وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تہترویں سالانہ اجلاس سے خطاب کیا۔ جس کی دو اہم خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنی تقریر پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان اردو میں کی جو اسلام کے بعد ملک کی دوسری نظریاتی احساس ہے۔ دوم یہ کہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں جذباتی انداز اختیار کرنے کے بجائے عالمی برادری کو درپیش تمام اہم مسائل کا پوری طرح احاطہ کیا۔ جنوبی ایشیا کے حالات، کشمیر اور افغان مسائل ہمارے نقطہ نظر سے زیادہ قابل توجہ ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اقوام عالم کو متنبہ کیا کہ ان مسائل کا فوری، منصفانہ اور پائیدار حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ تمام مہذب اور غیور ممالک بیرونی وفود سے ملاقات میں اور اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر اپنی قومی زبان میں گفتگو کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جدید دور میں کسی زبان کا دوسری زبانوں، بالخصوص انگریزی میں ترجمہ کرنا ہرگز مشکل نہیں ہے۔ لہٰذا مقرر اپنا مافی الضمیر اپنی قومی زبان میں ادا کرلے تب بھی مخاطبین میں سے ہر شخص اسے اپنی زبان میں سن سکتا ہے۔ جہاں براہ راست خطاب میں یہ سہولتیں میسر نہ ہوں، وہاں طرفین کی گفتگو کے دوران دونوں زبانوں کے مترجمین موجود ہوتے ہیں۔ اپنی قومی زبان میں بات چیت یا تقریر کرنا جہاں ملکی و قومی اعزاز و افتخار کا ذریعہ ہے، وہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہماری زبان دنیا کی کسی بھی بڑی سے بڑی زبان سے پیچھے نہیں ہے اور اس میں انسانی جذبات و خیالات کا بخوبی اظہار کیا جاسکتا ہے۔ ایک پاکستانی ہونے اور دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والے ملک کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے شاہ محمود قریشی کا پاک و بھارت تعلقات، افغان معاملات اور خطے کی صورتحال کو اپنی تقریر میں زیادہ وقت دنیا فطری اور ضروری امر تھا۔ چنانچہ انہوں نے عالمی برادری کو متوجہ کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، جس کا واضح ثبوت ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے وقت گرفتار کیا جانے والا بھارتی بحریہ کا افسر اور خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ایجنٹ کل بھوشن یادیو ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو یاد دلایا کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ افغانستان میں جاری جنگ قومی قوت سے ختم ہوسکتی ہے، نہ جیتی جاسکتی ہے۔ مودی حکومت نے تیسری مرتبہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرکے اہم موقع ضائع کردیا۔ پاکستان تمام مسائل کا حل سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے۔ وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کا خواہشمند اور کوشاں رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس کی جزئیات پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہیں، بھارت کی جانب سے کسی بھی جارحیت کی صورت میں پاکستان بھرپور دفاع کا اپنا حق استعمال کرے گا۔ تاہم ہماری خواہش ہے کہ دونوں ممالک اسلحے کی دوڑ سے گریز کریں۔ جنوبی ایشیا کے علاقائی مسائل کے علاوہ شاہ محمود قریشی نے مشرق وسطیٰ کے حالات کو باعث تشویش ناک قرار دیا اور کہا کہ مسئلہ فلسطین آج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ مغربی ممالک میں گستاخانہ خاکے بنانے کے منصوبوں سے دنیا بھر میں تمام مسلمانوں کی دل آزادی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی تنازعات کے حل، مشترکہ مفادات کے حصول، نظریاتی یگانگت، رواداری، معاہدوں کی پاسداری اور اقوام عالم کے ساتھ مل کر نئی جہتوں کی تلاش اور اہداف کے تعین میں کوشاں رہے گا۔ تاہم اپنے قومی مفادات آزادی و خود مختاری اور ملک کے تحفظ و سلامتی پر کسی قسم کی سودے بازی کے لئے ہم تیار نہیں ہیں۔ پاکستان پڑوسی ممالک بالخصوص برادر مسلم ملک افغانستان اور ایران میں امن چاہتا ہے اور اس کے لئے ہم نے نہ صرف زبانی کوشش کی ہے، بلکہ عملی جدوجہد کے نتیجے میں بیش بہا جانی و مالی قربانیاں بھی دی ہیں۔ پاکستان ایک طویل مدت سے غیر ملکی پناہ گزینوں کی آماجگاہ ہے، جبکہ دیگر ممالک انہیں پناہ اور تحفظ دینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی واپسی ہوجائے تو پاکستان کی معیشت پر پڑنے والا شدید دباؤ کم ہوسکتا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے سی پیک منصوبے، موسمیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی جیسے بڑھتے ہوئے مسائل پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا۔ شاہ محمود قریشی کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے اس خلاصے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ خطاب نہایت جامع اور پاکستان کی حکومت اور عوام کے خیالات و جذبات کا آئینہ دار تھا، اسی لئے محب وطن حلقوں میں اسے بالعموم سراہا گیا۔
سو دن سنار کے
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ المعروف آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے اور حسب سابق بجلی اور گیس کی قیمتیں مزید بڑھانے پر زور دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے گزشتہ روز پاکستان پہنچنے والے وفد نے خزانہ اور مالی امور سے متعلق تقریباً تمام اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور حکومت کو مشورہ دیا کہ خسارے میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کو نیلام کرکے نجی تحویل میں دے دیا جائے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرضے دینے والی ہر پیشکش میں عوام پر ٹیکس لگانے، اشیائے صرف کے نرخوں میں اضافہ کرکے اور انہیں مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے کے مشورے دیئے جاتے ہیں۔ اشیا کی قیمتیں بڑھا کر ہر تاجر کو زیادہ سے زیادہ منافع وصول کرنے کا طریقہ معلوم ہے، لیکن حکومتیں اور سرکاری ادارے پیسا کمانے کے لئے نہیں، عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے وجود میں آتے ہیں۔ اسد عمر نے وزارت خزانہ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی آئی ایم ایف سے بھیک نہ مانگنے کا اعلان کردیا تھا۔ اس بنا پر ان کی وزارت کا آئی ایم ایف کے وفد سے مذاکرات کرنا بالکل بے معنی لگتا ہے۔ دوسری جانب نئی حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی ایک ماہ کا عرصہ ہی گزرا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور پیداواری لاگت بڑھنے کے باعث اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ ادھر اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کرکے ملک میں مہنگائی کے مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کردیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی سو دنوں میں معیشت کی زبوں حالی پر قابو نہ پایا اور بے لگام چھوڑ دیا تو اس مرتبہ مظلوم عوام اسے معاف نہیں کریں گے۔ حکومت سے اچھی توقعات وابستہ رکھنے والے ابھی سے مایوس ہونے لگے ہیں کہ سو دن سنار کے پورے ہونے کے بعد کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا تو کہیں ایک دن لوہار کا نہ آجائے۔