ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
آج سے بیس تیس برس قبل جب کمپیوٹر اور موبائل فون جیسی چیزیں نہیں آئی تھیں، بچے اپنا وقت بالخصوص رات کو سوتے وقت اپنے بڑوں کے ساتھ گزارتے تھے اور ان کی ایک ہی فرمائش ہوتی تھی کہ انہیں کہانی سنائی جائے، عموماً ان کہانیوں میں جنوں اور پریوں کی باتیں ہوتی تھیں یا پھر کسی نیک لکڑہارے کا تذکرہ، جسے کئی بار اچانک دولت مل جاتی تھی، کبھی اس کا ذریعہ کوئی پری بنتی اور کبھی جنگل میں اسے ملنے والا کوئی بادشاہ۔ یوں وہ لکڑہارا جو لکڑیاں کاٹنے جنگل میں گیا ہوتا تھا، واپس گھر آتا تو زر سے مالا مال ہو چکا ہوتا، خود کو کسی زرستان کا شہری سمجھنے لگتا۔
یہ تو کہانیاں تھیں، لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ کہانیاں کسی دور میں عملی شکل میں ظاہر ہونے لگیں گی، لکڑہاروں کا دور تو ختم ہوگیا، لیکن ان کی طرح غریب فالودہ فروش یا جھنگ کے کسی بے روزگار نوجوان پر اچانک یہ انکشاف ہوگا کہ وہ تو ارب پتی ہیں، ان پر تو زر برس چکا ہے، یوں تو پاکستان انگریزوں کی طرح ان کی جانشین اشرافیہ کے لئے شروع سے ہی زرستان بنا رہا ہے، لیکن زر والوں کا نیا طریقہ واردات دیکھ کر تو کہا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کو سمندر کی لہریں گننے پر لگا دیا جائے تو یہ اس سے بھی زر بنانے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے۔ یادش بخیر نوے کی دہائی میں ایک زر پرست شخصیت کو زر بنانے سے دور رکھنے کی کوشش میں ایک ایسی وزارت دی گئی تھی، جو دینے والے کی نظر میں بالکل بے جان تھی، لیکن اس شخصیت نے اس وزارت کو اپنے لئے زر بنانے کی ایسی مشین میں بدل دیا تھا کہ باقی وزراء ان سے حسد کرنے لگے تھے۔
خیر کچھ برس قبل تک کراچی سے یہ خبریں آتی تھیں کہ وہاں ’’نامعلوم‘‘ افراد نے اتنے بندے مار دیئے، بازار بند کرادیئے۔ کراچی کے یہ ’’نامعلوم‘‘ سب کو معلوم تھے، لیکن جب تک وقت ان کے ساتھ رہا، وہ ’’نامعلوم‘‘ ہی کہلاتے تھے، اب بھی کراچی سے ’’نامعلوم‘‘ کی خبریں آرہی ہیں، لیکن یہ ’’نامعلوم‘‘ بندے مارنے یا ہڑتالیں کرانے والے نہیں، بلکہ یہ تو بہت اچھے ’’نامعلوم‘‘ ہیں، جو لوگوں کے نام پر اکائونٹ کھلوا کر ان میں کروڑوں اور اربوں روپے جمع کرا دیتے ہیں۔ سابقہ ’’نامعلوم‘‘ کی طرح جب تک ان ’’نامعلوم‘‘ لوگوں کے ساتھ بھی وقت تھا، ان کے اکائونٹ بھی ’’نامعلوم‘‘ رہے اور وہ لوگوں کے ناموں پر اپنا کھیل کھیلتے رہے۔ اس ملک کو زرستان سمجھ کر زر یہاں سے جمع کرکے باہر لے جاتے رہے، لیکن وقت بدلا تو سابقہ ’’نامعلوم‘‘ مخلوق کی طرح ان کے چہرے بھی معلوم ہونے لگے ہیں۔ ’’نامعلوم‘‘ افراد کی جانب سے کروڑوں روپے جمع کرانے کا پہلا کیس کراچی میں پی پی پی کی سابقہ وفاقی حکومت کے دور میں سامنے آیا تھا، جب اس وقت کے وزیر تجارت مخدوم امین فہیم (اب مرحوم) کے اکائونٹ میں بھاری رقم پائی گئی تھی۔ انہوں نے یہ رقم کسی ’’نامعلوم‘‘ کا عطیہ قرار دی تھی۔ لگتا ہے زر والوں کو یہ آئیڈیا وہیں سے آیا ہوگا کہ کیوں نہ ’’نامعلوم‘‘ لوگوں کے نام پر اکائونٹ کھلوا کر اپنے معلوم ایجنٹوں سے ان میں رقوم جمع کرائی جائیں، تاکہ ان کا زر کا دھندہ بھی چلتا رہے اور وہ ’’نامعلوم‘‘ بھی رہیں۔
چلیں اس دھندے کی وجہ سے ہم پاکستانیوں کی کچھ احساس محرومی تو کم ہوئی ہے، ورنہ لوگ باقی ملکوں کے بارے میں یہ پڑھتے تھے کہ وہاں کسی کی بڑی لاٹری لگ گئی ہے، غریب آدمی اچانک امیر ہو گیا ہے، باقی ملکوں میں تو پھر بھی لاٹریاں لگتی ہیں اور انہیں پہلے خریدنا پڑتا ہے، لیکن ہمارے ہاں تو فالودہ فروش سے لے کر بے روزگار نوجوان تک سب پر اچانک زر برسا ہے اور وہ بھی بنا بتائے۔ انہیں تو اس وقت پتہ چلا جب ایف آئی اے کا نوٹس یا اہلکار ان کے گھر پر آن پہنچا۔ ایف آئی اے کو چاہئے کہ جن لوگوں پر جعلی اکائونٹس کے ذریعے ’’نامعلوم‘‘ لوگوں کا زر برسا ہے، انہیں نوٹس اور ٹینشن کے علاوہ اکائونٹس میں جمع رقم میں سے بھی کچھ دے۔ آخر اتنا تو ان کا بھی حق بنتا ہے۔
’’نامعلوم‘‘ افراد کی طرف سے جعلی اکائونٹس کھولنے کا معاملہ بہت بڑا ہے۔ یہ پورے بینکنگ نظام پر بھی سوال ہے، کہ جو بینکر غریب آدمی کا اکائونٹ کھولنے پر تیار نہیں ہوتے، ان سے دس دستاویزات مانگتے ہیں، وہ زر کے لئے کتنے آرام سے غریبوں کے نام پر ’’نامعلوم‘‘ افراد کو اکائونٹ کھول کر استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ مگر حیرت ہے کہ ہمارے ’’جمہوریت‘‘ پسند رہنما اس پر پارلیمنٹ میں کوئی بات نہیں کر رہے۔ چلیں باقیوں کو تو چھوڑیں، یہ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی تو بہت ’’اصول‘‘ پرست ہیں، ہر قومی معاملے پر ان کی نظر ہوتی ہے، لیکن کمال ہے ان ’’نامعلوم‘‘ افراد کے اکائونٹس پر انہوں نے ایک لفظ نہیں کہا، نہ کوئی تقریر اور نہ کوئی تحریک۔ نہ فالودہ والے کا ذکر اور نہ جھنگ کے غریب نوجوان کا تذکرہ۔ بحث کی کوشش نہ مطالبہ۔ اس سے تو لگتا ہے کہ ان کی ’’اصول‘‘ پرستی بھی صرف ’’غیر زری‘‘ معاملات کے لئے ہے، جہاں سے زرستان کی حدود شروع ہوتی ہیں، وہاں رضا ربانی کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ ویسے ہمارا حکومت کو مشورہ ہے کہ اپوزیشن ان ’’نامعلوم‘‘ اکائونٹس پر بات نہیں کر رہی تو وہ خود اس کا ذکر چھیڑ کر دیکھ لے۔ جب ہر اہم قومی معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو یہ ’’نامعلوم‘‘ اکائونٹس بھی تو اہم بلکہ اہم ترین معاملہ ہیں، منی لانڈرنگ کی وجہ سے ہی تو ہم پر پابندیاں لگی ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭