بزرگوں کو حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے بہت سی ایسی نعمتیں عطا ہوتی ہیں کہ دوسرے انسان ان سے محروم رہتے ہیں۔ ان میں ایک علم تمثیل بھی ہے۔ یہ بڑا ہی عجیب علم ہے۔ بڑے بڑے دقیق مسائل جن پر تقریر و تحریر عاجز آجاتے ہیں، وہ اللہ والے چند لفظوں میں کسی مثال کے ذریعے اس طرح حل کر دیتے ہیں کہ پڑھنے یا سننے والے حیرت میں پڑ جاتے ہیں اور مسئلہ دل میں اتر جاتا ہے۔ مثلاً:
(1) اکثر لوگوں میں یہ عادت بہت عام ہے کہ وہ شریعت کے اعمال کی حکمتوں کے معلوم کرنے میں وقت ضائع کرتے ہیں اور بعض اہل علم ان حکمتوں کی تحقیق ہی میں عمر ضائع کر دیتے ہیں، حالانکہ اگر کسی عمل کی حکمت یا اس کا راز معلوم نہ ہو تو کچھ بھی نقصان نہیں، کیونکہ اصل مقصود تو عمل ہے۔ قبر میں یہ سوال نہیں ہوگا کہ فلاں عمل کی کیا حکمت ہے، بلکہ سوال یہ ہو گا کہ وہ عمل کیا یا نہیں کیا؟ کیا تو کتنا کیا؟ اس کی مثال میں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ آپ کی جیب میں سکہ موجود ہے، جس سے آپ اپنی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ اس تحقیق میں لگے ہیں کہ یہ سکہ چاندی کا ہے یا سونے، تانبے یا دھات کا ہے۔ یہ کس فیکٹری میں ڈھالا گیا ہے۔ اس پر جو نقوش بنے ہیں، وہ اس پر کس طرح چھاپے گئے ہیں۔ اب بتائیے! اگر کسی کو سب باتیں معلوم ہو جائیں تو یہ سکہ اگر آٹھ آنے کا ہے تو آٹھ آنے ہی کا رہے گا، اس سے وہی کام نکلے گا، جو معلوم ہونے پر نکل سکتا تھا، اس تحقیق سے اس کی قیمت پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔
(2) بہت سے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ شریعت کے واجب اور ضروری احکام کے بجائے غیر واجب یعنی نوافل وظائف کی کثرت کو زیادہ قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ جن اعمال کا قرب الٰہی میں ہونا یقینی ہے، ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ ان کو حقیر سمجھنے کی بعض لوگوں کے نزدیک اکثر وجہ یہ ہوتی ہے وہ تو بہت عام ہیں، یہ سب ہی لوگ کرتے ہیں، ان میں خصوصیت کیا ہوئی؟ اگر حقارت کی وجہ یہ ہے تو پھر اس سے بڑا ظلم اور گناہ کیا ہوگا کہ جسے اللہ اور رسولؐ نے قرب کا ذریعہ بنایا ہے، اسے آپ حقیر سمجھتے ہیں۔ (معاذ اللہ)۔ کسی چیز کا عام ہونا یا سستا ہونا اس کا حقیر ہونا ہے تو آپ کے جیب میں جو سکے پڑے ہوئے ہیں، انہیں بھی پھینک دیجئے، مگر ان کی تو بہت حفاظت کی جاتی ہے، بلکہ ان کو بڑھانے کی مختلف تدبیریں کی جاتی ہیں، ایسے فاسد عقائد سے توبہ کرنی چاہئے۔
(ملفوظات حکیم الامت۔ جلد اول۔ ص: 59)
چھٹی انگلی
بعض تعلقات ایسے ہوتے ہیں کہ ناگوار ہوتے ہوئے بھی ان کو چھوڑنا سخت مشکل ہوتا ہے۔ ماں باپ اور اولاد کا تعلق بھی ایسا ہی ہے۔ ایک صاحب نے حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے عرض کیا کہ فلاں صاحب آنا چاہتے تھے، مگر اس کا لڑکا (نالائق ہے) کچھ رقم لے کر بھاگ گیا ہے، اس وجہ سے نہیں آ سکے۔ اس پر حضرت تھانویؒ نے ایک جواب دیا اور ایک مثال دی۔ جواب تو مضبوط ایمان کے تقاضے کے مطابق دیا اور مثال باپ اور نالائق اولاد کی طبعی شفقت کو ظاہر کرنے کے لیے دی۔ جواب تو یہ دیا ’’نکال باہر کریں، کس جھگڑے میں پڑے۔‘‘ پھر مثال دے کر فرمایا: نالائق بیٹے کی مثال یہ ہے، جیسے زائد انگلی نکل آئی ہے، اگر اس کو باقی رکھیں تو عیب ہے اور کاٹا جائے تو تکلیف۔
سبحان اللہ! عجیب مثال دی۔ اس مثال کی حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کو نالائق بیٹے یا بیٹی سے پالا پڑا ہو۔ آج کل حالات میں یہ تو تقریباً ناممکن ہو گیا ہے کہ ایک مشفق باپ اپنے نالائق بیٹے کو گھر سے نکال کر اس کی خبر نہ لے۔ مجبوراً اس اضافی انگلی کے عیب کو ساری زندگی بھگتنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کتنے گھرانے اس عمر بھر کی تکلیف سے دو چار ہوں گے۔
چمار اور موتی
بعض چیزیں ایک دوسرے سے متضاد ہوتی ہیں، مگر ان کو یکجا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص بڑا فقیہ، متقی اور عالم باعمل ہے، مگر وہ اپنے آپ کو ایک گنوار جاہل شخص سے کمتر سمجھتا ہے۔ کیونکہ اس کا یقین ہے کہ میرا علم و تقویٰ ایک بادشاہ کی عطا ہے، وہ ان کے چھیننے پر بھی قادر ہے، اس پر ایک مثال حضرت تھانویؒ نے بیان فرمائی۔
ایک بادشاہ نے ایک چمار کے پاس ایک لاکھ روپے کا موتی امانت کے طور پر رکھوایا، لوگوں پر اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ سمجھے کہ یہ چمار بادشاہ کا بڑا مقرب ہے اور وہ بھی غلط نہیں سمجھ رہے ہیں، کیونکہ ایک لاکھ کا موتی جیسی قیمتی چیز کسی معتمد کے پاس رکھی جاتی ہے، لیکن اس موتی کو لینے کے بعد اس چمار کی حالت پر غور کیجئے۔ اس پر اس وقت دو حالتیں غالب ہیں۔ ایک شکر اور خوشی کی کہ بادشاہ سلامت نے مجھے اس قابل سمجھا کہ وہ اپنی امانت میرے پاس رکھوائیں اور دوسری حالت خوف کی۔ وہ اس خیال سے لرزاں وترساں ہے کہ بادشاہ نے میری حیثیت سے زیادہ قیمتی امانت میرے سپرد کر دی ہے۔ کہیں اس کی امانت میں مجھ سے کوتاہی نہ ہو جائے۔ اب اس کو دو متضاد حالتوں کا سامنا ہے، شکر اور خوف۔ ان کو جمع کرنا آسان نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو چمار بھی سمجھ رہا ہے، اس امانت کی وجہ سے وہ صاحب نسب نہیں ہو گیا، مگر ایک بڑی قیمتی چیزیں فی الحال اس کے پاس ہے اور دوسرے اس پر رشک کر رہے ہیں۔
بعض اولیائے کرام کے یہاں سالکین کی اصلاح کے لئے ان کی سخت پکڑ کی جاتی ہے۔ بظاہر اس پکڑ کی وجہ بہت چھوٹی چھوٹی نظر آنے والی باتیں ہوتی ہیں، مگر ان کا منشاء بہت بڑا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ حضرات عین سزا کے وقت بھی خود کو اس مرید یا سالک سے کمتر سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک مرتبہ حضرت تھانویؒ نے لوٹے سے وضو کیا، وضو کے دوران ایک صاحب پیچھے آکر کھڑے رہے اور انتظار میں رہے کہ حضرت فارغ ہو جائیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ میری طبیعت پر ان کے اس طرح کھڑے ہونے سے گرانی ہوئی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ اس وضو کا پانی لینا چاہتے ہیں، میں نے وضو کیا اور ان پر نظر رکھی۔ میں کھڑا ہوا تو انہوں نے لوٹا اٹھا لیا۔ میں نے اسی وقت ان سے لوٹا لے لیا اور پوچھ گچھ کی۔ آخر معلوم ہوا کہ وہ برکت کے لیے یہ پانی لینا چاہتے تھے۔ اس پر حضرتؒ نے سخت پکڑ کی۔
اب دیکھنے میں تو یہ بہت ہی معمولی بات تھی، اس نے کوئی ناجائز عمل نہیں کیا تھا، اس پر اتنی سختی مناسب نہیں معلوم ہوتی، لیکن دیکھئے۔ اس چھوٹے سے عمل میں کتنی بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں۔ اول تو اپنے شیخ کے مزاج کے خلاف پیچھے اس طرح کھڑا ہونا شیخ کو تکلیف دینا ہے، جبکہ حضرتؒ کے قواعد و ضوابط کا ان کو علم بھی رہا ہوگا۔ دوسرے حضرتؒ کے یہاں ایسے تبرکات کو ناپسند کیا جاتا تھا، جس سے شیخ کی بزرگی کا اظہار اعتدال کے خلاف ہو۔ اگر شیخ کو بھی دکھانا ہو۔ اس میں ریاء کا شائبہ ہو جاتا ہے۔ یہ (غالباً) مغرب کا وقت تھا۔ حضرتؒ کو امامت کرنی تھی۔ ان سے سوال و جواب میں تاخیر کی وجہ سے پوری جماعت کو انتظار کرنا پڑا۔ اس میں ایذائے مسلم کا گناہ ہوا۔ یہ واقعہ اور بھی بہت سی نزاکتوں پر مشتمل ہے۔ بیچ میں مختصر کرکے یہ واقعہ اس لئے آگیا کہ اولیائے کرام کی بعض چھوٹی چھوٹی باتوں پر سختی میں کتنے فوائد شامل ہوتے ہیں۔
چپراسی اور بادشاہ
اگر ایک شخص بڑا عالم، بڑا متقی اور مقتدیٰ ہو، وہ اپنے مریدوں پر سختی کرنے کی وجہ سے خود بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے تو یہ تکبر ہے اور حرام ہے۔ لیکن اگر ایسا شخص اپنے علم و تقویٰ کو حق تعالیٰ کی عطاء سمجھ کر خوش ہو یا اقرار کرے کہ میں حافظ ہوں، قاری ہوں، عالم ہوں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے، مگر دوسرے لوگ جن کو یہ کمالات حاصل نہیں ہیں، ان کی تحقیر کرنا یہ سخت گناہ اور تکبر ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے حضرت تھانویؒ نے فرمایا:
اگر کسی بادشاہ کے بیٹے نے کوئی قابل سزا جرم کیا، بادشاہ نے اپنے کسی چپراسی یا جلاد کو بلا کر حکم دیا کہ شہزادے کو اسّی (80) کوڑے مارو۔ اب وہ چپراسی یا جلاد شہزادے کو کوڑے مار رہا ہے، مگر ایک لمحے کے لئے بھی اسے یہ خیال نہیں آئے گا کہ میں اس شہزادے سے افضل اور بہتر ہوں۔ وہ جانتا ہے کہ میں ایک معمولی چپراسی ہوں اور شہزادہ بادشاہ کا محبوب بیٹا ہے، اس وقت اس کی تربیت کیلئے اسے ایک معمولی آدمی سے سزا دلوائی گئی ہے۔
حضرتؒ فرماتے ہیں کہ ان بزرگوں اور مشائخ کی مثال بھی یہی ہے کہ ان کو حق تعالیٰ نے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے، یہ حکم دیا ہے کہ اس مرید کو اصلاحی کوڑے مارو۔ یہ بزرگ عین سزا کے وقت بھی اپنے آپ کو معمولی چپراسی ہی سمجھتے ہیں۔
راقم عرض کرتا ہے کہ اسی میں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ جس طرح بادشاہ کا بیٹا سزا کے وقت بھی بادشاہ کا محبوب ہے۔ اسی طرح خدا کے راستے پر چلنے والے طالبین اور سالکین بھی اس کے محبوب ہیں اور یہ سزا بھی ان کی عمدہ تربیت کے لئے دلوائی جا رہی ہے، یہ بزرگ خدا کے چپراسی ہیں، جو دنیا کے بڑے بادشاہوں سے بھی زیادہ باعزت ہیں۔
ظاہری تعظیم کی مثال
ظاہری تعظیم ایک ایسی چیز ہے، جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ دوسروں کا عمل ہے، جو کبھی صحیح ہوتا ہے اور کبھی غلط۔ کسی بزرگ کے لیے کھڑے ہوگئے وغیرہ۔ اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا: ظاہری تعظیم کی مثال ایسی ہے، جیسے اگر اس مجلس میں کوئی سانپ آجائے، تو سب کھڑے ہوجائیں گے، مگر ساتھ ہی جوتے کی تلاش بھی ہوگی۔
(حوالہ بالا۔ ص: 174)
٭٭٭٭٭