پاکستان کی تاریخ میں اسحق ڈار کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے وطن عزیز کو لوٹ کر ذاتی جائیدادیں اور اثاثے بنانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ وزیر خزانہ کی حیثیت سے انہوں نے متعدد بار ملک کو بھاری قرضوں اور عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبایا۔ حکمرانوں کو لوٹ کھسوٹ کے راستے دکھانے میں بھی انہیں کمال حاصل تھا۔ آج کل وہ اپنے خلاف کرپشن کیسز سے فرار حاصل کرکے بیماری کے بہانے لندن میں ہیں۔ بار بار طلبی کے باوجود وطن واپس نہ آنے پر احتساب عدالت نے لیگی دور کے وزیر خزانہ اسحق ڈار کے اثاثے نیلام کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے اس کا اختیار حکومت پنجاب کو دے دیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحق ڈار کی جائیداد نیلام کرنے سے متعلق نیب کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ سابق وزیر خزانہ کی تمام جائیدادیں اور اثاثے فوری طور پر قبضے میں لے کر انہیں اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت جب اور جیسے چاہے نیلام کرے۔ پاکستان میں اسحق ڈار کے اثاثوں کی تفصیل یہ ہے: گلبرگ لاہور میں ایک مکان، الفلاح ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں ان کی بیوی اور بیٹے کے نام تین پلاٹ، اسحاق ڈار اور ان کی اہلیہ کے نام پر اسلام آباد میں چھ ایکڑ زمین، اسلام آباد ہی کے پارلیمان انکلیو میں دو کنال کا ایک پلاٹ، ایاز بلڈرز کے تحت دو کنال کا ایک اور پلاٹ، اسلام آباد کی سینیٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ، ڈار اور ان کی بیوی کے پاس تین لینڈ کروزر، دو مرسیڈیز اور ایک ٹویوٹا کورولا گاڑی۔ اسحق ڈار اور ان کی اہلیہ نے ہجویری ہولڈنگ اور سوئی نادرن گیس میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ کئی بینکوں میں ان کے اکاؤنٹ ہیں اور بیرونی اثاثوں کی پوری تفصیل دستیاب نہیں۔ نیب نے فاضل عدالت کو صرف اتنا بتایا ہے کہ سابق وزیر خزانہ دبئی کی تین کمپنیوں میں شیئر ہولڈر ہیں، جبکہ وہاں تین فلیٹوں اور ایک مرسیڈیز گاڑی کے بھی مالک ہیں۔ تحقیقات کے مطابق یہ تمام مال و دولت، جائیدادیں اور اثاثے اسحق ڈار کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں جو جائز اور قانونی طور پر ان کے نہیں ہوسکتے، جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار میں انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے جتنے بھی بجٹ پیش کئے، ان سب میں خسارہ دکھا کر غریب عوام پر قرضوں، ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ لاد کر انہیں بے حال کردیا تھا۔ ان کے ادوار میں ملک پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھا کہ آخر میں ان قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے قرضے لینے پڑے، جبکہ قرضوں کی اصل رقم برقرار رہی۔ احتساب عدالت نے اسحق ڈار کو دسمبر 2017ء میں اشتہاری قرار دیا تھا، جبکہ چھ ماہ قبل ان کی جائیداد اور اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ بیماری کے بہانے ملک سے فرار ہوکر واپس نہ آنے والے سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کا مؤقف ہے کہ میں خوشی سے بیرون ملک نہیں بیٹھا ہوں، مجھ پر ٹیکس چوری کا الزام بے بنیاد ہے۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ میری جائیدادیں نیلام ہوتی ہیں یا نہیں۔ میں تو ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق چلوں گا، کیونکہ میں بیمار ہوں اور روزانہ کی بنیاد پر چیک اپ کراتا ہوں۔
اس عالم میں بھی اسحق ڈار کا طنطنہ ملاحظہ ہو کہ جب مجھے صحت اجازت دے گی اور فرعون اپنی فرعونیت سے نکلیں گے، میں ضرور اپنے ملک واپس آؤں گا۔ ان سب نے مل کر اتنا کام نہیں کیا، جتنا اکیلے میں نے کیا ہے۔ میرے اثاثے اللہ کی امانت ہیں، میں نے پہلے ہی نیت کرلی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میرے پیسوں سے یتیم خانہ چلے۔ اتنے خدا ترس اور پارسا بننے والے اسحق ڈار یہ کیوں نہیں بتاتے کہ انہوں نے یہ سارا مال و دولت کس طرح جمع کیا اور حکمرانوں کو لوٹ مار کے کیسے کیسے گر سکھائے کہ شریف اور زرداری خاندان قارون کے خزانے جمع کرکے عدالتوں میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ہر ملزم اور مجرم خود کو دنیا کا سب سے بڑا معصوم اور بے گناہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان سے فرار ہوتے وقت اسحق ڈار بیمار تھے نہ کمزور۔ لندن میں بھی انہیں نہایت مستعدی اور پھرتی کے ساتھ چلتے پھرتے یہاں تک کہ کیمروں سے چھپ کر بھاگتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں بوقت ضرورت ان کے ہاتھ میں تسبیح، پیشانی پر نماز کا نشان اور زبان پر اللہ و رسولؐ کی باتیں دیکھی اور سنی جاتی رہیں۔ نماز کا نشان ایک بار پیشانی پر بننے کے بعد چند روز میں غائب نہیں ہو جاتا، لیکن اسحق ڈار کی پیشانی پر یہ اکثر بنتا مٹتا رہا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے سچے، خدا ترس اور محب وطن ہیں۔ لندن میں بیٹھ کر ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل کرنے کی باتیں کرنے والے اسحق ڈار 1997ء سے لے کر 1917ء میں ملک سے فرار ہونے تک بیس سال کے عرصے میں صنعت و سرمایہ کاری، تجارت اور خزانے کے وزیر رہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی، پرویز مشرف اور شریف خاندان سمیت نہ جانے کن کن حکمرانوں کی خدمت کی۔ انہیں فائدہ پہنچایا اور خود بھی خوب مال سمیٹا۔ اس عرصے میں انہوں نے قومی خزانے کو لوٹنے کے سوا ملک میں اگر دوچار ہی اعلیٰ معیار کے اسپتال قائم کردیئے ہوتے، جن سے عوام کو کوئی فائدہ نہ ہوتا، تب بھی وہ خود اور ان کے سرپرست حکمران خاندان یہاں علاج کرانے کی سہولتیں حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن قومی خزانے سے بیرون ملک جا کر علاج کرانا بڑے لوگوں کا ہمیشہ ایک بہانہ ہوتا ہے اور اکثر وہ وطن واپس نہیں آتے۔ پرویز مشرف، حسین حقانی اور الطاف حسین جیسے نہ جانے کتنے اور کون کون پاکستانی ہیں، جو وطن واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بجائے غیروں کی پناہ اور غلامی قبول کئے ہوئے ہیں۔ اسحق ڈار درست کہتے ہیں کہ وہ خوشی سے بیرون ملک نہیں بیٹھے ہیں۔ ان کی مشکل یہ ہے کہ یہاں آنے پر انہیں حسب سابق لوٹ کھسوٹ کے مواقع حاصل ہونے کی اب کوئی امید نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ اپنے سابقہ جرائم پر جیل میں ڈالے جا سکتے ہیں۔ فرعون اور فرعونیت کے ملک سے نکلنے کے بعد وطن واپسی کا اعلان کم از کم اسحق ڈار کو تو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے اقتدار کے ہر دور میں خود بڑے فرعون بنے رہے ہیں۔ بلاشبہ سحق ڈار نے اکیلے جتنا (لوٹ مار کا) کام کیا اور دوسروں کو بھی سکھایا، اتنا شاید کسی اور نے نہ کیا ہو۔ اثاثوں کو اللہ کی امانت قرار دے کر انہوں نے اپنے دجل و فریب میں ذات باری تعالیٰ کو شامل کرنے کی جو جسارت کی ہے، اس کے نتیجے میں دنیا میں تو مجرموں کی طرح بھاگے بھاگے پھر ہی رہے ہیں، آخرت میں بھی عند اللہ ضرور ماخوذ ہوں گے۔ اس لئے انہیں یہی مخلصانہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہے، اس سے فائدہ اٹھا کر دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی سے بچنے کی کوشش کریں۔ اللہ بڑا غفور رحیم ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭