ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 24 میں ارشاد ربانی ہے: ’’آپؐ فرما دیجئے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو، خدا اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ خدا اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت کو ہر چیز پر مقدم قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے اس میں تنبیہ کی گئی کہ ٹھہرے رہو یہاں تک کہ خدا اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اور ایسے لوگ فاسقین میں سے ہیں، جو خدا اور اس کے رسولؐ پر دنیاوی اشیا کو فوقیت دیتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جس میں تین چیزیں ہوں گی، وہ اپنے اندر ایمانی حلاوت پالے گا: ایک وہ جس کے نزدیک خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت ہر چیز سے غالب ہوگی، دوسرے وہ بندہ جو کسی سے صرف خدا تعالیٰ کے واسطے محبت کرتا ہوگا اور ایسا شخص جس کو خدا نے کفر سے نجات دی پھر کفر کی جانب لوٹنے کو ایسا ہی ناپسند کرتا ہو جیسا کہ اس کو آگ میں ڈالا جا رہا ہو۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’خدا سے محبت کرو کہ تمہیں اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے اور مجھ سے محبت کرو خدا کیلئے اور میری وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔‘‘ (جامع ترمذی) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔‘‘ (صحیح بخاری)
محبت تین قسم کی ہوتی ہے، ایک وہ محبت جو تعظیم و تکریم کی وجہ سے ہو جیسے باپ کی محبت۔ دوسری محبت وہ جو پیار و شفقت کی وجہ سے ہو جیسے اولاد کی محبت اور تیسری قسم محبت کی وہ ہے جو احسان کی وجہ سے ہو جیسے کسی محسن سے محبت ہونا۔ آپؐ کا حق باپ اولاد اور ہر رشتے سے بڑھ کر ہے، اس لئے آپؐ کی وجہ سے ہم اپنے رب سے آشنا ہوئے۔ جہنم اور جنت سے واقف ہوئے اور گمراہی سے ہدایت کی طرف راہ پائی، اس لئے آپؐ کی ذات عالی ہی ہماری محبت کا منبع ہونا چاہئے، کیونکہ وہ باپ کی طرح شفیق و رحیم، محسن سے بڑھ کر احسان کرنے والا اور خطائوں کو درگزر کرنے والے ہیں۔
حضرت ابن ہشامؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اکرمؐ کے ہمراہ تھے، آپؐ حضرت عمرؓ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے، آپؐ سے حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’حضور! آپؐ مجھے ہر شے سے زیادہ عزیز ہیں سوائے میری جان کے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں جس کے قبضے میں میری جان ہے (تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں) جب تک کہ میں تمہاری اپنی جان سے زیادہ عزیز نہ ہو جائوں۔ تب حضرت عمرؓ نے فرمایا: اب آپؐ مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’اب اے عمر تمہارا ایمان مکمل، کامل ہوا۔‘‘ انسان کا اپنی ذات سے محبت کرنا ایک فطری اور دوسرے سے محبت کرنا ایک اختیاری شے ہے۔ حضرت عمرؓ کو تنبیہ کرنے پر وہ فوراً متنبہ ہوگئے اور سوچ سمجھ کر جواب دیا کہ ’’بے شک آپؐ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں کہ آپؐ ہی کے ذریعے ہمیں دنیا و آخرت کی ہلاکتوں سے نجات ملی ہے۔‘‘ کتاب الشفاء میں قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ سے محبت کی دلیل، سنت نبویؐ کی خدمت کرنا ہے۔ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کا دفاع کیا جائے اور اس بات کی تمنا کی جائے کہ اس راہ میں اگر جان و مال کی قربانی کا بھی موقع جائے تو یہ سعادت خوش نصیبی کی بات ہے۔ ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور اکرمؐ سے محبت کامل نہ ہو اور آپؐ کی محبت ماں باپ اولاد ہر شے سے بڑھ کر ہو۔ کیونکہ محبت ہی قلوب کی طاقت اور روح کی غذا ہے۔ یہی وہ ایمان و عمل کی بنیاد ہے، جس کے بغیر جسم بیکار ہے۔ جن مسلمانوں کو محبت اور حب رسولؐ کا یہ حصہ نصیب ہوا، وہی کامیاب و کامراں ہوگئے۔ اس لئے کہ ان کو اپنے محب کا ساتھ مل گیا۔
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور! آپؐ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جس نے کسی جماعت سے محبت تو کی، مگر ان جیسا عمل نہیں کر سکا؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر شخص اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی ہوگی۔‘‘ حضرت ابوذر غفاریؓ نے عرض کیا: ’’حضور! ایک شخص ایک جماعت سے محبت رکھتا ہے مگر وہ اس جماعت جیسا عمل نہیں کر سکتا؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اسی کے ساتھ رہو گے جس سے تم نے محبت کی ہوگی۔‘‘ حضرت ابوذر غفاریؓ نے کہا: ’’حضور! میں تو خدا اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک تم اسی کے ساتھ رہو گے، جس سے تم محبت کرتے ہو۔‘‘ ابوذر غفاریؓ نے کئی مرتبہ پوچھا اور آپؐ نے بھی متعدد بار یہی بات ارشاد فرمائی۔ (صحیح مسلم)
سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 31 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپؐ فرمادیجئے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ خدا تم سے محبت کرے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور خدا مغفرت کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔‘‘ سورۃ النساء آیت نمبر 69 میں ارشاد ہوا: ’’اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل فرمایا یعنی انبیائ، صدیقین، شہداء اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔‘‘
امام شعبیؒ اور علامہ قرطبیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ انصار میں سے ایک صحابیؓ نے عرض کیا: ’’حضور! جب آپ انتقال فرما جائیں گے اور ہم بھی وفات پا جائیں گے تو آپؐ اعلیٰ علیین میں اعلیٰ مقام پر ہوں گے اور ہم آپؐ کی نہ زیارت کر سکیں گے اور نہ آپؐ کی صحبت سے فیضیاب ہو سکیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید عرض کیا: ’’آپؐ مجھے میری جان آل و اولاد اہل عیال اور مال و دولت سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ اگر میں آپؐ کے دیدار سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی نہ کروں تو شاید میں زندہ نہ رہ سکوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کس وجہ سے رو رہے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ مرنے کے بعد بھی آپؐ جنت میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بلند و بالا مقام پر ہوں گے۔ لیکن اگر ہمیں جنت مل بھی گئی تو ہمیں آپؐ کی صحبت کہاں نصیب ہوگی۔ آپؐ یہ بات سن کر خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے بعد سورئہ نساء کی 69 نمبر آیت نازل ہوئی، جس میں خوشخبری سنائی گئی کہ جو لوگ خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل فرمایا۔ یعنی انبیاء اور صدیقین، شہداء اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔‘‘ اس آیت کے نزول پر آپؐ نے اپنے صحابیؓ سے فرمایا: ’’خوش ہوجائو۔‘‘ انہی صحابیؓ نے رسول اکرمؐ کی وفات کے موقع پر یہ دعا فرمائی کہ خدایا! مجھے بینائی سے محروم کردے تاکہ میں اپنے حبیبؐ کی وفات کے بعد کوئی چیز بھی نہ دیکھ سکوں۔ جب تک کہ میں اپنے حبیبؐ سے ملاقات نہ کرلوں اور اس دعا کے بعد اسی جگہ ان کی بینائی ختم ہوگئی۔ (تفسیر قرطبی جلد 5) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭