مہنگائی اور بڑی کابینہ کا بوجھ

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی المعروف اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں دس سے ایک سو تینتالیس فیصد اضافے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے، جس کا اطلاق ستائیس ستمبر 2018ء سے ہو گا۔ حالیہ اضافے کے بعد صارفین کو مزید چورانوے ارب روپے کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ ماہانہ پچاس کیوبک میٹر تک گیس استعمال کرنے والوں کے لیے گیس کے نرخوں میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ پانچ سو کیوبک میٹر گیس استعمال کرنے والوں کو تقریباً پندرہ ہزار روپے کے بجائے ساڑھے چھتیس ہزار روپے کے قریب گیس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے دعوئوں اور وعدوں کی روشنی میں اہل وطن نے یہ توقعات وابستہ کر لی تھیں کہ اگر وہ برسراقتدار آئی تو چاہے قیمتوں میں کمی نہ کرے، لیکن اضافہ ہرگز نہیں کرے گی، کیونکہ عمران خان اور ان کے ساتھی سابقہ دو بڑی پارٹیوں پر بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے الزامات لگا کر ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ ہم عوام پر مزید بوجھ لادنے کے بجائے ٹیکسوں اور قیمتوں میں کمی کر کے انہیں سہولتیں فراہم کریں گے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ ان دو اضافوں کے باعث ہر شے کی پیداواری لاگت بڑھے گی اور یوں مہنگائی کا ایک اور طوفان عام شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ تمام حکومتوں کا یہ آزمودہ حربہ رہا ہے کہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایسی بنیادی اشیا کو گراں سے گراں تر کر دیا جائے جو تمام اشیا پر اثرانداز ہو کر انہیں مہنگا اور عوام کی زندگی کو مزید اجیرن کر دے۔ تحریک انصاف کو بھی برسراقتدار آتے ہی آٹے دال کا بھائو معلوم ہو گیا اور وہ اپنے تمام دعوے اور وعدے بھول کر لوگوں کو سہولتیں دینے کے معاملے میں اپنی دیرینہ روایت کے مطابق ’’یوٹرن‘‘ لینے پر مجبور ہو گئی۔ اس کا یہ رویہ عام شہریوں پر بری طرح اثرانداز ہونے کے علاوہ مقامی صنعت و تجارت کو نقصان پہنچا کر برآمدات اور زرمبادلہ میں کمی کا ذریعہ بھی بنے گا۔ واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر صرف آٹھ ارب چالیس کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔ ملکی ذخائر کو شامل کیا جائے تو زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر چودہ ارب نواسی کروڑ ڈالر ہیں۔ تحریک انصاف نے عام انتخابات میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آگئی تو کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ کر کے لوٹی ہوئی قومی دولت چوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں سے واپس لے کر سرکاری خزانے میں جمع کرائے گی۔ اس سے ایک جانب ملک پر قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب عوام کے لیے ترقی و خوش حالی کے منصوبے شروع کئے جا سکیں گے۔ احتساب، عدالتی مقدمات، سزائوں کے نفاذ اور لوٹی ہوئی رقم واپس لانے میں کچھوے کی رفتار سے جو کارروائیاں ہورہی ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے اگر اپنی مدت پوری کر لی تو جاتے جاتے وہ بھی ملک کو خسارے میں چھوڑ کر جائے گی۔ اپنے یہاں یہ عجیب روایت پڑ گئی ہے کہ آنے والی نئی ہر حکومت سابقہ حکومت پر ملک کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاتی ہے، لیکن جاتے وقت وہ خود بھی اسی الزام کی مورد قرار پاتی ہے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں کے بارے میں ملک بھر سے شکایات موصول ہورہی ہیں کہ کہیں وہ لوگوں اور سرکاری اہلکاروں کو دھمکیاں دیتے ہیں تو کہیں بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ لوگوں کو نوازنے، تقرریوں اور تبادلوں میں میرٹ کو نظر انداز کرنے اور غلط کار افراد کو برادشت کرنے کی پالیسی ہر جگہ گامزن ہے، اصلاح کی کوئی مثال وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔ موجودہ حکومت کی ایک مشکل اور بھی ہے کہ وہ کسی ایک جماعت کی اکثریت سے وجود میں نہیں آئی ہے، حکومت کی تشکیل کے لیے پارلیمان میں بھان متی کا جو کنبہ اکٹھا کیا گیا تھا، اس کا ہر فرد حسب روایت اپنی اپنی فرمائشیں پوری کرانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مختصر کابینہ کے ذریعے امور مملکت چلانے کے دعویدار عمران خان اپنی کابینہ میں توسیع پر توسیع کئے جا رہے ہیں۔ اب تک چوتھی مرتبہ وزیروں کی تعداد میں اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اس طرح مزید چھ وزراء کو شامل کرنے سے کابینہ کے ارکان کی تعداد چونتیس تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں چوبیس وفاقی وزیر، چھ وزرائے مملکت اور مشیروں کے علاوہ وزیراعظم کے چار معاونین خصوصی ہوں گے۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی سودے بازی اور ان کے مطالبات پر وزیراعظم عمران خان کے جھکنے کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ سینیٹ کے سابق چیئرمین محمد میاں سومرو کو وزیر مملکت بنانے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے اسے ٹھکرا دیا۔ تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر بعد میں انہیں منا لیا گیا۔ نئے شامل کئے جانے والے چھ وزیروں سے پہلے کابینہ میں کئی وزراء ایسے ہیں جو جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں شامل رہ چکے تھے یا ان سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ محمد میاں سومرو بھی پرویز مشرف کے دور میں سینیٹ کے چیئرمین تھے۔ یاد رہے کہ آئین پاکستان کی شق نمبر بانوے کے تحت وزرائے مملکت سمیت کابینہ کے وزیروں کی تعداد ارکان پارلیمان کی کل تعداد کے گیارہ فیصد سے زائد نہیں ہو سکتی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود ارکان کی تعداد اس وقت چونکہ چار سو چھیالیس ہے لہٰذا وفاقی کابینہ کا سائز اننچاس ارکان سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ چھ نئے وزراء کی شمولیت کے بعد آئین کی مقرر کردہ تعداد کا ستر فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ گیارہ فیصد کی حد آخری ہے، جس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ہر حال میں پورا کیا جائے۔ اچھی حکمرانی کے دعویداروں کو مختصر ترین کابینہ کے ساتھ امور مملکت چلانے کے اپنے دعوے پر قائم رہنا چاہئے۔ لیکن کیا کیا جائے۔ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اتحادی جماعتوں کو خوش رکھنا ضروری ہے، خواہ اس کا قومی خزانے پر کتنا ہی بوجھ کیوں نہ پڑے اور وزراء کیسی ہی من مانی کیوں نہ کریں۔ انہیں نظر انداز کرنا مصلحت کا تقاضا ہے۔ واضح رہے کہ ایک وزیر کے ساتھ اس کے سیکریٹریٹ سمیت سیکڑوں افراد اور لوازمات ہوتے ہیں، جن کے اخراجات کا بوجھ بالآخر غریب عوام ہی پر پڑتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment