ایک مرد خود آگاہ ظہور الٰہی

چوہدری ظہور الٰہی ہماری سیاست کا ایک ایسا روشن باب ہے، جو تاقیامت آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتا رہے گا۔ ان کی شخصیت، ان کے اجلے کردار، معاشرتی سطح پر ان کی خدمات، ان کی جرأت، استقامت اور اپنے اصولوں سے گہری وابستگی اور اپنے پرائے کی تفریق کے بغیر ہر ضرورت مند کی حاجت روائی جیسی خوبیوں کو چند صفحات میں سمونا ممکن نہیں۔ ان کی زندگی کا ہر گوشہ ایک مکمل باب کا متقاضی ہے۔ ان کا نام بھی سنا تھا اور اپنے صحافتی جرنیلوں جناب محمد صلاح الدین شہیدؒ، محترم مجیب الرحمن شامی کی زبانی ان کی حق گوئی، معاملہ فہمی اور ہر خطرے سے بے نیاز ہو کر سچ ہی کہتے جانے کے واقعات بھی سنے تھے۔ 70ء کی دہائی کی اسمبلی میں بھٹو مرحوم کو للکارتے بھی دیکھا تھا اور اس تاریخی منظر کو کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا، جب حزب اختلاف کے ارکان کو ایف ایس ایف کے ہاتھوں ایوان سے اٹھا کر فٹ پاتھ پر پھینکا گیا۔ دنیا حیران تھی کہ جمہوریت کا یہ کون سا روپ ہے۔ البتہ یہ چوہدری ظہور الٰہی ہی تھے، جو جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنانے والوں کو تنبیہ کر رہے تھے۔ ان کے الفاظ کو بھلایا نہیں جا سکتا کہ ’’ظلم و زیادتی اور اختیارات کو تہذیب کے دائرے میں رکھو، تاکہ جواب دیا جائے تو برداشت کر سکو۔‘‘
یہ وہ زمانہ تھا جب قومی اسمبلی کے ایوان میں ارکان کے ڈیسک پر لگے ہوئے مائیک کا کنٹرول اسپیکر کے پاس نہیں تھا۔ کوئی بھی رکن انگلی کی ایک جنبش سے مائیک آن کر سکتا تھا اور یہ کام صاحبزادہ احمد رضا قصوری تواتر سے کرتے۔ کبھی کبھی وزیر اعظم بھٹو اسپیکر سے کہتے: ’’جناب اس کا منہ بند کریں۔‘‘ یہی احمد رضا کبھی جناب بھٹو کے منہ چڑھے جیالے تھے۔ اب سن تو یاد نہیں، مگر زمانہ بھٹو صاحب ہی کا تھا اور آزاد کشمیر میں تابع مہمل قسم کے اہلکار تعینات کئے جاتے تھے۔ اگست میں مسلم کانفرنس ستمبر کی جنگ آزادی کے حوالے سے نیلا بٹ کے مقام پر بڑا اجتماع کرتی۔ اس برس چوہدری ظہور الٰہی مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔ اخبار نویسوں کی ٹولی تو ایک روز قبل ہی دھیر کوٹ پہنچ چکی تھی۔ بہت رات گئے کچھ عجیب پراسرار آوازیں سنی گئیں، مگر یہ پتہ نہ چل سکا کہ کیا ہو رہا ہے۔ صبح بیدار ہوئے تو معلوم ہوا کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود چوہدری ظہور الٰہی نیلا بٹ پہنچ چکے ہیں۔ واپسی کے سفر پر پتہ چلا کہ چوہدری ظہور الٰہی کی گاڑی، ان کا ڈرائیور اور گارڈ پولیس کی تحویل میں ہیں۔ اس موقع پر کوہالہ پل پر بیٹھ کر چوہدری ظہور الٰہی نے جو تقریر کی، وہ سننے کے لائق تھی۔ تحریر میں نہیں لائی جا سکتی۔ مجاہد اول سردار عبد القیوم خان نے ایک گاڑی مہیا کی، جس کے ذریعے واپسی کا سفر ہوا۔ میری خواہش تھی کہ پہلے چوہدری ظہور الٰہی بخیریت ویسٹریج پہنچ جائیں، تاہم انہوں نے پہلے ریلوے روڈ اتارا۔
چوہدری ظہور الٰہی دوستوں کے دوست، ضرورت مندوں کے کام آنے والے، البتہ مخالفوں کے لئے شمشیر برہنہ تھے۔ بھٹو صاحب مرحوم کا انداز حکمرانی جاگیردارانہ تھا۔ بقول شخصے ان کی آرزو تھی کہ صبح کا سورج بھی ان کی مٹھی سے برآمد ہو۔ حزب اختلاف انہیں گوارا نہیں تھی۔ مخالفوں کی بات تو اور، ان کا اپنوں کے ساتھ بھی سلوک کسی طور تہذیب کے دائرے میں نہیں آتا۔ غلام مصطفی کھر، حنیف رامے، ملک سلمان، افتخار تاری، چوہدری ارشاد پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ تھے۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ان کے زمانے میں وزارت اطلاعات کے سیکریٹری مسعود نبی نور تھے جو ہر روز شام کو اخبارات کے لئے شہ سرخی تیار کر کے دفاتر کو بھیجتے، دوسرے دور حکومت میں جب پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی اور ایک دن لاہور میں حزب اختلاف کے مظاہرے پر پولیس اور ایف ایس ایف نے بے پناہ تشدد کیا، صبح کے اخبارات میں شہ سرخی تھی ’’بلدیاتی انتخابات کی تیاری مکمل کر لی گئی۔‘‘ ایسے ماحول میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اگر کوئی آواز گونجتی تو وہ چوہدری ظہور الٰہی کی تھی۔ وہ عجیب طبیعت کے مالک تھے۔ ان کے اتفاق و اختلاف کے رویوں پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ویسٹریج میں ان کا مردانہ حصہ ہر کہ و مہ کے لئے چوبیس گھنٹے کھلا رہتا۔ کسی آنے جانے والے سے ان کے ملازمین بلا امتیاز حسن سلوک سے پیش آتے۔ یہ طرز عمل ان کے صاحبزادے چوہدری شجاعت حسین جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں لوگ آج بھی ان کے زیر کفالت ہیں، کسی فرد کی اعلیٰ نسبی، خوئے دل نوازی کو جانچنے کے لئے تاریخ کے اوراق پھیر دینے یا شجرہ نسب تلاش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ مشک خود بولتی ہے۔ بیٹے کو باپ کا علم ازبر نہ ہو تو وہ وارث میراث پدر کیونکر ہو سکتا ہے۔ سو چوہدری ظہور الٰہی جتنے شفقت بھرے تھے، ان کے فرزند چوہدری شجاعت حسین ان کے بھتیجے چوہدری پرویز الٰہی بھی اس جذبے کو دل سے لگائے ہوئے ہیں۔
کس طرح بیان ہو ترا پیرائیہ تقریر
گویا سر باطل پر چمکتی ہوئی شمشیر
وہ زور ہے اک لفظ ادھر نطق سے نکلا
وہاں سینہ اغیار میں پیوست ہوئے تیر
گرمی بھی ہے ٹھنڈک بھی روانی بھی سکوں بھی
تاثیر کا کیا کہئے، ہے تاثیر سی تاثیر
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment