’’شاہی وظیفہ‘‘

سیلانی کے سامنے EOBI کی ویب سائٹ کھلی ہے اور مسکراتے بزرگ جوڑے کی تصویر سامنے ہے، جن کے چہرے سے اطمینان ہی اطمینان جھلک رہا ہے۔ اطمینا ن بھی وہ جو بے فکری کے باغ میں سکون کے ساتھ چہل قدمی کرتا دکھائی دیتا ہے اور بے فکری بھی وہ جس کی آواز پر آسودگی مسکراتی ہوئی چلی آ تی ہے۔ جب جیب میں سکے ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کافی ہوں تو بڑی حد تک پریشانیاں دور رہتی ہیں۔ یہ ’’نئے پاکستان‘‘ کا بزرگ جوڑا تھا، شاید اس لئے ان کے چہروں پر فقر و فاقے کی پرچھائیں نہ تھیں۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ ایسا سوئیڈش بڑھاپا کون کم بخت نہیں چاہے گا۔ اس وقت ناروے سوئیڈن اور ڈنمارک دنیا کی مثالی رفاہی ریاستیں ہیں، جہاں ضرورت مندوں اور خاص کر عمر رسیدہ لوگوں کو گرم جرابوں سے لے کر سیاہ تلخ کافی کے ڈبے بھی احترام کی مٹھاس کے ساتھ دیئے جاتے ہیں۔ وہاں انسان کے انسان سے رشتے کمزور ہیں، لیکن ریاست کا شہری سے رشتہ بڑا ہی مضبوط ہے۔ پاکستان میں ایمپلائیز آف اولڈ ایج انسٹی ٹیوشن کو ریاست اور محنت کش ریٹائرڈ شہری کے اس رشتے کا تعلق استوار کرنے کا ٹاسک سونپا گیا تھا، جو اس نے اپنی ویب سائٹ میں خوشحال بوڑھے جوڑے کی تصویر چسپاں کرکے بڑی حد تک تو پورا کر لیا ہے کہ لیجئے ہمارے پنشنر تو ایسے ہنستے مسکراتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی لانڈھی کراچی کے شفقت صاحب کا دعویٰ بھی غلط ثابت کر دیا ہے، جو کہتے ہیں کہ ای او بی آئی کی پنشن سے خالص زہر بھی نہیں مل سکتا، بندہ مہینے کے تیس دن کیسے گزارے؟
اسلام آباد میں سیلانی کے پاس کرنے کو کچھ خاص نہیں ہے۔ صبح سویرے نماز کے بعد لمبی چہل قدمی اور شیث خان کو کالج کے لئے میٹرو کے اسٹاپ تک چھوڑنے کے بعد وہ اس وقت تک فرصت سے ہوتا ہے، جب تک کوئی آ نہ جائے اور یہاں آنے والا بھلا کون ہے۔ یہاں ابھی سیلانی کے حلقہ احباب کا ’’ح‘‘ بھی مکمل نہیں ہوا۔ فرصت کے ان لمحات میں وہ لیپ ٹاپ لے کر دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ کمپیوٹر اسے دنیا بھر کے حالات و واقعات بتانے لگتا ہے۔ انڈونیشیا میں زلزلے سے لے کر امریکہ میں شاہ محمود قریشی کی مصروفیات تک، اس کے سامنے ہوتی ہیں۔ آج بھی وہ فرصت کے وقت میں فیس بک کھول کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک افغانی دوست ان بکس میں سیلانی کے سر ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں کا حق ہے کہ انہیں پاکستانی قومیت دی جائے اور سیلانی اس کے لئے آواز بلند کرے۔ یہ ایک حساس موضوع ہے۔ سیلانی صبح صبح کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہ رہا تھا، لیکن وہ سر ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایسا کرکے پاکستان افغانستان میں اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرسکے گا۔
یہ پڑھ کر سیلانی کا تو خون ہی کھول گیا ناں۔ اس کے ہاتھ کی بورڈ پر چلنے لگے: ’’جناب عالی! ہم نے تو سرخ ریچھ کو نکال باہر کیا تھا، آپ کی قیادت ہی اپنے اندر رینگنے والے اختلافات نہیں نکال سکی تھی، ورنہ کابل تو فتح ہو چکا تھا، انہی اختلافات کا نتیجہ ہے کہ آج امریکہ نے کابل کو اپنی کالونی بنا لیا ہے اور آپ لوگوں کا خون چوس رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیں ) UNAMA ( یونائیٹڈ نیشنز اسسٹنس مشن افغانستان کی رپورٹ پڑھ لیں۔ سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں اس سال کے چھ مہینوں میں 149 شہری مارے جاچکے ہیں، زخمی ہونے والے204 شہری اس گنتی میں شامل کرلیں تو نیٹو اور امریکی فوجیوں کے ہاتھوں سے اوسطاً روزانہ 58 شہری جان سے جاتے رہے ہیں یا زخمی ہو کر اسپتال پہنچتے رہے ہیں۔ یہ سب پاکستان تو نہیں کر رہا، خود آپ کی پارلیمنٹ میں اس کے خلاف تقریریں ہوتی رہی ہیں، ان کی خبر لیں، ہم سے کفارہ نہ مانگیں، ان کے ہاتھ پکڑیں‘‘۔
سیلانی بحث کے موڈ میں نہیں تھا، وہ یہ جواب دے کر فیس بک سے لاگ آؤٹ ہو گیا، تب اسے سیل فون نے کسی کی مس کال کی اطلاع دی۔ سیلانی نے سیل فون اٹھایا تو لانڈھی کراچی کے شفقت صاحب نے مس کال کے ذریعے کچھ یاد دلایا تھا۔ شفقت صاحب شیرپاؤ کالونی لانڈھی میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی ساری زندگی محنت مزودری کرتے گزری ہے، کبھی یہاں اور کبھی وہاں وہ محنت مزدوری کرکے گھر کی گاڑی کھینچتے رہے، ان کی زندگی ویسی ہی تھی جیسے ’’پرانے پاکستان‘‘ میں محنت کشوں کی ہوتی تھی، ان کی پرمشقت زندگی میں قدرے سکون تب آیا جب انہیں ایک ٹیکسٹائل مل میں ہاؤس کیپر کی ملازمت ملی، تنخواہ لگی بندھی تھی، لیکن کسی نہ کسی طرح گزارہ ہو رہا تھا۔ انہوں نے یہاں پندرہ برس کام کیا اور پھر بڑھتی عمر نے انہیں گھر بٹھا دیا۔ وہ خوش تھے کہ اب ان کی بوڑھی ہڈیاں آرام کریں گی، حساب کتاب کے رجسٹر سے بھی جان چھٹے گی اور سیٹھوں کی گھرکیوں سے بھی سماعت محفوظ رہے گی۔
ایسا ہی ہوا، ریٹائر منٹ کے بعد وہ گھر بیٹھ گئے اور ریٹائرڈ زندگی گزارنے لگے، لیکن ریٹائرڈ زندگی کے مسائل آئے تو گھبرا گئے۔ سیلانی سے کہنے لگے کہ ’’سیلانی صاحب! ای وی بی آئی کے پنشنروں کی بھی خبر لیجئے۔‘‘
’’سر پنشن لینے میں کوئی مسئلہ ہے؟‘‘
’’نہیں، پنشن تو آرام سے مل جاتی ہے، ای او بی آئی والے بینک اکاؤنٹ میں ڈال دیتے ہیں۔‘‘
’’پھر تاخیر کا مسئلہ ہوگا، لیکن یہ تو سب کے ساتھ ہوتا ہوگا ناں‘‘
’’نہیں جناب! یہ بات نہیں ہے، پنشن تو ہر مہینے کی پہلی یا دو تک اکاؤنٹ میں آجاتی ہے۔‘‘
’’سر پھر مسئلہ ہے کیا؟‘‘
’’پنشن بہت کم ہے، آپ کے خیال سے بھی کم، کسی طرح گزارہ نہیں ہوتا، دکھ بیماری آجائے تو ڈاکٹر کی فیس اور دوا دارو میں ہی ختم ہو جاتی ہے، میرے تو چار بیٹے ہیں، اتنا مسئلہ نہیں، لیکن جن کا گزارہ ہی پنشن پر ہے، وہ تو جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔‘‘
’’کتنی پنشن ہے؟‘‘
’’پانچ ہزار دو سو پچاس روپے۔‘‘
’’پانچ ہزاررررر…؟؟‘‘ سیلانی کے لہجے میں حیرت ہی ہونی چاہئے تھی۔
’’جی پانچ ہزار دو سو پچاس روپے، تین سال پہلے تو یہ چھتیس سو روپے تھی، پھر انہیں خیال آیا تو بڑھا دی، گزشتہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ پنشن کی رقم کم سے کم دس ہزار روپے کی جا رہی ہے، لیکن دس روپے بھی نہیں بڑھے، آپ مجھے بتائیں کہ ان پانچ ہزار روپوں میں ایک انسان کس طرح گزارہ کر سکتا ہے، حکومت کے پاس بڑے بڑے اکنامسٹ ہیں، کوئی ان پانچ ہزار روپوں سے ایک بندے کا کھانے پینے کا ہی بجٹ بنا کر دکھا دے۔‘‘
شفقت صاحب کے کسی لفظ سے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی۔ اگر ایک بزرگ جوڑا جسے سر چھپانے کے لئے اپنا مکان میسر ہو، تب بھی وہ اس پنشن سے جسم و جان کا رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتا، اگر وہ دو دو چپاتیاں یا نان بھی پانی میں ڈبو کر کھائیں، تو دو وقت کی روٹیوںکے لئے80 روپے درکار ہوں گے، اس میں ناشتے میں پراٹھا کھانے کی عیاشی بھی شامل کر لی جائے تو دو پراٹھوں کے تیس روپپوں کے ساتھ یہ خرچہ ایک سو دس روپے یومیہ اور ماہانہ 3300 روپے بن جاتا ہے، باقی بچ رہنے والے 1950 روپے میں زندگی کی کون سی ضرورت پوری ہو سکتی ہے؟ یہ جاننے کے لئے کسی آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی ضرورت نہیں۔
ای وی بی آئی سے صرف کارخانوں کے رجسٹرڈ ریٹائرڈ محنت کش ہی پنشن نہیں لیتے، اسٹیل ملز جیسے ادارے کے ریٹائرڈ ملازمین بھی اسی جانب دیکھتے ہیں۔ یہ ادارہ 78,33823 مزدور ہی رجسٹرڈ کر سکا ہے، جو بے چارے بنا پنشن کے یومیہ اجرت یا تین تین ماہ کے کنٹریکٹ پر محنت مزدوری کر رہے ہیں، انہیں تو جانے ہی دیجئے۔ ای او بی آئی کے پنشنروں کا تو کچھ احساس کر کے ان بزرگوں دکھیاروں کو کسی درجے کا انسان ہی تسلیم کرلیا جائے۔ انہوں نے ہمارے لئے اور اس ملک کے لئے اپنی جوانیاں گھلائی ہوتی ہیں۔ سیلانی شفقت صاحب کا شکوہ لے کر سوچ رہا ہے کہ اسلام آباد میں کسی پریس کانفرنس کے دوران پچپن روپے لیٹر کے خرچے میں ہیلی کاپٹر اڑانے والے وزیر اطلاعات کا سامنا ہو تو سیلانی عرض کرکے حجت پوری کرلے۔ وہ جانتا ہے کہ اس سے ہونا تو کچھ ہے نہیں۔ وہ یہ سوچتے ہوئے ای وی بی آئی کی ویب سائٹ کھول کر ان کی کارگزاریاں پڑھنے لگا۔ یہ ادارہ اپنے قیام سے اب تک ایک کروڑ محنت کشوں کو بھی رجسٹرڈ نہیں کر سکا۔ ان میں بھی محض 396396 پنشنر ہی یہ شاہی وظیفہ حاصل کر پاتے ہیں۔ ان خوش نصیبوں میں سے ایک بزرگ جوڑے کی مسکراتی تصویر EOBI نے اپنی ویب سائٹ پر چسپاں کرکے اپنے پنشنروں کے زخموں پر نمک چھڑک رکھا ہے۔ کوئی بتائے کہ پانچ ہزار دو سو پچاس روپے پانے والا کوئی بوڑھا بزرگ یوں آسودگی سے مسکرا سکتا ہے؟ ہے کسی کا اتنا جگرا؟ اس ویب سائٹ پر دیئے گئے اعداد و شمار اس حد تک شرمناک ہیں کہ انہیں تو فائلوں میں چھپا کر فولادی الماریوں میں چھپا دینا چاہئے، کجا کہے سینہ ٹھوک کر مشتہر کیا جائے!۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے ٹھوڑی کھجانے لگا اور EOBI کی ویب سائٹ پر مسکراتے بزرگ جوڑے کی تصویر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment