چوری یا جاسوسی؟

ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
پاکستان کو جس طرح ہر طرف سے نوچا جاتا ہے، جس طرح یہاں غداروں کی پوری فصل اتنی آسانی سے بیرونی طاقتیں اگا لیتی ہیں، اس کے باوجود یہ ملک قائم اور مستحکم ہے تو اسے صرف رب کا کرم ہی کہا جا سکتا ہے اور اسی رب نے ہمیں جمعہ کے روز بھی ایک بڑی سازش اور بحران سے بچا لیا، خدا نخواستہ یہ سازش کامیاب ہو جاتی تو ہمارے لئے اقتصادی اور سفارتی دونوں محاذوں پر کھڑا ہونا مشکل ہو جاتا۔
سازش کرنے والا بھی تو دیکھیں کون تھا، گریڈ 20 کا افسر، جسے اس ملک نے نام دیا، اتنا بڑا عہدہ دیا، لیکن اس کی وفاداری کہیں اور نکلی، وہ اسی فصل کو تباہ کرنے کی سازش میں ملوث نکلا، جس کے دانے وہ کھاتا ہے، جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں اقتصادی امور ڈویژن کے افسر ضرار حیدر کی، جس نے کویتی وفد کا بٹوہ چوری کرکے اپنے اندر موجود کالک کے چھینٹے ملک پر ڈالنے کی سازش کی، لیکن رب کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ بروقت پکڑا گیا، اس سے تو انکار نہیں کہ مہمان وفد کے سامنے وہ ہماری بے عزتی کا سبب بن گیا، یقیناً مہمان اس واقعے سے بدمزہ بھی ہوئے ہوں گے، مگر اس کا پکڑا جانا ہمیں ایک بڑی سازش اور بحران سے بچا گیا، کیوں کہ جو اطلاعا ت زیر گردش ہیں، ان کے مطابق ضرار حیدر بٹوہ چند سو یا ہزار دیناروں کے لئے چوری نہیں کر رہا تھا، بلکہ اس نے بٹوہ جاسوسی آلہ لگانے کے لئے اٹھایا تھا اور یہ آلہ لگا کر اس نے بٹوہ کو اسی طرح واپس رکھ دینا تھا، ان اطلاعات کی کسی جانب سے تردید سامنے نہیں آئی، جو حالات و واقعات ہیں، وہ بھی ان اطلاعات کو تقویت دیتے ہیں، اس لئے ہم اسی منظرنامے پر بات کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اول تو یہ ماننا ہی مشکل ہے کہ گریڈ 20 کا کوئی افسر بٹوہ میں موجود دیناروں کے لئے اتنا بڑا خطرہ مول لے گا، اپنے مستقبل کو دائو پر لگائے گا۔ ضرار حیدر جیسے بے کردار گریڈ 20 کے افسر کے لئے یہاں ناجائز کمائی کے اتنے مواقع موجود ہوتے ہیں کہ بٹوہ میں موجود دیناروں کی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہوتی، تو وہ کیوں ایسی حرکت کرے گا؟ پھر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، بٹوہ چوری کرنے کا تو سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ بندہ پکڑا جائے گا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اسی نکتے نے تفتیش کاروں کے کان کھڑے کئے اور انہوں نے ضرار حیدر سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ یہ معاملہ چوری نہیں، بلکہ جاسوسی کی طرف جا رہا ہے۔ زیرگردش اطلاعات کے مطابق موصوف ایک ہمسایہ مسلم ملک کی خفیہ ایجنسی کے لئے کام کر رہے تھے اور بٹوہ چرانے کا مقصد اس میں چپ لگانا تھا، اگر وہ چپ لگا کر اسے واپس رکھنے میں کامیاب ہو جاتے، تو ان کا مشن مکمل ہو جاتا۔ انہوں نے پکڑا بھی نہیں جانا تھا، کیوں کہ کم از کم فوری طور پر تو کویتی وفد کے رکن کو اس کا شک نہیں ہوتا، آج کل جاسوسی کے آلات اتنے مائیکرو میں آگئے ہیں کہ انہیں نظر سے پکڑنا تو ممکن نہیں ہوتا، عموماً مخصوص آلات ہی ان کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
اگر یہ اطلاعات درست ہیں اور قرائن بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں، تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ پاکستان کے خلاف کتنی بڑی سازش تھی، ایک افسر کے ذریعے اس کے ہینڈلر ملک کی خفیہ ایجنسی پاکستان پر بڑا وار کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ یہ بات طے ہے کہ جاسوسی آلہ فوری تو نہیں، لیکن بالآخر پکڑا جانا تھا، ایسے میں کویتی وفد کا شک کسی فرد پر تو نہیں جانا تھا، بلکہ فطری طور پر وہ پاکستانی سیکورٹی اداروں پر شبہ ظاہر کرتے اور پھر یہ سوچتے کہ ایک دوست ملک کے ساتھ جو ان کی مدد کے لئے گیا تھا، کیسا سلوک کیا۔ پھر یہ معاملہ کویت تک محدود نہیں رہتا، کویت یقیناً دیگر عرب ملکوں کو بھی اس سے آگاہ کرتا۔ یوں پاکستان اندھیرے میں اس سازش کا شکار ہو جاتا، اگر کویت اس معاملے سے پاکستان کو آگاہ کر بھی دیتا، تب بھی شاید ہماری کوئی وضاحت اس کے لئے قابل قبول نہ ہوتی۔ یوں ہم اپنے دوست عرب ممالک کی حمایت کھودیتے، ان کی نظروں میں مشکوک ہو جاتے۔ وہ پاکستان سے منہ موڑ لیتے، کیوں کہ دل میں ایک بار بد اعتمادی جگہ بنالے تو اسے ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے لئے دوست عرب ممالک ہی ہمارا بڑا سہارا ہیں، جس کے لئے پاکستان کی نئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں مل کر کام کر رہی ہیں، لیکن ایک سازشی افسر ان سب کوششوں کو برباد کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور اس کے ہینڈلر ملک کا پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات بگاڑنے کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا۔ نقصان تو اب بھی ہوا ہے، بدنامی بھی ہوئی ہے، کویتی وفد سے مذاکرات میں حکومت کا زیادہ زور اس بات پر تھا کہ وہاں پاکستانیوں کے ورک ویزے پر گزشتہ سات برسوں سے لگائی گئی پابندی ہٹائی جائے اور پاکستانی ورکرز کے لئے کویتی مارکیٹ کھولی جائے۔ اس پر کویتی وفد نے آمادگی بھی ظاہر کر دی تھی اور مشترکہ کمیٹی بھی بن گئی ہے، لیکن اس واقعے کے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ اب بھی موجود ہے، اگرچہ امید ہے کہ کویت کو اس حوالے سے اعتماد میں لے لیا گیا ہوگا اور وہ بھی صورت حال کو سمجھ لے گا۔
اس سازش کا وقت بھی بہت اہم ہے، یہ واقعہ ایسے موقع پر پیش آیا ہے، جب ایک روز بعد سعودی عرب کا وفد بھی پاکستان میں سرمایہ کاری سے لے کر امداد تک کا وسیع ایجنڈا لے کر پہنچ رہا تھا، اگر خدا نخواستہ یہ سازش کامیاب ہو جاتی، تو ہم اس موقع سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے، کیوں کہ سعودیہ دیگر عرب ممالک کا عملی طور پر قائد ہے اور قطر کے علاوہ یہ ممالک اسی کی طرف دیکھتے ہیں، ایسے میں اگر کویت سے ہمارے تعلقات کسی سازش کی نذر ہو جاتے تو سعودی عرب بھی اس سے لازمی متاثر ہوتا۔
بات سے بات نکل آتی ہے، یہ واقعہ سامنے آیا تو ہماری پرویز مشرف دور میں اہم عہدے پر رہنے والے ایک دوست سے بات ہوئی، جسے کچھ تفصیل حذف کرکے ہم بیان کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اس بار تو ہم بچ گئے ہیں، لیکن پرویز مشرف دور میں تو ایسی ایک سازش کامیاب ہوگئی تھی، ان کا کہنا تھا کہ سعودی وفد اس وقت ایک بڑے معاہدے کے لئے آیا ہوا تھا، وفد کا جہاں قیام تھا، وہاں ضرار حیدر کی طرح کے کسی بے کردار افسر سے کچھ ایسی حرکت کر دی اور وہ معاملہ سعودی وفد کی نظروں میں بھی آگیا، اس پر وفد ناراض ہوگیا، انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ ملاقات میں اس حرکت سے متعلق مواد پیش کیا اور معاہدہ کئے بغیر وفد واپس چلے گئے۔ وہ معاہدہ نہ ہونے سے پاکستان کو اتنا نقصان ہوا کہ اس کی قیمت ہم آج تک ادا کر رہے ہیں۔ اب جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہو گیا، لیکن ضرار حیدر جیسے بے کردار فرد کا اتنے اہم عہدے پر پہنچنا ہمارے نظام میں بڑی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے، اس خرابی کو فوری دور کرنے کی ضرورت ہے، افسران کی بھرتی اور ترقیوں کے نظام میں اسکروٹنی بہت سخت کرنے کی ضرورت ہے، ان کی پوری چھان بین ہونی چاہئے اور صرف سول اداروں نہیں، بلکہ سیکورٹی اداروں کی کلیئرنس بھی لازمی قرار دینی چاہئے، کیوں کہ اہم عہدوں پر پہنچا ہوا محض ایک فرد پورے ملک کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment