سعودی عرب سے اقتصادی تعاون کی اپیل!

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گہرے دینی، سماجی اور اقتصادی تعلقات کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود ان میں کوئی واضح تبدیلی کبھی نظر نہیں آئی۔ دونوں ممالک دین کے مضبوط رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب میں واقع حرمین شریفین تمام مسلمانان عالم کی طرح، بلکہ ان سے کہیں زیادہ پاکستانیوں کی روحانی طاقت اور عقیدت کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حج اور عمرے کے لئے جانے والوں میں پاکستانی باشندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو تین مسجدوں کے لئے سفر کرنے کی اجازت ملی ہے۔ نبی اکرمؐ کا قول مبارک ہے کہ تین مساجد کے سوا کسی اور مسجد کی زیارت کے لئے سفر کا خصوصی اہتمام نہ کیا جائے۔ ان میں مسجد الحرام یعنی بیت اللہ (خانہ کعبہ)، مسجد نبویؐ اور مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلہ اول) شامل ہیں۔ ان مساجد کی برکت واہمیت ظاہر کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری جگہ کی پانچ سو نمازوں کے برابر، مسجد نبویؐ میں ایک ہزار اور مسجد الحرام میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ سعودی عرب میں واقع ہیں، اس لئے پاکستان کے مسلمان خیرو برکت حاصل کرنے کے لئے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں حج اور عمرہ کرنے وہاں جاتے ہیں۔ سعودی حکام کو بھی اندازہ ہے کہ اہل پاکستان ان کی مملکت اور عوام سے کتنی محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مدد کی ہے۔ اس طرح پاکستان کے ڈاکٹروں، انجینئروں اور استادوں کے علاوہ دیگر ماہرین اور محنت کشوں نے ہر شعبہ زندگی میں سعودی مملکت کی بے حد خدمت کی ہے۔ جو یقیناً ان کے اچھے روزگار کا ذریعہ بھی رہا ہے۔ سعودی عرب کے تحفظ و سلامتی کو پاکستان نے ہمیشہ فوقیت دی ہے۔ آج بھی سعودی قیادت میں کئی مسلم ممالک کی افواج پر مشتمل خصوصی فوج پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں قائم اور برسرکار ہے۔ عمران خان کے برسر اقتدار آنے سے پہلے عام خیال یہ تھا کہ ان کا رجحان مذہب کی جانب کم اور مغربی تہذیب کی جانب زیادہ ہونے کے باعث وہ بھی آصف علی زرداری کی طرح سعودی مملکت سے تعلقات میں گرمجوشی نہیں دکھائیں گے۔ لیکن انہوں نے سعودی عرب سے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز کرکے نہ صرف اس تاثر کو غلط ثابت کردیا۔ بلکہ اب تو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شعبے میں ایک نئے اور پر جوش دور کا آغاز نظر آتا ہے۔ سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز، ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور دیگر زعماء اس امر سے بے خبر نہیں ہیں کہ پاکستان مسلم دنیا میں ایٹمی صلاحیت کا حامل پہلا اور واحد ملک ہے اور اس کی فوجی و افرادی قوت اپنی صلاحیت، علم اور تجربے کا لوہا ساری دنیا سے منوا چکی ہے۔ گویا روحانی و مادی طاقت کے حامل دونوں ممالک امت مسلمہ کی بہت بڑی قوت ہیں اور ان کے درمیان خوشگوار تعلقات مسلمانوں کی تقویت کا باعث ہیں۔ وطن عزیز کو شدید اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے سعودی عرب کا ایک وفد وزارت توانائی، صنعت اور معدنی وسائل کے مشیر احمد حمید الغامدی کی قیادت میں ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے۔ اس موقع پر سعودی عرب سے ادھار تیل لینے کی باضابطہ درخواست کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو تین ماہ تک روزانہ دو لاکھ بیرل تیل فراہم کیا جائے تو اسے اپنے اقتصادی بحران پر قابو پانے میں بڑی مدد ملے گی۔ پاکستان نے سعودی سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی ہے۔ سعودی وفد نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر میں سرمایہ کاری کے لئے پہلے ہی دلچسپی ظاہر کر دی ہے۔ سعودی وفد کو سونے اور تانبے کے ریکوڈک منصوبے پر بھی بریفنگ دی گئی، جسے حکومت مخالف حلقے پاکستان کے قیمتی قدرتی وسائل کو سعودی عرب کے ہاتھوں فروخت کرنے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ سی پیک منصوبے کا تیسرا بڑا پارٹنر بننے پر سعودی عرب نے گوادر میں دنیا کا دوسرا بڑا آئل سٹی بنانے کا اعلان کر رکھا ہے، جس سے اہل وطن کو روزگار کے وسیع مواقع حاصل ہوں گے۔ نئی حکومت کی جانب سے اپنے دعوئوں کے برعکس قرض اور امداد کی اپیل پر حیرت کا اظہار فطری امر ہے، لیکن سعودی عرب سے مالی تعاون اور صنعتی و تجارتی روابط کا فروغ مغرب کے استحصالی اور سود خور مالیاتی اداروں کے آگے کشکول بڑھانے سے بہتر ہے، بشرطیکہ اس کے نتیجے میں عوام کی مفلسی کا خاتمہ اور خوشحالی کے دور کا آغاز ہو سکے۔
وزیراعظم عمران خان کا پہلا بڑا امتحان
سپریم کورٹ کی جانب سے بے لاگ اور بلا امتیاز انصاف کی فراہمی کے اقدامات اور فیصلوں کے باوجود اگرچہ اب تک لوٹی ہوئی رقم کا قابل ذکر حصہ تو سرکاری خزانے میں نہیں آسکا ہے۔ لیکن اس جانب کام کی تیز رفتاری کے باعث توقع کی جا رہی ہے کہ بالآخر پاکستان کی ریاست اور قوم یہ منزل بھی حاصل کر لے گی۔ سپریم کورٹ کی غیر جانبداری کا اندازہ اس امر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیر اعظم عمران خان کے رہائشی علاقے بنی گالا کے تجاوزات کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان سب سے پہلے اپنا گھر قانون کے دائرے میں لائیں۔ سب سے پہلا جرمانہ ان ہی کو ادا کرنا ہوگا۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان بطور درخواست گزار عدالت میں آئے تھے کہ لوگوں نے کورنگ نالے پر تجاوزات قائم کر رکھی ہیں۔ آج وہ وزیراعظم ہیں اور بتائیں کہ بنی گالا تعمیرات کے حوالے سے انہوں نے کیا اقدامات کئے؟ عمران خان کے اپنے گھر کے این او سی کا بھی تنازع تھا؟ اس سلسلے میں انہوں نے کیا کیا؟ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واضح کیا کہ عدالت عظمیٰ کو جمعہ تک آگاہ کردیں کہ بنی گالہ کے حوالے سے کیا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم اسی ہفتے میں حکم جاری کرکے کیس نمٹا دیں گے۔ یہ وزیراعظم عمران خان کے لئے پہلا ٹیسٹ کیس اور بڑا امتحان ہے، جس میں پورے اتر کر ہی وہ اپنا اعتبار اور اعتماد قائم رکھ سکیں گے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment