس احمق دنیا میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کشمیری صرف مزاحمت نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس طرف جس طرف تصورات کے قافلے خوف کی وجہ سے پیش قدمی نہیں کرتے۔ کشمیر ایک حسین جنگل ہے، جس میں فطرت کی لامحدود توانائی گرم چشموں کی طرح ابل رہی ہے۔ کشمیر اپنی قوت کسی ملک سے نہیں، بلکہ اپنے آپ سے حاصل کرتا ہے۔ اس طرح جس طرح ریشم بنانے والا کیڑا اپنے آپ سے ریشم نکالتا ہے۔
کشیمر اپنی بغاوت اپنے آپ میں دریافت کرتا ہے۔ کشمیر جو کچھ کرتا ہے، وہ دنیا کو دکھانے کے لیے نہیں کرتا۔ کشمیر اس معصوم حسینہ کی طرح ہے، جو اپنے لیے ہی سجتی اور سنورتی ہے۔ جس کا گنگنانا اور گیت گانا کسی اور کے لیے نہیں، بلکہ دل کی بے انت گہرائیوں میں پوشیدہ ایک پاک پیار کے لیے ہوتا ہے۔
اس بار امریکہ میں ہونے والے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بے کار گیا۔ وہ اجلاس جس میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج روپوش مجرم کی طرح آئی اور چلی گئی۔ وہ اجلاس جس میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نپے تلے انداز میں اپنا محتاط مؤقف رکھا۔ وہ اجلاس جس میں ہیڈ فون پہن کر مخصوص باتیں سننے والوں کی سماعت تک کشمیر کی چیخ نہیں پہنچی اور کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ وادی اب کیسی ہے، جس میں بارود کی بو کی وجہ سے تتلیاں سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتی ہیں۔ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس وادی کا کیا ہوا، جس وادی میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہو رہی ہے۔ آج اگر اقوام متحدہ اپنی کھوئی عزت کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ مظلوم اقوام کی فریاد نہیں سنتا۔ وہ محکوم عوام کا ساتھ نہیں دیتا۔ وہ امریکہ کا ریاستی ادارہ بن کر کام کرتا ہے۔ اس کے کندھوں پر اس دھرتی کے گولے کا بوجھ نہیں۔ جس دھرتی کے گولے پر ایک زخم کا نام ہے کشمیر!
کشمیر کے بارے میں صرف یہ مؤقف پیش کیا جاتا ہے کہ وہ دو ایٹمی ممالک کے درمیان ایک تنازعہ ہے۔ کیا کشمیر کی اس سے الگ کوئی تعریف نہیں؟ کشمیر اپنے وجود میں ایسی سچائی ہے، جس کا اظہار اب ہونا شروع ہوا ہے۔ جب مزاحمتوں کے موسم بیت چکے ہیں۔ جب کل کے حریت پسند آج کے ہارے ہوئے جواری بن کر کف افسوس ملتے ہوئے واپس لوٹ رہے ہیں۔ جب شام کے سائے گہرے ہو رہے ہیں اور موسم میں عجیب بے چینی ہے۔ جب شکست کو مقدر سمجھا جا رہا ہے اور ہتھیار ڈالنے کے شرمندہ عمل کو تبدیل ہونے والی دنیا کی حقیقت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہو۔ جب ضمیر ایک بوجھ بن جائے۔ جب جذبات یتیم بچوں کی طرح راستوں پر چلتے ہوئے لوگوں سے احساسات کی بھیک مانگتے پھریں۔ جب تمنا اور امید کے راستے ختم ہو جائیں، تب اس مایوس موسم میں کشمیر ایک نیا پیغام ہے پیار کا اور اس انتظار کا جس میں سرخ گلابوں جیسی خوشبو ہوتی ہے۔
یہ دنیا جو سوشل میڈیا کی وجہ سے سکڑ چکی ہے، اس دنیا کو کب محسوس ہوگا کہ اس کی نزدیک کی نظر بالکل خراب ہو چکی ہے۔ اس کو اپنے سامنے وادیوں میں بہتا ہوا خون نظر نہیں آ رہا۔ ایک پرامن قوم کو قربانی کے کانٹوں سے بھرے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ستر برس بیت چکے ہیں۔ وہ قوم جس نے پہلے انصاف کے لیے خالی ہاتھ بڑھائے اور جب برسوں تک ان خالی ہاتھوں کی توہین ہوتی رہی، تب ان خالی ہاتھوں نے کہیں ہتھیار اور کہیں پتھر اٹھائے۔ وہ ہاتھ اب خالی نہیں ہیں۔ وہ ہاتھ اب سوالی نہیں ہیں۔ وہ ہاتھ انصاف کی نئی تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ ہاتھ تنہا نہیں ہیں۔ ان ہاتھوں کے ساتھ وہ آنکھیں بھی ہیں، جو اب خوابوں کو حقیقت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ آنکھیں اور وہ ہاتھ جو نیا کشمیر تخلیق کر رہے ہیں، ان آنکھوں اور ان ہاتھوں کو کوئی پروا نہیںکہ دنیا کو ان کی کاوش نظر آتی ہے کہ نہیں۔
کشمیر وہ آرٹ نہیں، جو اسٹیج پر تالیوں کے لیے اپنا اظہار کرتا ہے۔ کشمیر مور کا وہ ناچ ہے، جس کو سارا جنگل دیکھتا ہے۔ اپنی مقدس آنکھوں کے ساتھ۔ کشمیر ایک باضمیر لوگوں کا وطن ہے۔ کشمیر اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے رحم کا کشکول لے کر بھیک مانگنے والا دیس نہیں ہے۔ کشمیر کو کسی رحم کی کوئی ضرورت نہیں۔ کشمیر صرف اور صرف انصاف کے لیے ایسی پکار ہے، جو ستاروں کو چھو کر پھولوں پر شبنم بن کر برس جاتی ہے۔ کشمیر کیا ہے؟ کشمیر ایک راستہ ہے۔ کشمیر اس راستے پر چلتا ہوا راہی ہے۔ کشمیر مسافر ہے۔ کشمیر منزل ہے۔ کشمیر تصوف کے خاموش ترنم میں تیرتا ہوا گیت ہے۔ کشمیر بندوق کی نالی سے نظر آتا ہوا پھول ہے۔ کشمیر بادل ہے۔ بادل کی بوند ہے۔ کشمیر وعدہ ہے۔ کشمیر نام ہے کسی ٹارچر سیل کی دیوار پر لہو سے لکھا ہوا کسی گمنام قیدی کا!
کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ اپنے تمام تر ممالک کے ساتھ بہت کم جانتا ہے۔ ممکن ہے کہ عالمی ادارے کو کل کے کشمیر کے بارے میں خبر ہو، مگر کشمیر آج وہ نہیں جو کل تھا۔ کشمیر ہر لمحہ اور ہر پل تبدیل ہوتی ہوئی حقیقت کا نام ہے۔ کشمیر کے بارے میں خبریں اور تبصروں کی کمی کرنے والو کشمیر تمہارے الفاظ سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ کشمیر اب اس جذبے کا مظہر ہے جس کو کوئی ہتھکڑی نہیں لگ سکتی۔ کشمیر آبشار کی روانی ہے۔ کشمیر خود اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی اپنی کہانی ہے۔ کشمیر مست حال اور مسکراتا مستقبل ہے۔ کشمیر اب کیس نہیں۔ کشمیر اب انصاف کی خیرات مانگنے والا فریادی نہیں۔ کشمیر اب خود فریاد اور خود منصف ہے۔ کشمیر اب عالمی ضمیر کی وہ پکار ہے جو سات سمندروں پر لہراتی اجنبی ساحلوں کی طرف رواں دواں ہے۔
کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ اور مغربی ممالک جس طرح خاموش ہیں، ان کی خاموشی ان پر تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ تیار کر رہی ہے۔ کشمیر اس دھرتی کا ضمیر ہے، جس دھرتی میں محبت اور قربانی کا وہ سرخ دھارا سمایا ہوا ہے، جس کے وجہ سے گلابوں کا رنگ بہت سرخ ہے۔
’’محبت انتظار کرتی ہے
صدیوں کا مگر تھکتی نہیں
محبت مسکراتی ہے
ہونٹوں سے نہیں
آنکھوں سے!
محبت فریاد نہیں ہے
محبت یاد نہیں ہے
محبت بھول سے بلند
اور ہوا سے ہلکی ہے
بچے کی سانسوں کی طرح
ماں کی مہک کے مانند
اور چشمے میں تیرتے ہوئے
چاند کی طرح!‘‘
٭

Comments (0)
Add Comment