مدینۃ الرسولؐ میں دو روز

عبدالمالک مجاہد

ایسا کیسے ممکن ہے کہ مدینہ منورہ کا سفر ہو اور اس میں لطف نہ آئے۔ میرے نزدیک سعودی عرب میں رہنے کے دیگر فوائد کے ساتھ حرمین شریفین کی زیارت سب سے افضل ہے۔ اس سال 1439ہجری میں حج کرنے والوں میں میرا چھوٹا بھائی محمد طارق شاہد اور برادر نسبتی حافظ عبد العظیم اسد بھی شامل تھے۔ دونوں اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔
میں نے کافی عرصہ سے معمول بنایا ہوا ہے کہ حج یا عمرہ پر تشریف لانے والے اپنے پیاروں سے کہتا ہوں کہ جب آپ مدینۃ الرسولؐ آ جائیں تو مجھے بھی بتا دینا۔ میں وہاں ملاقات کے لیے آجاؤں گا۔ ویسے بھی قارئین کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ مدینہ شریف میں میں سکون، چین اور اطمینان کا خاص ماحول ہے۔ یہاں رش زیادہ نہیں۔ یہاں جلال کی نسبت جمال زیادہ ہے۔ مسجد نبویؐ ان تین مقدس مقامات میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں پیارے نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ تین مساجد کے سوا کسی مسجد کی زیارت کی نیت سے جانے کے لیے سفر کا خصوصی اہتمام نہ کیا جائے: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔
بلاشبہ یہ تینوں مساجد مسلمانوں کے لیے بے حد اہم ہیں۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اوّل، جہاں ایک نماز پڑھنے کا ثواب 500 نمازوں کے برابر، مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر اور مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ اس سفر میں جہاں اپنے عزیزوں سے ملاقات ہوئی، ان سے لمبی ملاقاتیں اور تبادلہ خیال رہا۔ وہیں نمازیں، نوافل، دعائیں، قرآن پاک کی تلاوت خصوصاً فوت شدگان کے لیے دعاؤں سمیت مختلف شخصیات سے ملاقاتیں اس سفر کا حاصل تھیں۔ 17ستمبر بروز پیر کو روضہ اطہر مبارک پر درود و سلام کے بعد مسجد میں آیا تو میں نے مسجد نبویؐ کی خوبصورت عمارت کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ اس مسجد کا ایک ایک کونہ، اس کی ایک ایک دیوار، اس کے دروازے اور اس کے ستون جن کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ میں نے دروازے کو ہاتھ لگا کر اس کی موٹائی اور مضبوطی پر غور کرنا شروع کیا۔ اسے بنانے والے کاریگر کے حق میں دعائیں تو تھیں ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس مسجد کی تعمیر کروانے والے کے لیے بھی دل کی گہرائی سے دعائیں نکل رہی تھیں۔ مسجد کا انتظام، اس کی صفائی، ستھرائی کا نظام، زم زم کے پانی کی وافر مقدار میں فراہمی، جابجا زم زم سے بھرے ہوئے کولر، ایک ایک چیز پر غور کرتے جائیں۔ آپ کے دل سے منتظمین کے لیے دعائیں نکلتی چلی جائیں گی کہ انہوں نے حجاج کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ میں نے مسجد نبویؐ کو آج سے 38 سال پہلے بھی دیکھا تھا۔ اس کا نقشہ ابھی تک دل و دماغ میں محفوظ ہے۔ آج مسجد پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ وسیع وعریض ہو چکی ہے۔ مسجد نبوی کی تاریخ کے مطالعے میں ایک میں ایک عجیب لذت ہے۔ مسلمان جتنی بار بھی مسجد نبوی کے بارے میں پڑھ لیں، وہ سیر نہیں ہوتے۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے فیصلہ کیا کہ سفر سے واپسی پر اس مقدس مسجد کے بارے میں اپنے پیارے قارئین کے افادہ کے لیے کچھ ضرور لکھوں گا۔
قارئین کرام! یہ وہ مبارک مسجد ہے جس کا سنگ بنیاد رسول اقدسؐ نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا، بلکہ بنفس نفیس اس کی تعمیر کے کام میں شامل رہے۔ میں کئی مرتبہ حضرت اسعد بن زرارہؓ کی زیر تربیت ان دو انصاری یتیم بچوں سہلؓ اور سہیلؓ کی قسمت پر رشک کرتا ہوں۔ یہ جگہ ان دونوں یتیم بچوں کی ملکیت تھی۔ آپؐ نے ان سے اس جگہ کی قیمت پوچھی تو ان کا جواب تھا کہ ہم یہ زمین مسجد کی تعمیر کے لیے مفت دیتے ہیں، مگر رسول اکرمؐ نے مفت لینے سے انکار کر دیا۔ زمین کی قیمت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے دس دینار ادا کر دی۔ میں نے تصور میں دیکھا کہ ان دنوں مسجد نبویؐ کا قبلہ شمال کی طرف تھا جو احد پہاڑ کی طرف بنتا ہے۔ اس وقت مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ ابھی کعبہ شریف کو قبلہ بنانے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ رسول اکرمؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت اس مسجد کی تعمیر مکمل فرمائی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے اپنے تجربہ وصلاحیت کے مطابق مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ کوئی کچی اینٹیں بنا رہا ہے ۔ کوئی مٹی ڈھو رہا ہے۔ کوئی بڑی بڑی اینٹوں کو اپنے ہاتھوں میں اٹھاکر لا رہا ہے۔ عام صحابہ کرامؓ ایک ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے ہیں، مگر آپؐ کے ایک صحابی عمار بن یاسرؓ اپنے ہاتھوں میں دو دو اینٹیں اٹھائے ہوئے ہیں۔ آپؐ نے سیدنا عمارؓ کو دیکھا تو ان کے جسم سے مٹی جھاڑی اور انہیں جنت کی خوشخبری سنائی۔
مسجد نبویؐ کی تعمیر کا آغاز ہجرت کے پہلے سال ربیع الاول میں ہوتا ہے اور شوال یکم ہجری میں تکمیل ہو جاتی ہے۔ مسجد کی لمبائی 35 میٹر جبکہ چوڑائی 30 میٹر تھی۔ بنیاد میں پتھر چنے گئے، جبکہ اس سے اوپر کچھ اینٹیں لگائی گئیں۔ مسجد کی چھت ڈھائی میٹر کی بلندی پر تھی۔ ابتداء میں مسجد کے تین دروازے بنائے جاتے ہیں۔ دو دروازے مشرقی اور مغربی جانب تھے، جبکہ ایک دروازہ جنوب کی طرف تھا۔ مسجد کے دروازوں پر کواڑ نہیں تھے، یہ ہروقت کھلے رہتے تھے۔ آپ یہ سمجھ لیجیے کہ یہ مسجد میں داخلے کے راستے تھے۔
سیدنا انس بن مالکؓ کی روایت کے مطابق دروازوں کے اطراف میں پتھروں سے بنے ہوئے ستون کھڑے کر دیئے گئے تھے۔ جن قارئین کرام نے باب جبریل دیکھا ہو گا۔ یہ دروازہ مسجد کی مشرقی جانب ہے۔ یہ باب النبی کہلاتا ہے۔ اسی دروازے کی طرف سیدنا عثمان بن عفانؓ کا گھر تھا، اس لیے اس دروازے کو باب آل عثمان بھی کہا جاتا تھا۔ مغربی دروازہ آج بھی باب الرحمہ کے نام سے مشہور ہے۔ دیواریں زیادہ اونچی نہ تھیں۔ آدمی اپنے ہاتھ کو اونچا کر کے چھت کو چھو سکتا تھا۔ کھجوروں کے تنوں کے ستون بنائے جاتے ہیں اور کھجور کی شاخیں بچھا کر چھت ڈالی جاتی ہے۔
جب ہم مسجد نبوی پہنچے تو ان دنوں حجاج کرام کا رش توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ ریاض الجنۃ میں نوافل ادا کرنے کی خواہش ہر مسلمان کو ہوتی ہے۔ آج صبح سات بجے جب میں درود و سلام کے لیے گیا تو بے پناہ رش تھا۔ ہزاروں لوگ انتظار میں کھڑے تھے کہ کب ان کی باری آئے۔ میں نے حجاج کرام کے احترام میں فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ حجاج کو ریاض الجنۃ میں نوافل کا موقع دیا جائے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہو گا۔ جنت کا باغیچہ یا ریاض الجنۃ سے مراد مسجد نبویؐ میں وہ مقام ہے جو آپؐ کے منبر سے لے کر آپؐ کے حجرہ مبارک تک ہے۔ علمائے کرام نے اس جگہ کی فضیلت کی تشریح میں بہت کچھ لکھا ہے۔ میرے نزدیک سارے مفہوم ہی درست ہیں۔ یہاں ہروقت رحمتیں نازل ہوتی اور سعادتیں نصیب ہوتی ہیں۔ ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اس میں عبادت کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔
مسجد نبویؐ میں ریاض الجنۃ کا یہ حصہ نہ صرف مسجد میں بہت مبارک جگہ ہے، بلکہ تمام روئے زمین پر بالکل یکتا اور منفرد مقام ہے۔ اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ صحابہ کرامؓ بھی اس جگہ کثرت سے نوافل ادا کرتے تھے۔ قارئین کرام! مجھے وہ ایام اچھی طرح یاد ہیں جب مسجد نبوی میں زیادہ رش نہیں ہوتا تھا۔ اگر تہجد کے وقت مسجد میں آ جاتے تو بڑے آرام سے ریاض الجنۃ میں جگہ مل جاتی۔
ریاض الجنۃ کی جگہ کتنی لمبی چوڑی ہے، اسے جاننے کے بعد ذرا آگے بڑھیں گے۔ حجرہ مطہرہ اور منبر شریف کے درمیانی فاصلے کی پیمائش 26.5 میٹر ہے۔ بعد کی توسیع اور ترمیمات کے بعد کچھ حصہ مقصورہ شریفہ کے اندر آ چکا ہے۔ موجودہ پیمائش کے لحاظ سے 22 میٹر لمبائی اور 15 میٹر چوڑائی ہے۔ گویا روضہ شریفہ کا موجودہ رقبہ 330 مربع میٹر ہے۔
مسجد نبوی کی توسیع مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے۔ ایک بڑی توسیع جو رسول اقدسؐ کے دور مبارک میں ہوئی، وہ فتح خیبر کے بعد کی جاتی ہے۔ مسجد کی لمبائی اور چوڑائی سو ہاتھ ہو گئی تھی۔ یعنی مسجد50 میٹر چوڑی اور 50 میٹر ہی لمبی تھی۔ مسجد کی توسیع کے لیے یہ زمین سیدنا عثمان بن عفانؓ نے خرید کر دی تھی۔ آپؐ نے ان کو جنت کی خوشخبری سنائی تھی۔
رسول اکرمؐ کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ نے مسجد نبوی میں توسیع کروائی۔ ان کے بعد آنے والے خلفاء یا حکام اپنے اپنے انداز میں ضرورت کے مطابق مسجد نبوی کی توسیع کرواتے رہے یا اس کی عمارت کی تعمیر میں حصہ لیتے رہے۔ مسجد کا اگر کوئی حصہ کمزور ہو گیا تو اسے پھر سے تعمیر کروا دیا۔ ترکوں نے اپنے دور میں مسجد نبویؐ کی جو خدمت کی، وہ تاریخ کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔
حجاز پر آل سعود کی حکومت 1825ء میں قائم ہوتی ہے۔ شاہ عبدالعزیز علاقہ حجاز کو 1925ء میں سعودی حکومت میں ضم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حجاج کو سہولتیں دینا شروع کر دیں۔ حرمین شریفین کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ مسجد نبوی شریف میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع کا کام شاہ فہد بن عبد العزیز کے دور میں 1986ء میں شروع ہوتا ہے۔
شاہ عبد العزیز کے دور میں 1952ء میں ان کے حکم پر مسجد نبوی شریف کی توسیع کا کام شروع ہوتا ہے۔ مسجد نبویؐ کے ارد گرد کے مکانات خریدے جاتے ہیں۔ مسجد کی توسیع کے بعد مسجد کی کل جگہ16326 میٹر مربع ہوجاتی ہے۔ مسجد میں 28 ہزار آدمی نماز ادا کر سکتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے 50 ملین ریال اس توسیعی منصوبے پر خرچ کیے۔ مسجد کی توسیع کا کام شاہ عبدالعزیز کی وفات تک جاری رہا۔ شاہ عبد العزیز کی وفات کے بعد ان کے بیٹے شاہ سعود نے اکتوبر 1955ء کو توسیع شدہ حصے کا افتتاح کیا۔ مسجد کی عمارت کی لمبائی 128 میٹر اور چوڑائی 91 میٹر ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد بھی حرمین شریفین کی توسیع ہو گئی۔ ملک میں امن و امان قائم ہوگیا، لوگوں میں اسلامی شعور آنا شروع ہو گیا۔ حجاج کی لوٹ مار کا گھناؤنا جرم بند ہو گیا تو دنیا کے کونے کونے سے مسلمانوں کی بڑی تعداد حج اور عمرہ کے لیے سعودی عرب کا رخ کرنے لگی۔ کچھ عرصہ گزرا تو مسجد کی زمین حجاج کے لیے پھر سے تنگ نظر آنے لگی۔ اس دوران شاہ فیصلؒ کا دور شروع ہو چکا تھا۔ 1973ء میں انہوں نے مسجد نبوی کی توسیع کا حکم دیا۔ مسجد کی مغربی جانب عمارتوں کو خرید کر گرا دیا جاتا ہے۔ مسجد کا رقبہ 35000 مربع میٹر ہو جاتا ہے۔ اس طرح ستر کنال پر مسجد کا رقبہ پھیل جاتا ہے۔ اس نئی جگہ پر لوہے کے شیڈ ڈالے جاتے ہیں۔ راقم الحروف جب 1980ء میں سعودی عرب آیا تو یہ شیڈ موجود تھے، میں نے خود انہیں دیکھا۔ شیڈ کے نیچے پنکھے لگے ہوئے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ مسجد کے زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بے شمار لوگ گلف کے ممالک میں نوکری کرنے آتے ہیں۔ ان میں عمرہ اور حج کا شعور اور جذبہ بڑھ جاتا ہے۔ سعودی عرب میں ورکرز اپنے والدین کو حج اور عمرہ کے لیے بلواتے ہیں۔ مسجد میں نمازیوں کے لیے جگہ پھر کم پڑ گئی۔ شاہ فہد کے حکم سے مسجد نبوی کی توسیع کا کام ایک مرتبہ پھر شروع کیا جاتا ہے ۔ مسجد نبوی کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ 1985ء میں شروع ہونے والی یہ توسیع نو سال تک جاری رہتی ہے۔ مسجد کے شمالی حصوں میں بھی شاہ فہد خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ جی بھر کر مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اردگرد کی زمینیں خرید کر مسجد میں شامل کی جاتی ہیں۔ راقم الحروف کو یاد ہے کہ جیسے ہی ہم لوگ نماز پڑھ کر باب مجیدی سے باہر نکلتے تھے، وہاں سونے کا بہت بڑا بازار تھا۔ چند ایک ریسٹورنٹ بھی تھے۔ کئی بڑے چھوٹے ہوٹل بھی موجود تھے، مگر خاصے سستے تھے۔ حرم سے تھوڑا سا پیدل چلنے کے بعد کچے مکانات آ جاتے تھے۔ پچاس ریال یومیہ پر کمرہ مل جاتا تھا۔ آج کے مقابلے میں حجاج اور معتمرین کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی تھی۔ بقیع الغرقد تک جانے کے لیے پتلی سی گلی تھی۔ جس کے دونوں طرف کچے مکانات تھے۔ مسجد کی محراب کے پیچھے والے حصہ میں سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کا گھر تھا۔ یہاں پر مکتبہ بھی تھا، جو وقف تھا۔ مسجد کی توسیع کے لیے چاروں اطراف میں مکانات، ہوٹل، دکانیں منہ مانگی قیمت پر خریدتے جاتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ سونے کے بھاؤ پر زمینیں خریدی گئیں تو بے جا نہ ہوگا۔ بعض ہوٹل کئی کئی منزلہ تھے۔ ان کو اتنا معاوضہ دیا گیا کہ مالکان خوش ہوگئے۔ ان جگہوں کے مالکان تمنا کرتے تھے کہ کاش ان کا گھر دکان یا ہوٹل اس توسیعی منصوبے میں آ جائے۔
قارئین کرام! اس شخص کی خوش نصیبی کے کیا کہنے! جس کی جگہ مسجد نبوی کا حصہ بن جائے۔ قیامت تک لوگ نمازیں ادا کرتے رہیں گے اور انہیں اجر و ثواب ملتا رہے گا۔ سیدنا ابو طلحہ انصاریؓ جو سیدہ ام سلیمؓ کے خاوند تھے، مدینہ کے بڑے تجار میں سے تھے۔ ان کا باغ اب مسجد نبویؐ کا حصہ بن چکا ہے۔ آپ نے بیرحاء نامی باغ کو حق تعالیٰ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ مسجد نبوی کا توسیعی کام شاہ فہد کا صدقہ جاریہ ہے، جو قیامت تک باقی رہے گا۔ انہوں نے 8200 مربع میٹر جگہ خریدی۔ گویا مسجد میں 164 کنال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح ستر کنال اور 164کنال کو جمع کریں تو 234 کنال یعنی مسجد 29 ایکڑ سے زائد جگہ پر مشتمل ہو جاتی ہے۔ پھر مزید زمینیں خرید کر مسجد میں شامل کی جاتی ہیں۔ اس وقت مسجد 85 ایکڑ سے زائد رقبہ پر مشتمل ہے۔ اس جگہ پر کم و بیش دس لاکھ مسلمان ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔
مسجد نبوی خوبصورت فن تعمیر کا عمدہ شاہکار ہے۔ مسجد کو دیکھیں تو انسان اس کی خوبصورتی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ راقم الحروف کو ایک مرتبہ مسجد کے ایئر کنڈیشننگ سسٹم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک پاکستانی انجینئر مجھے مسجد کے نچلے حصہ میں لے گئے۔ اس سسٹم کو سمجھنے اور تفصیل میں جانے کے لیے پورا مضمون درکار ہے۔ مسجد کے اس وقت 85 سے زائد دروازے ہیں۔ ان میں کئی دروازے ڈبل اور کئی سنگل ہیں۔ آپ کبھی ان دروازوں کو غور سے دیکھیں اور سوچیں کہ ان پر کتنا مال خرچ کیا گیا ہے۔ میناکاری کو دیکھیں، مجھے ان معماروں اور نجاروں کی قسمت پر رشک آتا ہے، جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ مسجد نبویؐ میں میناروں کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کی بلندی 104 میٹر ہے۔ مسجد کے چاروں اطراف میں صحن کو مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔ شاہ عبداللہ کے دور میں ان پر الیکٹرانک چھتریاں نصب کر دی گئی ہیں۔ فرش سفید پتھر کا ہے، جو شدید گرمی میں بھی گرم نہیں ہوتا۔
مسجد نبویؐ کی تاریخ لکھنے کے لیے بہت سارے صفحات درکار ہیں۔ بے شمار لوگوں نے ہر دور میں مسجد نبوی کی تاریخ لکھی ہے۔ اگر ان کو اکٹھا کیا جائے تو نجانے کتنی مجلدات بن جائیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس مسجد سے محبت کی، اس کی تعمیر و تزئین میں حصہ لیا۔ بلاشبہ انہوں نے جس طرح حرمین شریفین کی خدمت کی ہے اور اس کی توسیع کی ہے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حجاج یا معتمرین کو جن سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب میسر کر دی گئی ہیں۔

Comments (0)
Add Comment