مسعود ابدالی
شنید ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو ادھار تیل دینے پر راضی ہو گیا ہے اور پاکستان کو رقم کی ادائیگی کیلئے 90 روز کی مہلت دی جائے گی۔ معاشیات کے بارے میں ہماری معلومات صفر سے بھی کم ہیں، اس لئے اگر آپ چاہیں تو اس کالم کو پڑھے بغیر بھی اخبار لپیٹ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی عمر عزیز تیل کے دشت کی سیاحی میں گزاری ہے، لہٰذا چند نکات دعوت فکر کیلئے پیش خدمت ہیں:
خام تیل کے گریڈ: دنیا میں خام تیل کے درجنوں گریڈ ہیں، لیکن تجارتی بنیادوں پر 3 گریڈ پائے جاتے ہیں یعنی:
٭ بحر شمالی North Sea سے حاصل ہونے والا تیل برینٹ Brent کے نام سے مشہور ہے، جو سب سے عمدہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تیل ہائیڈروجن سلفائڈ اور دوسری مضر صحت گیسوں اور الائشوں سے پاک ہے، اس لئے کثافت (Density) کے اعتبارسے بہت ہلکا ہے۔ یہ دنیا میں سب سے مہنگا بکتا ہے۔ آج کے دن اس کی قیمت 84.83 ڈالر فی بیرل ہے۔
٭ امریکہ سے نکلنے والا تیل WTI یا ویسٹ ٹیکسس انٹرمیڈیٹ کہلاتا ہے۔ ٹیکسس Texas کے تیلیوں کا دعویٰ ہے کہ WTI کا معیار برینٹ سے بہت بہتر ہے، لیکن تیل کے آڑھتی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اس لئے یہ برینٹ سے نسبتاً سستا ہے۔ آج اس کی قیمت 75.22 ڈالر فی بیرل ہے۔
٭ اوپیک سمیت 15 ملکوں سے نکلنے والے تیل کو اوپیک باسکٹ (OPEC Basket) کانام دیا گیا ہے۔ جس میں الجزائر کا صحارا بلینڈ، ایران کا کثیف یا Heavy بلینڈ، بصرہ لائٹ، لیبیا کا صدرہ لائٹ، قطر کا میرین بلینڈ، سعودی عرب کا عرب لائٹ، متحدہ عرب امارات کے مربان بلینڈ کے علاوہ انگولا کانگو، ایکوڈور، گبون، کویت، نائیجیریا اور مشرقی گنی کا خام تیل شامل ہے۔ چند برس پہلے تک اوپیک باسکٹ کی تشکیل نہیں ہوئی تھی تو ایران کا کثیف تیل سب سے سستا تھا، جس کے بعد خلیجی تیل (قطر کے علاوہ) کو عرب باسکٹ کا نام دیا گیا تھا، جو WTI سے 5 ڈالر فی بیرل تک سستا بکا کرتا تھا۔ لیکن اب اوپیک باسکٹ کے نام پر ان 15 ممالک کا خام تیل برینٹ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور اس کی تازہ ترین قیمت 81.49 ڈالر فی بیرل ہے۔
تیل کی قیمتیں نقد اور ادھار الگ ہوتی ہیں۔ مثلاً نقد کی صورت میں اوپیک باسکٹ کے بجائے سعودی عرب کا تیل عرب باسکٹ کے حساب سے بھی خریدا جا سکتا ہے، جس کی قیمت گزشتہ روز 73.4 ڈالر فی بیرل تھی، لیکن ادھار پر پاکستان کو اوپیک باسکٹ کی قیمت ادا کرنی ہوگی، جو عرب باسکٹ سے 8.09 ڈالر فی بیرل زیادہ ہے۔
پاکستان دولاکھ بیرل تیل یومیہ ادھار پر خریدے گا، یعنی سالانہ خرچ 5 ارب 95 کروڑ ڈالر ہوگا، جب کہ نقد ادائیگی کی صورت میں 59 کروڑ ڈالر سالانہ کی بچت کی جا سکتی ہے۔
ہے تو سخت، لیکن بہتر یہی تھا کہ ادھار خریدنے کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے تیل کی خریداری نقد کی جائے۔ ادھار سودا قرض کی ہی ایک کیفیت ہے اور جب قرض کا بوجھ پہلے ہی ناقابل برداشت ہو تو ملک کو دلدل سے نکالنے کیلئے کمر کسنے کی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے۔ خاکم بدہن ادھار کی عارضی راحت دائمی مشکلات کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
یہاں ایک اور خطرہ تیل کی فراہمی میں تعطل کا بھی ہے۔ امریکہ نے 4 نومبر کے بعد ایرانی تیل کی برآمدات کو صفر کردینے کا عزم کیا ہوا ہے، جس کی ایران نے شدید مزاحمت کی دھمکی دی ہے۔ امریکہ اور ایران کشیدگی سے آبنائے ہرمز کا راستہ مسدود ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب سے تیل کے ٹینکر اسی آبنائے سے گزر کر بحر عرب میں داخل ہوتے ہیں۔ سعودی عرب ایشیا کیلئے بحر احمر کا راستہ بھی استعمال کرتا ہے، لیکن وہاں آبنائے باب المندب حوثیوں کے نشانے پر ہے اور ماضی قریب میں یہاں کئی بار بحری ٹریفک کی روانی میں خلل پڑ چکا ہے۔ اس پس منظر میں تیل کی فراہمی کیلئے ایک ملک پر بھروسہ مناسب نہیں اور پاکستان کو مشکل حالات کیلئے تیل نقد خریدنے کیلئے تیار رہنا چاہئے کہ امریکہ ایران تنازعہ کسی بھی وقت سنگین ہو سکتا ہے۔
بے تکان بولنے کی بیماری:
پرویز مشرف کی باقیات نے عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔ کسی دانا کا قول ہے کہ ڈکٹیٹر اپنے گرد بالشتئے جمع کرلیتے ہیں تاکہ ان بونوں کے جھرمٹ میں مردِ آہن دراز قد نظر آئیں۔ اسی فلسفے کے تحت بردہ فروش صدر نے نااہلوں کی ایک فوجِ ظفر موج اپنے گرد سجا رکھی تھی، جن میں سر فہرست دانیال عزیز اور فواد چودھری تھے۔ پرویز مشرف کے زوال پر دانیال عزیز کو نواز شریف نے اپنے تاج کی زینت بنا لیا اور جناب فواد چودھری عمران خان کیلئے سرخاب کا پر بن گئے۔
فواد چودھری صاحب کا کمال یہ ہے کہ موصوف بے تکان بولتے ہیں۔ پرویز مشرف نے ان کو سیکولر ازم کے آداب سکھائے، جن میں علمائے کرام کی تضحیک اور ختم نبوت و توہین رسالت قوانین کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار شامل ہیں۔ فواد چودھری کی مجبوری کہ پانچ سال تک سیکولرازم اور اسلام سے بیزاری کا علم اٹھانے والے کو ’’مدنی ریاست‘‘ کا عزم رکھنے والے عمران نے وزیر اطلاعات بنا کر سرکاری ترجمان مقرر کر لیا۔
جب آئین و نظریہ پاکستان کے مخالف پروفیسر عاطف میاں کو اقتصادی کمیٹی کا رکن نامزد کیا گیا تو اس پر دوسروں سے پہلے خود تحریک انصاف کے سنجیدہ طبقے میں بے چینی پیدا ہوئی۔ اس پر پرویز مشوف کا فواد چودھری جاگ اٹھا اور اس نے اس مطالبے کو انتہا پسندی قرار دیتے ہوئے ملائوں کو بے نقط سنائیں۔ عمران خان کی طرز سیاست کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ خان صاحب کسی معاملے کو ناک کا مسئلہ نہیں بناتے، بلکہ لوگوں کی بات بہت تحمل سے سنتے ہیں اور اگر اعتراض منطقی ہو تو اپنی رائے سے رجوع بھی کر لیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے عاطف میاں سے معذرت کرلی، جس انداز میں فواد چودھری نے عاطف میاں کی تقرری کا دفاع کیا تھا، اس لحاظ سے تو حکومت کی جانب سے رجوع پر انہیں مستعفی ہو جانا چاہئے تھا، لیکن چودھری صاحب ان سیاستدانوں میں سے ہیں، جن کا نہ ماضی ہے اور نہ مستقبل۔ چنانچہ وہ اسی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز فواد چودھری صاحب نے شیخی بگھارتے ہوئے کہا ہے کہ ’’فوج اور عدلیہ حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں۔‘‘ فوج تک تو معاملہ بالکل ٹھیک ہے کہ آئین کی رو سے مسلح افواج حکومت کی ماتحت ہیں اور آئینی حکومت کی پشتیانی ان کا فرض ہے۔ لیکن عدالت کے بارے میں ایسا کہنا جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق عدلیہ آزاد ہے، جس کا کام آئین کی حفاظت و تشریح اور عوام کے حقوق کی پاسداری ہے۔ عدالت ایک غیر جانبدار ریفری کی حیثیت سے تنازعات کو منصفانہ انداز میں نمٹاتی ہے۔ چنانچہ عدلیہ کو حکومت کا پشتیبان قرار دینا دراصل توہین عدالت ہے۔ تاہم فواد چودھری صاحب کی بے سروپا باتوں کو جیسے سب لوگ ہنس کر ٹال دیتے ہیں، ایسے ہی چیف جسٹس صاحب نے بھی ان کی اس احمقانہ لن ترانی کو نظر انداز کر دیا۔
٭٭٭٭٭