حیرت انگیز بات

ملائیشیا کی فضائی کمپنی MAS کے جہاز ہمیشہ وقت پر روانہ ہوتے ہیں، لیکن اس دن کراچی سے ہمارے جہاز کی پرواز مسلسل لیٹ ہوتی رہی۔ ٹی وی اسکرین پر کوالالمپور جانے والی پرواز کنفرم ہونے کے بجائے Delay ہوتی رہی۔ ہمارے جہاز کے بعد پی آئی اے کے جہاز کو کوالالمپور جانا تھا۔ وہ بھی جاچکا تھا۔ اسکرین پر ہمارے جہاز کا وقت 3 کے بعد صبح کا 4 دکھایا گیا۔ میں نے فوراً موبائل فون کے ذریعے اپنے میزبان علی کو پیغام بھیجا کہ ہماری فلائٹ کم از کم پانچ گھنٹے لیٹ پہنچے گی۔
میں پہلے بھی تحریر کرچکا ہوں کہ ایئرپورٹ پر انتظار یا جہاز پر طویل سفر کرنے سے مجھے بالکل بوریت نہیں ہوتی۔ لیکن اس سفر میں جہاز کی تاخیر سے بار بار مجھے اپنے میزبان کا خیال ستاتا رہا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ کام اسی دن ہونا تھا۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ دوسری کمپنیوں کے جہاز ضرور لیٹ ہوسکتے ہیں، لیکن سنگاپور، کیتھی (ہانگ کانگ)، امارات (دبئی) اور MAS (ملائیشیا) کے ہر گز نہیں۔ پرواز کے وقت پر پہنچنے کے خیال کے باوجود میں نے علی کو ایئرپورٹ یا سینٹرل ریلوے اسٹیشن پر آنے سے منع کیا تھا۔
’’دیکھو علی! تم اپنی کار کا پیٹرول جلاکر مجھے لینے کیلئے ایئرپورٹ کیوں آرہے ہو۔ مجھے ایئرپورٹ کے گیٹ ہی پر، ایئرپورٹ والوں کی KLIA ایکسپریس مل جائے گی جو 37 رنگٹ (ملائیشیا کی کرنسی) کے عوض مجھے 28 منٹوں میں شہر کے مرکزی اسٹیشن پر پہنچادے گی۔‘‘
میں چار پانچ سال قبل کوالالمپور گیا تھا تو ان دنوں میں علی، کلنگ روڈ پر رہتا تھا۔ لیکن اس نے بتایا کہ شادی کے بعد اس نے ’’تمن سیجاہتر‘‘ کے علاقے میں رہائش اختیار کرلی ہے۔ ملئی زبان کے لفظ ’’تمن‘‘ کا مطلب ’’چمن‘‘ ہے جو ہمارے ہاں بھی استعمال ہوتا ہے، یعنی گلشن! جس طرح ہمارے ہاں کراچی میں گلشن اقبال، گلشن حدید اور گلستان جوہر ہیں۔ حیدرآباد میں گلستان سجاد ہے۔ اسی طرح ملائیشیا کے ہر شہر ’’تمنو‘‘ سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں۔ تمن روسا، تمن میلاتی، تمن ڈیسا، تمن سیٹیاونگسا، تمن مالوری، تمن برونگ، تمن ماتا ہری وغیرہ۔
ماتا ہری انگریزی فلم والا نام نہیں، بلکہ یہ ملئی لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’سورج‘‘ حالانکہ اس کے لفظی معنی ’’ماتا‘‘ یعنی آنکھ اور ’’ہری‘‘ یعنی دن ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’دن کی آنکھ‘‘۔ ملئی لوگ اس لفظ کو ’’سورج‘‘ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
بہرحال ہمارے دوست علی جس علاقے تمن سیجاہتر یعنی گلشن سکون میں رہائش پذیر ہیں، وہ کوالالمپور کی ایک اہم سڑک کچنگ روڈ پر واقع ہے۔ ملائیشیا میں ملازمت کے دوران میرا وہاں سے برسوں تک کئی بار گزر ہوا۔ جب میں جہاز پر ہوتا تھا اور ہمارا جہاز پورٹ کلانگ میں آکر ٹھہرتا تھا تو ہم کوالالمپور جانے کیلئے اسی سڑک سے گزرتے تھے۔ کوالالمپور میں الیکٹرک ٹرین کا آغاز ہوا تو ایک لائن یہاں سے بھی گزاری گئی، جہاں علی کی رہائش ہے۔ اس علاقے کے بالکل قریب ٹرین کا اسٹاپ ہے جس کا نام سیگا مبوت ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ کوالالمپور ایئرپورٹ سے اس الیکٹرک ٹرین KLIA EXPRESS میں سوار ہوکر شہر کے وسط میں اس کے مرکزی اسٹیشن پر اترتا۔ پھر وہیں سے دوسری ٹرین KTM میں بیٹھ کر علی کے گھر کے قریبی اسٹیشن سیگامبوت پہنچ جاتا۔ یہ سب سے بہتر تھا۔ وہ اس لئے کہ ’’کے ایل سینٹرل‘‘ اور ’’سیگامبوت‘‘ کے درمیان صرف تین اسٹیشن کوالالمپور، بینک نگارا اور پترا تھے۔ میں سیگامبوت پہنچ کر علی کو فون کرتا کہ وہ آکر مجھے وہاں سے لے جائے۔ اس سے بھی بہتر یہ تھا کہ وہاں سے ٹیکسی میں بیٹھ کر علی کا گھر تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ نہ ملنے پر علی کو فون کیا جائے۔ اس طرح علی زیادہ کھڑاگ سے بچ جاتا۔ بہرحال چار پانچ گھنٹے لیٹ ہونے کے سبب علی، جمعہ کی نماز سے محروم رہ جاتا۔ اگر جہاز اپنے ٹھیک وقت پر وہاں پہنچتا تو میں نو بجے تک کے ایل سینٹرل اسٹیشن پہنچ جاتا اور اس وقت علی کو وہاں اپنی کار پارک کرنے کیلئے زیادہ جدوجہد نہ کرنی پڑتی۔ کیونکہ سینٹرل اسٹیشن کا علاقہ اس قدر مصروف ہے کہ دن چڑھتے ہی وہاں پارکنگ کیلئے جگہ نہیں ملتی۔ حالانکہ سٹی گورنمنٹ کی جانب سے اسٹیشن کے آس پاس دو ہزار کاروں کی پارکنگ کیلئے ایک وسیع پارکنگ لاٹ تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جگہ کی تنگی رہتی ہے۔
کراچی ایئرپورٹ پر جہاز کے انتظار کے دوران میں نے ایک گھنٹہ مطالعہ کرتے اور تقریباً ایک گھنٹہ لکھتے ہوئے گزارا۔ رات کے بارہ بج گئے۔ میں جلدی سونے اور صبح کو جلدی بیدار ہونے والا آدمی ہوں۔ گزشتہ دن سفر کی تیاری میں دوپہر کو بھی کچھ دیر آرام کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ لہٰذا اس وقت پلکیں بھاری ہونے لگی تھیں۔ میں اپنے شولڈر بیگ کو تکیے کے طور پر استعمال کرکے کچھ دیر کیلئے کمر سیدھی کرنا چاہتا تھا۔ مجھ جیسے لمبے آدمی کیلئے کراچی ایئرپورٹ کی کم از کم تین سیٹوں کا خالی ہونا ضروری ہے۔ میں نے اپنے چار وں طرف نظر دوڑائی۔ کہیں کہیں کوئی ایک آدھ خالی سیٹ نظر آرہی تھی۔ کئی لوگ تین تین، چار چار سیٹوں پر قبضہ کرکے لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ غلطی ہوگئی۔ پہلے یہ ہوش آتا تو میں بھی تھیلے میں سے کتابیں نکال کر دو سیٹوں پر قبضہ جمالیتا۔
میں نے قریب سے گزرنے والے ایئرپورٹ عملے کے ایک اہلکار سے پوچھا ’’یہ چاروں طرف جو لوگ لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں، ان کی فلائٹ کب ہے؟‘‘
’’سر، کچھ تو آپ ہی کی فلائٹ کے مسافر ہیں اور باقی وہ ہیں، جن کی پرواز صبح کو ہے۔ لیکن کل شہرمیں ہونے والے ہنگاموں کے خدشے سے رات ہی کو ایئرپورٹ آگئے ہیں۔‘‘
میں نے لیٹنے کا ارادہ ترک کرکے کچھ دیر ٹہلنے اور چائے پینے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح کافی وقت گزر جاتا۔ میں ادھر ادھر سے ہوتا ہوا ٹوائلٹس اور ٹیلی فون بوتھ کے قریب سے گزرا تو ایک گوشے میں بنے کائونٹر کے عقب میں ایئرپورٹ اتھارٹی کے تین چار افسروں کو اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ وہ سندھی بول رہے تھے۔ اگر وہاں کوئی بم پھٹتا تو مجھے اتنی حیرت نہ ہوتی۔ کراچی کے اس ایئرپورٹ پر آتے جاتے چالیس سال کا عرصہ ہوچکا ہے، لیکن ایسا نظارہ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اب، گزشتہ دس سال کے دوران کہیں کہیں کوئی سندھی افسر نظر آنے لگا ہے۔ لیکن چار، پانچ افسروں کا سندھی ہونا کمال کی بات ہے! شاید یہ کرشمہ آصف زرداری کی عوامی حکومت کا تھا۔
میں کائونٹر کے سامنے کھڑا ہونقوں کی طرح انہیں دیکھتا رہا۔ عجیب محسوس ہورہا تھا اور لطف بھی آرہا تھا۔ میں نے ایسی ’’چوکڑی‘‘ بچپن میں آگ کے گرد جمتی دیکھی تھی۔ جب میں سردیوں کی چھٹیوں میں اپنے کلاس میٹ اختر علی عباسی سے ملنے اور ایک ہفتہ اس کے ہاں ٹھہرنے کے لیے لاڑکانہ ضلع کے ایک گوٹھ ’’ولید‘‘ میں گیا تھا، وہ افسر اپنی باتوں میں اس قدر محو تھے کہ انہیں کچھ دیر تک معلوم ہی نہ ہوسکا کہ ایک اجنبی قریب کھڑا ان کی باتیں سن رہا ہے۔ آخرکار ایک شخص نے محسوس کرلیا اور مجھ سے انگریزی میں پوچھا: ’’Can I Help You?‘‘
اس کے ساتھ ہی دوسرے بھی یکایک خاموش ہوگئے۔
’’سائیں، آپ اپنی باتیں جاری رکھیں۔ میں ان کی کشش میں یہاں رک گیا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور اب وہ مجھے حیرت سے گھورنے لگے کہ جان نہ پہچان، میں کیوں ان سے فری ہونے لگا ہوں۔ وہ دوبارہ ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے کہ میں ان میں سے کسی کا شناسا ہوں یا نہیں؟
’’جناب کی تعریف؟‘‘ ان میں سے ایک نے نہایت احترام سے پوچھا۔ حالانکہ میری یہ ’’حرکت‘‘ کسی طور پر معقول کہلانے کے مستحق نہیں تھی کہ میں ان کی گفتگو میں مخل ہوا اور ان کے کائونٹر کے سامنے کھڑے ہو کر اس طرح انہیں دیکھ رہا تھا جیسے کوئی بچہ چڑیا گھر کے پنجرے کے اندر جانوروں کو دیکھتا ہے۔ بہرحال انہوں نے شاید میری عمر کا خیال کرتے ہوئے در گزر سے کام لیا اور اپنی طرف سے اخلاق کا مظاہرہ کیا۔
میں نے ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے کہا ’’میں سوچ رہا تھا کہ پہلے آپ لوگوں سے یہ پوچھوں کہ آپ کس کس گوٹھ سے تعلق رکھتے ہیں؟‘‘
’’سائیں، ہم یہ بھی بتائیں گے۔ ہمارے نام تو قمیصوں پر آویزاں ہیں۔ لیکن آپ کا تعارف بھی تو ہونا چاہئے۔‘‘
’’جی ہاں، ضرور۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں شاید اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں تھا کہ برسوں سے لکھتا چلا آرہا ہوں اور اخبار والے میرے ہر کالم کے ساتھ تصویر بھی لگاتے ہیں، سو ممکن ہے کوئی مجھے جانتا ہو۔‘‘
میری اس بات پر دو افراد نے فوراً مجھے پہچان لیا۔ ایک نے کہا۔ ’’جناب الطاف شیخ صاحب۔‘‘ اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ اپنے دیگر ساتھیوں سے میرا تعارف کرا رہا ہو۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا ’’میں نے آج ہی ’’امت‘‘ میں آپ کا کالم پڑھا ہے۔‘‘
سب نے بڑی گرمجوشی اور اپنائیت سے مصافحہ کیا اور یک زبان ہو کر مجھے بیٹھنے اور چائے کی دعوت دینے لگے۔
’’بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ میں چائے پینے کیلئے ہی جا رہا تھا۔‘‘ میں نے کہا اور انہوں نے کائونٹر کا چھوٹا دروازہ کھول کر مجھے اندر آنے کی دعوت دی۔ ایک شخص نے میرے لئے کرسی خالی کی اور دوسرا چائے لانے کیلئے باہر نکلا۔
بہرحال اس وقت جب میں ملائیشیا کا سفر نامہ لکھنے بیٹھا ہوں اور چائے طلب ستانے لگی ہے تو مجھے اس رات ایئر پورٹ اتھارٹی والوں کی پلائی ہوئی گرما گرم چائے یاد آگئی۔ میں نے ان سے ای میل ایڈریس لیا، کیونکہ ملاپ کا یہی ایک کارآمد ذریعہ باقی رہا ہے۔ باقی فون کو میں اپنے ملک یا پردیس میں عموماً بند ہی رکھتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ اس ادارے میں سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد اب بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس شب ان کی ایک ہی وقت میں ڈیوٹی لگ گئی تھی۔ اس وقت کوئی قریبی پرواز نہیں تھی، اس لئے وہ گپ شپ کرنے بیٹھ گئے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ وہ اس ڈپارٹمنٹ میں سینئر افسر ہیں۔ ان کا انتخاب اس زمانے میں ہوا تھا جب سائیں غوث علی شاہ ڈیفنس منسٹر تھے۔ افسران کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے نرگس گھلو کی کافی تعریف کی کہ جب وہ ان کے ڈپارٹمنٹ کی ’’باس‘‘ تھیں تو ہر ایک کا خیال رکھتی تھیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ انہیں معلوم نہیں وہ ہماری عزیزہ یعنی میری بیگم کی چچا زاد بہن ہیں۔ بہرحال نرگس کی تعریف سن کر مجھے خوشی ہوئی۔
ان افسران کا تعلق شمالی سندھ کے مختلف گوٹھوں سے تھا۔ ایک تو شکارپور کے محمد علی منگی صاحب تھے۔ دوسروں میں محمد وزیر عباسی، اشفاق احمد شیخ اور عبد القادر شیخ تھے۔ ایک کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا۔ میں نے چائے پی کر ان سے رخصت چاہی۔
’’سائیں، پرواز میں ابھی تین چار گھنٹے باقی ہیں۔ بیٹھئے، گپ شپ کرتے ہیں۔‘‘ ان صاحبان نے اصرار کیا۔
’’دوستو! اب میں اجازت چاہوں گا۔ میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔ انشاء اللہ ای میل کے ذریعے رابطہ رہے گا۔‘‘
میں ان سے رخصت ہو کر سونے کیلئے ایک ساتھ تین خالی سیٹیں تلاش کرنے لگا۔

Comments (0)
Add Comment